Hazrat Qazi Abul Fateh Mohammed Ameer ul Allah Farooqi

حضرت قاضی ابو الفتح محمد امیر اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ(برادر خورد شیخ الاسلام)

حضرت قاضی محمد امیر اللہ فاروقی کے جد اعلی حضرت شہاب الدین علی اعلقب بہ فرخ شاہ کابلی (افغانستان) تھے، مشہور صوفیائے کرام حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف بہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ آپ ہی کی اولاد امجاد میں ہوتے ہیں۔ حضرت قاضی امیر اللہ فاروقی  ؒ کی چھٹویں پشت کے جد حضرت قاضـی محمد تاج الدین فاروقی  ؒ بڑے زبردست عالم و فاضل اور فراست ایمانی کا پیکر تھے جب اورنگ زیب عالمگیر نے ۱۶۷۲ء دکن فتح کیا تو ان کو قندہار دکن کا قاضی یعنی ناظم عدالت کے منصب پر فائز کیا۔

شجر ئہ نسب

حضرت امیر اللہ فاروقی کانسب آپ کے والد گرامی حضرت ابو محمد شجاع الدین فاروقی رحمہ اللہ علیہ کی جانب سے خلیفہ ثانی خلافت اسلامیہ حضرت سیدنا عمر ابن خطابؓ سے جا ملتا ہے۔ اور والدہ مخدومہ کی جانب سے معروف صوفی بزرگ حضرت شیخ احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے۔ آپ کی کنیت ابو الفتح ہے۔

حضرت قاضی امیر اللہ فاروقی کی ولادت ۱۲۶۶ھ میں قیاس ہے کہ آپ کا شجر ہ نسب پدری تاریخ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ قاضی محمد امیر اللہ فاروقی بن قاضی ابو محمد شجاع الدین فاروقی بن قاضی محمد سراج الدین بن بدر الدین برہان الدین بن سراج الدین بن تاج الدین بن قاضی عبد الملک بن تاج الدین بن قاضی محمد کبیر الدین بن قاضی محمود بن قاضی کبیر بن قاضی محمود بن قاضی احمد ابن قاضی محمد بن یوسف بن زین العابدین بن نور الدین بن شمس الدین بن شریف جہاں بن صدر جہاں بن اسحاق بن مسعود بن بدر الدین بن سلیمان بن شعیب بن احمد بن محمد بن یوسف بن شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ کابل بن شیخ اسحاق بن شیخ مسعود بن عبد اللہ اصغر بن سیدنا ناصر بن سیدنا عبد اللہ بن سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔ مطلع انوار، مولانا مفتی محمد رکن الدینؒ۔ مطبوعہ ۱۴۰۵ھ حیدرآباد)

بیعت و خلافت

طریقت و تصوف میں اپنے نانا فخر المحدثین افضل المتاخرین حضرت مولانا شاہ رفیع الدین فاروقی قندہاری رحمہٗ اللہ سے سلسلہ عالیہ قادریہ و نقشبندیہ میں بیعت و خلافت سے ممتاز و مفتحر تھے۔

بعد ازاں معروف صوفی بزرگ حضرت حافظ محمد علی خیر آبادی علیہ الرحمہ سے سلسلہ عالیہ چشتیہ میں داخل بیعت 
ہوئے اس وقت حضرت خیر آبادیؒ حیدرآباد دکن میں تشریف فرما تھے۔ آپ کے تبحر علمی کی شہرت جب نواب سراج الملک بہادر مدار المہام وقت مملکت آصفیہ تک پہنچی تو انہوں نے از راہ قدر و منزلت ۱۲۶۳ھ وھارور کے مقام پر منصف (مجسٹریٹ) کے عہدہ پر فائز کیا ۱۴سال خدمت انجام دینے کے بعد نواب سرسالار جنگ اول نے نرمل کے صدر منصف کے جلیل القدر عہدہ پر ممتاز فرمایا۔ ۱۲۸۱ھ میں وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے اور ۱۲۸۸ھ میں آپ کی رحلت حیدرآباد ہوئی۔ حضرت مولانا شاہ میر شجاع الدین برہان پوری علیہ الرحمہ کے احاطہ درگاہ عیدی بازار میں آپ آرام فرما ہیں۔ (مطلع الانوار، صفحہ ۱۱ مولانا مفتی محمد رکن الدینؒ، مطبوعہ ۱۴۰۵ھ حیدرآباد)
حضرت قاضی ابو محمد شجاع الدینؒ کی دو بیویاں تھیں۔ زوجہ اول حضرت سانگڑے سلطان مشکل آسان قندہار کے سجادہ نشین کی صاحبزادی ، دوسری زوجہ حضرت محمد سعد اللہ قاضی کلمنور کی صاحبزادی انہی کے بطن سے دو صاحبزادے ہوئے ایک فضیلت جنگ حضرت علامہ شاہ محمد انوار اللہ فاروقی  ؒ اور دوسرے صاحب تذکرہ حضرت قاضی محمد امیر اللہ فاروقی۔

