عقلوں پر پردے؟
موجودہ دور نے عریانی کو ایک فن و آرٹ بنادیا ہے اور ایسی فضا پیدا کردی گئی ہے کہ عورت نے خوشی خوشی شرم و حیاء کا زیور اتار پھینکا۔ لیکن دوسری جانب مرد کی وردی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ذرا تصور کیجئے! سردیوں کی ایک یخ بستہ رات میں ایک جوڑا کسی
تقریب میں شریک ہے۔ مردنے پینٹ کوٹ زیب تن کررکھا ہے۔ کئی سویٹروں کے بعد شرٹ آتی ہے اور پھر اوپر کوٹ ہے۔ نیچے جرابوں کے اوپر بوٹ کس رکھے ہیں۔
دوسری نگاہ محترمہ پر ڈالئے! ایک چھوٹی سی قمیص جوکندھوں سے شروع ہوکر نصف رانوں سے اوپر ختم ہوجاتی ہے۔ گلا جس قدر آگے سے کھلا ہے اسی قدر پیچھے سے بھی‘ شلوار اس قدر مختصر کہ نصف پنڈلیاں باہر کو نکل رہی ہیں۔ سر پر ڈوپٹہ بھی نہیں کہ شاید کچھ حرارت پہنچ جائے۔
ارے یہ کیا! ظلم کی انتہاء! نہیں صاحب؟ یہ جدید فیشن ہے۔ جان چلی جائے ‘ بھلا فیشن کیوں چھوٹے؟
عورت بے چاری کس قدر سیدھی سادھی ہے؟ اسے تومردکے اس رویے کے خلاف بغاوت کردینی چاہیے۔ لیکن وہ اپنی نادانی کی وجہ سے اسے تہذیب کا تقاضا سمجھ بیٹھی ہے۔ اپنے جسم کی نمائش پہ ندامت سے اس کا سر جھکنا تو درکنار فخر و غرور سے اونچا ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر عورت اسلامی حدود کی پابندی کرے تو اس کا وجود مرد کو زندہ لاش محسوس ہونے لگتا ہے‘ کیونکہ اس پرنگاہ پڑتے ہی جذبات میں ہیجان پیدا نہیں ہوتا اور مرد کو تسکین حاصل نہیں ہوتی۔ چنانچہ مرد اس کی آزادی یعنی عریانی کا نعرہ بلند کرتا ہے اور وہ بے چاری عقل سے ماوار ہوکر اس کی ہم نوا بن جاتی ہے اور دوسروں لفظوں میں اس کی تسکین کا سامان بن جاتی ہے۔