شجرہ کی نفیس تحقیق
حضرت خواجہ محمد ہاشم کشمیؒ نے کتاب برکات الاحمدیہ الباقیہ معروف بہ زبدۃ المقامات اور شیخ بدرالدین سرہندی نے کتاب حضرات القدس کا دفتر دوم آپ کے احوال مبارکہ میں لکھا ہے، یہ دونوں پاک نہاد حضرت مجدد کے خلفاء میں سے ہیں، ان دونوں کتابوں میں حضرت کا نسب نامہ امام الاعدلین حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک مذکور ہے، خواجہ ہاشم نے صرف نام لکھنے پر اکتفا نہیں کی ہے بلکہ وسائط کا شمار بھی بیان کیا ہے، اس لئے ان کا تحریر کردہ نسب نامہ لکھا جاتا ہے۔
مخدوم عبدالاحد، زین العابدین، عبدالحی، محمد، حبیب اللہ، امام رفیع الدین، نصیر الدین، سلیمان، یوسف، اسحاق، عبداللہ، شعیب، احمد،یوسف، شہاب الدین، نصیرالدین، محمود، سلیمان، مسعود، عبداللہ الواعظ لاصغر، عبداللہ الواعظ لاکبر، ابوالفتح، اسحاق، ابراہیم، ناصر، حضرت عبداللہؓ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین و عنا معھم یا ارحم الراحمین
خواجہ ہاشم نے لکھا ہے ’’شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ الکابلی جد پانزدہم حضرت ایشان است، و اوبہ یازدہ واسطہ بہ حضرت عبداللہ بن عمر الخطاب رضی اللہ عنہما می پیوندد‘‘ اور لکھا ہے ’’امام رفیع الدین رحمہ اللہ جد ششم حضرت ایشان است‘‘ اور لکھا ہے ’’و امام رفیع الدین بہ ہشت واسطہ بہ فرخ شاہ مذکور می پیوندد‘‘ یعنی فرخ شاہ آپ کے پندرہویں دادا ہیں اور وہ گیارہ واسطوں سے صحابی جلیل حضرت عبداللہؓ سے جا ملتے ہیں جو کہ حضرت عمر الخطابؓ کے صاحبزادے ہیں اور امام رفیع الدینؒ آپ کے چھٹے دادا ہیں جو آٹھ واسطوں سے فرخ شاہؒ سے جا ملتے ہیں۔
حضرت خواجہ ہاشمؒ کے اس بیان کا جب ان کے لکھے ہوئے ناموں سے مقابلہ کیا جاتا ہے تو ایک نام کی کمی واقع ہو رہی ہے، اور یہ کمی فرخ شاہؒ اور حضرت عبداللہؓ کے درمیان واقع ہوئی ہے، کیوں کہ ان دونوں کے درمیان گیارہ واسطوں کا ذکر کیا ہے اور نام دس ہیں، زبدۃ المقامات کے پہلے نسخہ میں فرخ شاہؒ اور حضرت عبداللہؓ کے مابین واسطوں کو اس طرح لکھا ہے ’’زیراکہ او (فرخ شاہ) فرزند نصیر الدین بن محمود بن سلیمان بن مسعود بن عبداللہ الواعظ الاکبرین بن ابوالفتح بن اسحاق بن ابراہیم بن ناصر بن عبداللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ۔
’’زبدۃ المقامات‘‘ کے اس نسخہ میں عنوانات، اہم نام اور ہندسہ شنگرف سے لکھے ہوئے ہیں اور جا بہ جا شنگرف سے لکیریں کھینچ کر شنگرف برقرطاس ہیں لعل مصفار یختہ کا منظر پیش کیا ہے اس میں نصیر الدین کے نام پر لکیر کھینچ کر دو کا اور محمود کے نام پر تین کا اور سلیمان کے نام پر چار کا اور مسعود کے نام پر پانچ کا اور عبداللہ کے نام چھ اور سات کا ہندسہ ہے،