منصبِ قضاء ت

حضرت شاہ رفیع الدین قندہاری ؒ کی چار صاحبزادیاں تھیں، جن میں تیسری صاحبزادی کا عقد قاضی قندہار حضرت سراج الدین صاحبؒ سے ہوا۔ جن سے دو لڑکے تولد ہوئے۔ (۱) غلام فارو قی صاحب (۲) حضرت شجاع الدین فاروقی صاحب تھے۔ قاضی غلام علی صاحب کے فرزند غلام محمد صاحب تھے ان کے فرزند غلام احمد لڑکپن میں انتقال کرگئے اسی وجہ سے قندہار کی قضائت حضرت شجاع الدین صاحبؒ کے خاندان میں منتقل ہوگئی یہ منصب قضائت بلحاظ علمیت و قابلیت فضیلت جنگ مولانا انوار اللہ فاروقی  ؒکو حاصل ہوا لیکن آپ نے اپنے برادر حقیقی حضرت محمد امیر اللہ فاروقی صاحبؒ کے نام منتقل کردیا۔

ادبی کارنامے

حضرت قاضی محمد امیر اللہ فاروقی کے عہدمیں اردو زبان و ادب کا اچھا ذوق پیدا ہوگیا تھا اور اردو ادباء کی تصانیف متنوع موضوعات پرشائع ہوا کرتی تھیں اردو کے عظیم شاعر داغؔ دہلوی، صفیؔ اورنگ آبادی اردو کے سفینہ کو آگے بڑھا رہے تھے خود قندہار میں حضرت امین الدین کثرتؔ، منثی امیر حمزہؔ، حضرت شاہ رفیع الدین قندہاری جیسے اعلی ادبی ذوق رکھنے والی ہستیوں کا علمی ادبی سرمایہ تھا جس کا حضرت امیر اللہؒ نے ملاحظہ و مطالعہ  کیا ان سے فائدہ بھی اٹھا یا ہوگا یہی نہیں آپ کے برادر کلاں فضیلت جنگ مولانا انوار اللہ فاروقی  ؒ بھی اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی کتابیں تحریر فرما چکے تھے جس نے دکن کی ادبیات میں انقلاب پیدا کردیا تھا قاضی امیر اللہ فاروقی نے ان کتب سے بھی ضرور استفادہ کیا ہوگا

یہی وہ اسباب ہیں جن کی بناء پر آپ میں بھی تصنیف و تالیف کی تحریک پیدا ہوئی چنانچہ آپ کے ادبی سرمایہ میں حسب ذیل کتب کے نام ملتے ہیں۔
۱۔ مناقب شجاعیہ (فن تذکرہ و سوانح) ۲۔ صولت عثمانیہ (فن تاریخ) ۳۔ فوائد مفیدہ (فن تصوف)

