عورت … قبل از اسلام
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور اور معاشرے میں عورت مرد کے تابع ہی رہی ہے۔ ہر جگہ اس میں محکومیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے لیکن سابقہ اور دیگر اقوام نے اس کی محکومیت کو اس کی ذلت اور پستی کا سبب بنا دیا۔
مذہبی اقدار کو غلط تعبیرات دے کر عورت کو حد درجہ انسانی اقدار سے گرا دیا گیا اور اسے ذلیل کر کے رکھ دیا گیا۔ عورت مرد کے ظلم و جور کا شکار بن گئی اور مرد اس کے مقابلے میں گویا جنگل کا درندہ بن گیا۔
دنیا کی تمام متمدن و غیر متمدن اقوام اس قانون میں تقریباً یکساں تھیں۔ بات یہاں تک جا پہنچی تھی کہ گھر کے دیگر سامان اور چوپاؤں کی طرح عورت کو بھی بیچا اور خریدا جانے لگا۔
آیئے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام سے قبل دیگر اقوام کا عورت کے ساتھ رویہ کیسا تھا؟
’’حمورانی کی شریعت عورت کو پالتوجانور سمجھتی تھی۔ اگر کسی نے کسی کی لڑکی کو قتل کر دیا تو مقتولہ کا وارث قاتل کی لڑکی کو چاہے تو قتل کر دے اور چاہے توباندی بنا لے‘‘۔
’’یونان قدیم میں عورت ہر قسم کے حقوق اور آزادی سے محروم تھی‘ اسے ایسے بڑے گھروں میں رہنا ہوتا تھا جو راستے سے دور‘ کم کھڑکیوں والے ہوتے اور ان کے دروازوں پر پہرے دار مقرر ہوتے‘‘
’’عہد قدیم‘‘ کے باب واعظ میں لکھا ہے:
’’جو کوئی خدا کا پیارا ہے وہ اپنے کو عورت سے بچائے گا۔ ہزار آدمیوں میں سے میں نے ایک پیارا پایا ہے۔ لیکن تمام عالم کی عورتوں میں سے ایک عورت بھی ایسی نہیں پائی جو خدا کی پیاری ہو‘‘۔
Oldenberg اپنی کتاب Buddha میں رقمطراز ہے:
’’پانی کے اندر مچھلی کی ناقابل فہم عادتوں کی طرح عورت کی فطرت بھی ہے۔ اس کے پاس چوروں کی طرح متعدد حربے ہیں اور سچ کا اس
کے پاس سے گزر نہیں‘‘۔
(Encyclopedia of religion & Ethics. Vol.v,P271)
Ray Strachey ہندوستان کے بارے میں لکھتا ہے:
’’رگ وید میں عورتوں کو پست اور حقیر مقام دیا گیا ہے بعد میں یہ سمجھا جانے لگا کہ وہ روحانی طور پر ناقابل اعتبار بلکہ تقریباً بے روح ہے اور موت کے بعد مردوں کی نیکیوں کے بغیر اسے بقاء حاصل نہیں ہو سکتی۔
عورتیں اتنی ہی بری ہیں جتنا جھوٹ۔ یہ ایک مسلم حقیقت تھی۔ عورت کی فطرت میں یہ داخل ہے کہ وہ مردوں کو اس دنیا میں غلط راستے پر ڈالے۔ اسی لیے عقلمند عورتوں کی صحبت میں بے فکر ہو کر نہیں بیٹھتے۔
(Universal History of the world- Vol-1, P:378)
’’منو کے قانون کے مطابق عورت ہمیشہ کمزور اور بے وفا سمجھی گئی اگر اس کا شوہر مر جاتا تو وہ کبھی دوسری شادی نہ کر سکتی۔ جبکہ اکثر بیوائیں اپنے شوہر کے ساتھ ’’ستی‘‘ ہو جاتیں۔ ‘‘
(تمدن ہند: 238)
Mr. Ray Strachey چین میں عورت کی حیثیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’چین میں چھوٹی لڑکیوں کے پیروں کو کاٹھ مارنے کی رسم کا مقصد یہ تھا کہ انہیں بے بس اور نازک رکھا جائے‘‘۔
(Universal History of the world- P:378)
جبکہ انگلستان میں عورت کی حیثیت بھی کچھ اعلیٰ نہ تھی:
’’وہاں اسے ہر قسم کے شہری حقوق سے محروم رکھا گیا تھا‘ تعلیم کے دروازے اس پر بند تھے۔ صرف چھوٹے درجے کی مزدوری کے علاوہ کوئی کام نہیں کر سکتی تھی اور شادی کے وقت اسے اپنی ساری املاک سے دستبردار ہونا پڑتا تھا‘‘۔
(تہذیب و تمدن پر اسلام کے اثرات و احسانات)