بعد میں کسی نے شنگرف ہی سے سات کے ہندسہ کو کاٹا ہے، اور ابوالفتح پر آٹھ کے ہندسہ کو سات کا اور اسحاق پر نو کے ہندسہ بنایا ہے اور پھر عبداللہؓ پر گیارہ کا ہندسہ لکھ دیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ تصحیح کرنے والا عربی سے بالکل ناواقف ہے، اس نے خیال نہیں کیا کہ عبداللہ الواعظؓ کے بعد الاکبرین لکھا ہوا ہے جو کہ تثنیہ کا صیغہ، جس کا لفظی ترجمہ ’’دو بڑے‘‘ ہے، خواجہ ہاشمؒ نے تغلیبی تثنیہ کا استعمال کیا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ عبداللہ الواعظؓ دو افراد کا نام ہے اور اکبر اور اصغر کہہ کر باپ بیٹے میں تفریق کی گئی ہے اور تصحیح کرنے والے نے عبداللہ پر گیارہ کا ہندسہ لکھ کر حضرت عبداللہؓ کو واسطوں میں شامل کردیا، حالاں کہ واسطے ان کے بعد سے شروع ہوکر فرخ شاہؒ کے والد پر ختم ہوتے ہیں۔
’’زبدۃ المقامات‘‘ کے اس نسخہ سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ فرخ شاہؒ کے والد کانام جو کہ واسطہ اول ہیں لکھنے سے رہ گیا ہے اور نصیر الدینؒ پردو کا ہندسہ لکھ کر بتا دیا ہے کہ واسطہ دوم ہیں۔
حضرات القدس میں دو ناموں کا اضافہ ہے، پہلا اضافہ امام رفیع الدینؒ کے بعد نور الدینؒ کا ہے اور دوسرا اضافہ نمبر اکیس اور بائیس میں ہوا ہے، شیخ بدرالدینؒ نے نمبر اکیس کا نام عبداللہ الواعظ الاصغرؓ کی جگہ صرف عبداللہؓ لکھا ہے اور ان کے والد کا نام واعظ اصغرؓ اور دادا کا نام واعظ اکبرؓ۔
حضرت خواجہ ہاشمؒ نے وسائط کا بیان کرکے کمی و بیشی سے سلسلۂ نسب کو محفوظ کرلیا ہے انہوں نے فرخ شاہؒ کو آپ کا پندرہواں دادا بتایا ہے اور امام رفیع الدینؒ کو آپ کا چھٹا دادا بتا کر لکھا ہے کہ وہ آٹھ واسطوں سے فرخ شاہؒ تک پہنچتے ہیں، لہٰذا رفیع الدینؒ اور فرخ شاہؒ کے مابین نور الدینؒ کے اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور خواجہ ہاشمؒ نے ’’عبداللہ الواعظؒ‘‘ لکھ کر واضح کردیا کہ الواعظ کی صفت ہے اور پھر الاکبرین لکھ کر آگاہ کردیا کہ باپ کا نام بھی عبداللہ تھا اور بیٹے کا بھی اور دونوں واعظ تھے، ان کی تفریق اکبر و اصغر سے تھی اور نصیرالدین پر دو کی رقم بتا رہی ہے کہ فرخ شاہ کے والد کا نام سلسلہ نسب نقل کرتے وقت رہ گیا ہے۔
اس عاجز کا خیال ہے کہ شیخ بدرالدین کو نصیر الدین کے نام سے مغالطہ ہوا ہے ان کو نور الدین کا نام شہاب الدین فرخ شاہ اور نصیر الدین کے مابین لکھنا تھا، لیکن وہ جلدی میں رفیع الدین و نصیرالدین کے مابین لکھ گئے، واللہ تعالیٰ اعلم، بہر حال ایک نام کا فرق کوئی فرق نہیں ہے او رنہ یہ کوئی اشکال ہے، اشکال تو یہ ہے کہ جس کا ذکر اب کیا جاتا ہے۔