مناقب شجاعیہ

’’مناقب شجاعیہ‘‘ آپ کی اولین ادبی کاوش ہے جو بڑی تقطیع کے ۱۴۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ فن تذکرہ و سوانح سے متعلق یہ کتاب مطبع شمس محمدی سے ۱۳۷۰ھ میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب حضرت حافظ میر شجاع الدین حسینی برہان پوری قدس سرہ (مصنف کشف الخلاصہ) کے حالات او رآپ کے شیخ طریقت فخر المحدثین افضل المتأخرین حضرت شاہ رفیع الدین قندہارؒ کے احوال و کرامات کے علاوہ دیگر سلاسل جیسے قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ، رفاعیہ کے بزرگوں کی سوانح و واقعات پر مشتمل ہے، مولانانے ’’مناقب شجاعیہ‘‘ کی تفہیم و تقسیم کے لحاظ سے پانچ ابواب کئے ہیں۔
باب اول: سلاسل علیہ میں جو کہ حضرت مولانا میر شجاع الدین حسین قدس سرہ کو مولانا شاہ رفیع الدین قدس سرہ سے پہنچے، باب دوم: سلسلہ نسب ایام طفولیت، سفر حج و بیعت وغیرہ، باب سوم: تصانیف، غزلیات، قصائد و مکاتب وغیرہ۔
باب چہارم: راجہ شنبھو پرشاد کا ابتدائی حال اور ان کا مشرف بہ اسلام ہونا، غلام مرتضیٰ کمندان کا مسلمان ہونا اور حضرت کے کرامات اور خرق عادات وغیرہ۔
باب پنجم: ان کرامتوں کے بیان میں ہے کہ جو آپ کے وصال کے بعد  ظاہر ہوئیں۔ فوائد مفیدہ پروفیسر اکبر الدین صدیقی کیمطابق  حضرت قاضی محمد امیراللہ فاروقی  ؒ کی دوسری تصنیف ایک مختصر  رسالہ موسوم بہ ’’فوائد مفیدہ‘‘ ہے۔ جس میں ’’ارباب ولایت و اصحاب کرامت کے مبارک اقسام جو کہ اس امت مرحومہ میں تا قیام قیامت عالم پر مامور ہیں‘‘ بتلائے گئے ہیں۔ یہ رسالہ بھی ۱۳۰۷ھ میں مطبع خیرخواہ دکن سے طبع ہوا۔ (مشاہیر قندہار، ص ۱۰۵۔۱۰۶، پروفیسر اکبر الدین صدیقی، شمس المطالع ۱۳۵۵ھ)
پروفیسر اکبر الدین صدیقی نے مذکورہ صرف دو ہی کتب کا تذکرہ کیا ہے جب کہ حضرت قاضی امیر اللہ فاوقی کی ایک اور تصنیف بھی پائی جاتی ہے جس کا نام ’’صولت عثمانیہ‘‘ ہے۔

صولت عثمانیہ

یہ کتاب فن تاریخ سے تعلق رکھتی ہے اور بڑی تقطیع کے ۱۴۴ صفحات پر محیط ہے۔ جس میں سلاطین بہمنیہ کا نسب نامہ مع عرصہ حکومت ماہ وصال اور اسماء گرامی چھ سلاطین آصفیہ اور ان کی مدت حکمرانی کی بصرات تاریخ جلوس و تاریخ وفات و 
مدفن قلمبند کیا گیا ہے۔ نیز اس کتاب میں احوال سلاطین قطب شاہیہ بھی تفصیل سے درج ہیں۔ جیسا کہ خود حضرت قاضی محمد امیر اللہ فاروقی  ؒ ’’صولت عثمانیہ‘‘ کے آغاز میں رقمطراز ہیں۔ ’’اس میں زمانہ قطب شاہیہ کے اکثر مشہور عمارات و واقعات کا ذکر ہے۔ اور حیدرآباد کے ابتداء حالات و واقعات اور بعد کے واقعات بھی تاریخ قطب شاہیہ سے استنباط کئے گئے‘‘
(صولت عثمانیہ، ص۳ ، حضرت قاضی امیر اللہ فاروقی، طباعت بعہد آصفجاہ سابع نواب میر عثمان علی خان) راقم الحروف شاہ محمد فصیح الدین نظامی کو اصل کتاب دستیاب نہ ہوسکی البتہ صولت عثمانیہ کی ایک نقل زیراکس جامعہ نظامیہ حیدرآباد کے کتب خانہ میں بفن تاریخ اردو ۷۱۹ موجود ہے چونکہ اس کتاب کا سرورق موجود نہیں ہے اس لئے اس کا سنہ طباعت بھی معلوم نہ ہوسکا، البتہ مصنف کے قلم سے اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب بعہد آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان مرتب کی گئی۔

