Hyderabad Deccan Ki Bunyaad

شہرِ حیدرآباد فرخندہ بنیاد

شہرے چو بہشت در نکوئی
یابی تو درو آنچہ جوئی
گر پیر بہ دید نش شتابد
زو عمر گذشتہ باز آید
زو ہر چہ نکوست کم نہ یابی
یابی ہمہ چیز غم نہ یابی
شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد خوبی میں ہشت بہشت ہے۔ تم جو چاہو یہاں پائو گے۔ شاخ آرزو اسی فضاء میں ہری ہوگی۔ اگر کوئی بوڑھا بھی اسے دیکھنا چاہے تو شوق دید میں ایسا تیز پا ہو کہ اپنی کھوئی ہوئی جوانی اور گذری ہوئی عمر واپس پائے۔ اس شہر کی سیر حیات بخش ہے۔ فن و خوبی سے کم درجے کی کوئی شئے یہاں نہیں ہے۔ نہیں ہے تو بس غم نہیں ہے اللہ کا دیا کچھ کم نہیں ہے۔ سب کچھ ہے اور سب کے لئے ہے۔ ظلم کا فریادی بلبل کے سوا کوئی نہیں۔ اس چمن میں پھٹا جامہ گل کو زیب دیتا ہے۔ سوسن کہ سوا برہنہ یہاں کوئی نہیں ۔ چوری کا ڈر نہ چکاری کا خطرہ، کالے چور، یہاں کوئی ہے تو بس میٹھے  بول، مدھر سر سن کر کون مسافر آگے قدم اٹھا سکتا۔ پیارا شہر، رشک دہر، نسیم فخر، عطر بیز و مشک ریز فن و ہنر، شرف بشر۔

حضرت رازیؔ شیرازی فرماتے ہیں۔ پاکیزہ نظارے، مچلتے فوارے، گل و ریحان بوستان دماغ و جان کو مسرور کریں۔ باغات کی افراط، خوبی عمارات، بیشتر از صفات دیگر ولایات ہند میں مستشنیات، نسیم فضا کے جھونکے ساحت دل سے غبار و ملال صاف اڑالے جائیں۔ اس شہر میں ہر طرح کی مقصود تمنا میسر ہر طرف منظور خاطر و نظر حاضر، فرخندہ بنیاد، لطیف و دل کشا نکہت، زلف سنبل سے صبا معطر، فضا پر بہار، ہر شجر شاخ طوبی، ہر گائے کام دھینو، یہ لطافت مزاج نہ ارم میں نہ خلد زمیں  میں، شان ظل اللہ، العظمت للہ، اس کی خوش حالی کا سبب دعائے اولیاء، اس کے بسانے کی تاریخ ’’یا حافظ‘‘ وہی اس کا نگہبان، وہی اس کا محافظ، انس و پیار کا متوالا، اسی کا بسانے والا دعا مانگتا ہے، مرا شہر لوگاں سے معمور کر، رکھیا جو تودریا میں من یا سمیع!
میرے شہر کو انسانوں سے ایسا معمور کر جس طرح تو نے سمندر کو مچھلیوں سے معمور کردیا ہے۔ بے حد، بے شمار، انتت، ان گنت۔ صوفیائے کرام نے مثنویوں کے پیرائے میں اپنی روحانی تعلیمات سے شرافت اور محبت کے جذبات کو 
جگایا ، مجازی قصوں میں حق کا پیام پہنچایا، خلوص کے مضراب سے انسانیت کا ہر تار جھنجھنا اٹھا، شاہ ذی جاہ نے فرمایا۔
من غم عالم ندارم عاشقی کارِ من است
بادشاہ کشور عشقم خدا یارِ من است
دنیوی غم و آلام سے بے نیاز، صرف پیار اور محبت سے سروکار، پریم کے جگ پر حکمران وہی معبود میرا یار و مددگار ہے اور اسی سے سروکار ہے۔ (گذشتہ حیدرآباد،رائے محبوب نارائن، مئی ۱۹۸۵ء)
اور حکیم حافظ محمد سعید کے الفاظ میں  دہلوی ’’حیدرآباد ایک ریاست یا مملکت ہی نہیں تھی بلکہ وہ بر صغیر مسلم اقتدار کا ایک تسلسل تھا وہ اقتدار جس کی ہزار سالہ تاریخ نے مسلم تہذیب کے لئے بے شمار نقوش چھوڑے ہیں۔ غیروں اور خود اپنوں کی مہربانیوں سے برصغیر مسلم اقتدار کے آفتاب کو گہن لگا تھا، حیدرآباد نے اس دھند کو ہلکا کرنے کی کوشش کی اور ملت مسلمہ کے زوال آمدگی کے باوجود اپنی تہذیب کو سہارا دیا۔ حیدرآباد محض ایک بلدہ نہیں تھا وہ مسلمانوں کا مرکزثقل تھا جس کی آغوش ہر ایک کے لئے تھی، چاہے وہ مقامی ہو یا غیر مقامی، طالب علم ہو یا صاحب علم، ادیب ہو یا شاعر، فن کار ہو یا ہنر مند غرض ہر جوہر قابل کے لئے سر زمین دکن کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ برصغیر کے ہر علاقے کے لوگ وہاں گئے اور فیضیاب ہوئے، صلاحیت شرط تھی۔


