Hazrat Umar Ki Aulad Wa Amjad

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نو صاحبزادے تھے، (۱)زید اکبر (۲)زید اصغر (۳)عبداللہ (۴)عاصم (۵)عبدالرحمن اکبر(۶)عبدالرحمن اوسط (۷)عبدالرحمن اصغر (۸)عبیداللہ (۹)عیاض اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے تیرہ (۱)ابوبکر (۲)ابو عبیدہ (۳)واقد (۴)عبداللہ (۵)عبیداللہ (۶)عمر (۷)عبدالرحمن (۸)سالم (۹)حمزہ (۱۰)زید (۱۱)بلال (۱۲)ابوسلمہ (۱۳)عاصم ان دونوں حضرات کے صاحبزادوں میں کسی کا نام ناصر نہیں ہے اور حضرت فرخ شاہ کے گیارہویں دادا ناصر ہیں اور ان کو حضرت عبداللہ کا فرزند قرار دیا گیا ہے۔
ایک عرصہ سے یہ اشکال دل میں کھٹک رہا تھا ’’میزان الاعتدال‘‘ اور ’’تقریب التہذیب‘‘ میں عبداللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عمر کا ذکر ملا اور خیال ہوا کہ عبداللہ بن عمر بن حفص کے صاحبزادہ کا نام ناصر ہوگا اور مشابہت کی وجہ سے عبداللہ بن عمر کو ابن الخطاب سمجھ لیا ہے، اسی بحث و جستجو کے دوران شیخ فضل اللہ مجددی کی کتاب ’’عمدۃ المقامات‘‘ جو کہ ۱۲۳۳ھ میں تالیف ہوئی ہے نظر سے گزری، یہ کتاب تقریباً پینتیس سال پہلے لاہور میں چھپی ہے، اس کے صفحہ ۹۸ میں عبدالقیوم متوفی ۱۲۷۱ھ کی یہ عبارت حاشیہ پر ہے

’’مخفی نماند کہ تمام نسب مبارک تا امیر المومنین ازوروئے انتخاب و دو نفرمی شوند‘‘ الخ یعنی انتخاب کی رو سے آپ کے نسب مبارک میں بتیس افراد ہیں، حالاں کہ عمدۃ المقامات میں وہی سلسلہ نسب لکھا ہے جو بہ اعتبار وسائط کے شمار کے اٹھائیس اور اسامی کے حساب سے ستائیس ہیں، اگر انتخاب کسی کتاب کا نام ہے تو عبدالقیوم صاحب کو اس کتاب میں سے ان حضرات کے نام لکھنے چاہئے تھے جو زبدۃ المقامات میں نہیں ہیں۔
اس عاجز نے اس اشکال کا ذکر حضرت حافظ محمد ہاشم مجددی ساکن ٹنڈہ سائیں داد، حیدرآباد سندھ سے کیا، انہوں نے یہ عبارت لکھ کر دی ’’برحاشیہ حضرات القدس از دفتر دوم صفحہ ہفتم جناب حضرت قبلہ محمد حسن مجددی قدس سرہ تحریر فرمودہ اند (شیخ عبداللہ بن شیخ عمر بن شیخ حفص بن شیخ عاصم عبداللہ بن امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہم، ہکذا مذکور فی کتب الانساب) حضرت مرحوم کے پاس قلمی کتابوں کا بہت بڑا نفیس ذخیرہ تھا آپ نے یقینا کسی کتاب میں یہ اضافہ دیکھا ہوگا، کیوں کہ آپ نے ہکذا مذکور فی کتب الانساب لکھا ہے، اگر آپ کتاب کا حوالہ بھی لکھ دیتے تو بہتر ہوتا۔
اس عاجز کو پتہ چلا کہ محمود احمد صاحب عباسی نے تاریخ امروہہ کی چوتھی جلد ’’تحقیق الانساب‘‘ میں اس سلسلہ میں کچھ تحقیق کی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نسیم احمد صاحب فریدی کے پاس یہ جلد موجود ہے، چنانچہ عاجز نے ان کو خط لکھا ہے، انہوں نے یہ جواب تحریر فرمایا (محمود احمد صاحب نے ناصر بن عبداللہ بن عمر کے نام پر یہ حاشیہ لکھا ہے


 خاکسار مؤلف کی تحقیق میں 
آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے ناصر بن عبداللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ عنہم)‘‘
’’جواہر معصومی‘‘ میں احمد حسین خان صاحب نے اس موضوع پر اچھی بحث کی ہے اور آخر میں لکھا ہے ’’قول فیصل بہ موجب کتب تواریخ یہ ہے کہ آپ فاروقی ہیں اور نسب اس طرح ہے ، ناصر بن عبداللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عمر فاروق رضی اللہ عنہم ‘‘۔
Previous Post Next Post