وصال: حضرت قاضی امیر اللہ فاروقی کا وصال مورخہ ۵/رمضان المبارک ۱۳۵۰ھ میں ہوا۔




اولاد امجاد

حضرت قاضی محمد امیر اللہ فاروقی  ؒکے دو فرزند تھے ایک محمد عبدالغفور اور دوسرے حکیم مولانا مولوی قاضی محمد عبد القادر فاروقی جن کی ولادت ۱۵/ خورداد ۱۲۹۸ فصل میں ہوئی آپ اپنے اسلاف کی خوبیوں کے پیکر اور صاحب علم و فضل ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے ماحول او رعہد آصف جاہی کے نامور طبیب حضرت حکیم قاضی محمود صمدانی  ؒ سے حاصل کی او رایشیاء کی معروف دانش گاہ جامعہ نظامیہ سے ۱۳۱۲ھ فصل میں اعلی تعلیم کی سند حاصل کی۔ آپ کی یہ سند جس پر حضرت شیخ الاسلام کی دستخط او رمہر ثبت ہے کتب خانہ جامعہ نظامیہ میں اہل ذوق کے ملاحظہ کے لئے رکھی گئی ہے، اور طبی اسنادات شیخ الاسلام لائبریری ایبنڈ ریسرچ فائونڈیشن، شبلی گنج نزد جامعہ نظامیہ میں موجود ہیں۔
خدمت قضائت قلعہ قندہار شریف ضلع ناندیڑ او رجاگیرات وغیرہ اپنے والد ماجد سے وراثۃً حاصل کی۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت قاضی ابو محمد سراج الدین فاروقی صاحبؒ نے انتہائی امانت و دیانت او ر بڑی جانفشانی کے ساتھ اپنی آبائی خدمت قضائت کے وقار کو برقرار رکھتے ہوئے قندہار کی خطابت اور عیدین کے بہترین انتظامات کے لئے قندہار کے عوام ہوں کہ خواص ہر کوئی آپ کی بے انتہا قدر و منزلت کرتے اور عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔ برسہا برس آپ نے قندہار شریف میں قیام کیا اور اسلامی ماحول اور دعوت تبلیغ کا عظیم کام انجام دیا۔ آپ رہن سہن، بات چیت، معاملات میں اپنے اسلاف کانمونہ تھے راقم سطوار کو آپ سے کئی سال شرف نیاز حاصل رہا۔ اپنے جد اعلی حضرت شیخ الاسلام ؒ بانی جامعہ نظامیہ کے عرس میں نہایت اہتمام اور پابندی سے شرکت و فاتحہ خوانی کیا کرتے تھے۔ بے انتہا شفقت و محبت فرماتے تھے۔ کبھی کبھی راقم کے گھر واقع رین  بازار یاقوت پورہ بھی قدم رنجہ ہوتے افسوس 
کہ آپ کا ۲۴/اکتوبر ۱۹۹۸ء کو  وصال ہوگیا احاطہ درگاہ شریف حضرت میر شجاع الدینؒ میں آپ مدفون ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام کی وصیت کو روبہ عمل لانے آپ نے ایک مقدمہ کا چالیس سال پامردی سے مقابلہ کیا اور الحمد للہ آپ کے خلوص و حسن نیت کی بناء مقدمہ کا فیصلہ آپ کے حق میں ہوا اور چیلہ پورہ میں جامعہ نظامیہ کی قدیم جائداد ’’انوار منزل ‘‘جس کا ایک فریق جامعہ نظامیہ بھی تھاکو واپس حاصل ہوئی۔

آپ کے قابل و لائق تعلیم یافتہ صاحبزادے مولانا قاضی عبد الحق محمد رفیع الدین فاروقی صاحب قادری چشتی  زید مجدہ بی کام عثمانیہ یونیورسٹی بہترین انداز میں قندہار شریف کی موروثی خدمت قضائت کے علاوہ خطابت و عیدین کے انتظامات و رؤیت ہلال وغیرہ امور بلا کسی شکایت کے انجام دے رہے ہیں۔
گورنمنٹ آف مہاراشٹرا کا محکمہ اوقاف بھی آپ کی حسن کار کردگی کا معترف ہے آپ کا مکمل ریکارڈ بے داغ صاف و شفاف ہے۔ راقم کے آپ سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ مادر علمی و شیخ الاسلامؒ کی نسبت سے بڑی اپنائیت کا اظہار فرماتے ہیں آپ کے دو صاحبزادیاں او رایک فرزند عزیز القدر عبد القادر محمد شجیع الدین فاروقی (انجنئیر)  ہیں جنہوں نے ۲۰۰۸ء جامعہ نظامیہ سے قضائت کے امتحان میں شرکت اور کامیابی کی، اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلائے اور آپ کے خاندانی علمی و روحانی فیضان کو تا قیام قیامت سلامت و جاری رکھے آمین یا رب العالمین۔
٭٭٭

Previous Post Next Post