 اجاگر ہونے کے وافر مواقع وہاں موجود تھے۔ کتنے ہی پوشیدہ جوہر وہاں جاکر چمکے اور ملک و ملت کا قیمتی اثاثہ بن گئے۔ حیدرآباد علم و فن کا ایک خطہ تھا، زبان و ادب کا اک گہوارہ تھا، اب حیدرآباد ایک روایت اور ہماری تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے‘‘۔
مکان و زمان کی تبدیلیوں اور ماحول کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے اس امت کے لئے دو غیبی انتظامات کئے۔ ایک تو یہ کہ ہر کشمکش اور تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مکمل شریعت عطا فرمائی۔ دوسرا یہ کہ اس امت کو ہر دور میں ایسے زندہ اشخاص دئیے جو علمی زندگی کے ذریعہ ان تعلیمات کا نمونہ بن گئے۔ اور ہر دور میں اس دین کو زندہ کرتے رہے اور کرتے رہیں گے، اس امت کو جو افراد ملے اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ جس دور میں جس صلاحیت اور قوت کی ضرورت تھی اللہ تعالی نے وہ عطا کی۔ شروع ہی سے اسلام پر ایسے شدید حملے ہوتے رہے کہ دنیا کا کوئی مذہب ان کی تاب نہیں لا سکتا تھا۔ لیکن اسلام نے ان حملوں کا مقابلہ کیا اور مخالفین کو شکست دی۔ اور اپنی اصلی شکل باقی رکھی۔ صلیبیوں اور تاتاریوں کا حملہ مسلمانوں کو میدان زندگی سے بے دخل کرنے کے لئے کافی تھا۔ ایک وقت باطنی تحریک اسلام کے نظام عقائد کے لئے سخت خطرہ بن گئی۔ کوئی دوسرا مذہب ہوتا تو ان حملوں کے مقابلہ میں دم توڑ دیتا۔ اور ایک تاریخی داستان بن جاتا۔ لیکن اسلام نے داخلی اور خارجی حملوں کا مقابلہ کیا اور اپنی ہستی کو 
باقی رکھا۔ تحریفات تاویلات، مادیت، نفس پرستی، تعیشات اور عقلیت پرستی کے مقابلہ میں صلح کرنے سے اس نے انکار کردیا۔


ہر دور میں ایسی قدسی صفات ہستیاں پیدا ہوتی رہیں جنہوں نے دین پر آئے ہوئے غبار کو صاف کیا۔ مادیت، تعیش، عقل پرستی کے مقابلہ جہاد کیا۔ اپنے زمانہ کے مترفین کی مذمت کی اور جابر سلاطین کے سامنے کلمہ حق کو بلند کیا۔ اسلام میں نئی جان ڈال دی۔ اور مسلمانوں میں نیا ایمان اور نئی زندگی پیدا کردی۔ بجھی ہوئی انگیٹھیوں کو سلگایا۔ یہ ہستیاں اخلاق اور روحانی حیثیت سے ممتاز تھیں انہو ں نے تاریکی کا پردہ چاک کیا اور حق کو روشن کیا۔ کیون کہ اللہ تعالی کو اس دین کی بقاء منظور تھی اور رہنمائی کا کام اسی دین سے لینا تھا اب وہ کام رسول اللہ  ﷺ کے نائبین اور علمائے اور صلحاء سے لینا تھا۔ چنانچہ ارشاد نبوی۔ العلماء ورثۃ الانبیاء
در اصل کوئی مذہب اس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتا جب کہ ہر زمانہ میں اس کے ماننے والوں میں ایسی ہستیاں پیدا نہ ہوں جو اپنے یقین، روحانیت، بے غرضی و ایثار اور صلاحیتوں سے اس کے ماننے والوں میں اعتماد اور قوت عمل پیدا نہ کریں اسلام کی طویل تاریخ میں کوئی مدت ایسی نہیں گزری جس میں حقیقت اسلام بالکل دب گئی ہو اور تمام عالم اسلام پر اندھیرا چھا گیا ہو جب کبھی کوئی فتنہ ظاہر ہوا، مادیت اور مفاد پرستی کا کوئی حملہ ہوا۔ کوئی طاقتور ہستی ضرور میدان میں آگئی جس نے اس فتنہ کا پوری طرح مقابلہ کیا، قدریت، جبریت ، اعتزال، خلق قرآن، دین الٰہی، جیسی بڑی تحریکیں آج انکا وجود نہیں رہا۔ کیونکہ تعلیمات اسلامیہ کی حفاظت کی جدوجہد، دعوت و اصلاح کا تسلسل اسلام ہی سے قائم ہے۔

انہی قدسی صفات شخصیات میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حافظ محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی ذات گرامی ہے۔ ان کی سیرت اور کتب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس قدر عظیم کردار او رمثالی شخصیت کے مالک تھے، اور اپنے دائرہ عمل میں رہ کر کس قدر اسلامیت کو نافذ کرنے کی جدوجہد کی۔
علامہ فضیلت جنگؒ کے تذکرہ اور ان کے تجدیدی کارنامہ پر روشنی ڈالنے کے سلسلہ میں اس تاریخی حقیقت کو پیش نظر رکھنے اور اس اصول پر عمل کرنے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے کہ ان کی ذہنی علمی تربیت میں حجاز مقدس کا بنیادی حصہ تھا جہاں آپ نے تین سال سے زیادہ قیام فرمایا، اور تقریباً ہر پانچ سال پر سفر حجاز اختیار فرماتے تاکہ اپنے پیر و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ علیہ الرحمہ سے استفادہ بھی ہوسکے۔ ان کے ساتھ طویل صحبتیں رہیں۔ جہاں دنیا کے گوشہ گوشہ سے لوگ اکٹھا ہوتے تھے۔ وہاں بیٹھ کر پورے عالم اسلام کی روحانی، علمی، اخلاقی، سیاسی حالت کا جائزہ بآسانی لیا جا سکتا تھا۔

علامہ فضیلت جنگؒ نے ان سب سے فائدہ اٹھایا ہوگا اور اثر لیا ہوگا۔آپ نے پنے تمام تجربوں اور صلاحیتوں سے 
مسلمانوں کی ہمہ جہتی اصلاح کے لئے جو قدم اٹھایا ان کا مکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہے، آپ کا رہن سہن سادہ، اصول پسندی اور سادگی، ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں تساہل سے کام نہ لینے، ایثار قربانی، سخاوت، توکل، ہمددی، دینی حمیت کے واقعات ایسے تھے کہ سلف صالحین، اور صحابہ کرام کی زندگیاں یاد آجاتی ہیں۔ وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء
یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت ساری شخصیات ایسی بھی ہیں جن کی مکمل سیرت اور کارنامے عرصہ دراز تک لکھے نہیں گئے۔ یہ بات ان کے ماننے والوں پر ایک فرض کی حیثیت رکھتی ہے، ضرورت اس بات کی تھی کہ ان کی سیرت اس انداز سے پیش کی جائے کہ دنیا ان کے صحیح حال سے واقف ہوتی اور ان کی سیرت ایک نمونہ اور مثالی کردار کے طور پر سامنے آتی۔
انہی ہستیوں میں سے جن کی مکمل سیرتیں دنیا کے سامنے نہیں آئیں۔ حضرت مولانا شیخ الاسلام محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی ذات گرامی ہے۔ ان کے کمالات و خصوصیات سے دنیا بے خبر رہی ہے ان کی سیرت کو اس طرح پیش کیا جانا چاہئے جس سے ان کے صحیح مقام سے دنیا آگاہ ہو۔ ان کی سیرت کم از کم ان کے ماننے والوں کے لئے ایک مثالی کردار کے طور پر سامنے آئے۔ ان کی سیرت اس بات کا ثبوت بنے کہ اسلام ایسے مردان کار اور نوادر روزگار پیدا کرنے کی لافانی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا اصول تھے جن کے وہ سختی سے پابند رہے وہ کیا اقدار تھے جن کو وہ زندگی بھر حرز جان بنائے رہے۔ مشکلات کا سامنا کس اصول پسندی اور دینی و اخلاقی معیار بلند سے کیا، انتظامی و تعلیمی امور میں ان کی بنیادی فکر کیا تھی۔
Previous Post Next Post