عورت اور زمانہ جاہلیت
جزیرۃ العرب میں عورت سے بد معاملگی دنیا کے سارے ممالک سے زیادہ تھی اور اگر بعض جگہ اس سے اچھا معاملہ کیا بھی جاتا تھا تو وہ اس وجہ سے تھا کہ وہ یا تو کسی عرب رئیس کی صاحب زادی یا کسی محبوب بیٹے کی ماں ہے۔
اہل عرب‘ عورت کے وجود کو موجب ذلت و عار سمجھتے تھے‘ ان
کے ہاں کسی لڑکی کی پیدائش پیام غم تھی۔ نرینہ اولاد پر وہ اتراتے لیکن لڑکی کی پیدائش سے ان کا سر رفعت کی چوٹیوں سے گر جاتا۔ قرآن مجید نے ان کے انہی جذبات کی عکاسی ان الفاظ میں کی ہے:
{وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہٗ مُسْوَدًّا وَّ ھُوَ کَظِیْمٌ٭ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓئِ مَا بُشِّرَ بِہٖ اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ھُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ}
(سورۃ النحل:۵۸،۵۹)
’’جب ان میںسے کسی کو لڑکی کی خوشخبر ی دی جاتی تو دن بھر اس کا چہرہ سیاہ رہتا اور وہ غم سے گھٹتا رہتا۔ اس خوشخبری کی برائی کی وجہ سے اپنے آپ کو قوم سے چھپائے رکھتا(یہ سوچتا کہ) آیا ذلت برداشت کرتے ہوئے اسے باقی رکھے یا زمین میں دبا دے‘‘۔
عورت کو میراث میں حصہ نہ دیتے تھے اور کہتے تھے:
’’لایرثنا الا من یحمل السیف ویحمی البیضۃ‘‘
’’ہم تو اسی کو وارث بناتے ہیں جو تلوار اٹھا سکے اور خود کی حفاظت کر سکے‘‘۔
عورت کو نہ تو اپنے خاوند پر کچھ حق حاصل تھا اور نہ ہی طلاق کی کوئی حد مقرر تھی۔ اور نہ ہی بیویوں کی تعداد مقرر تھی۔ جب کوئی شخص فوت ہو جاتا تو اس کی بیوی میراث میں تقسیم کر دی جاتی اور متوفی کا بڑا بیٹا اس کا پہلا حقدار ہوتا۔
زمانہ جاہلیت میں عورت کی عدت مکمل سال تھی۔ اس دوران وہ اپنا حلیہ بگاڑ کر رہتی‘ گندے چیتھڑے پہنتی‘ گندے کمرے میں رہتی۔ زیب و زینت اور صفائی و ستھرائی کو خیرآباد کہہ دیتی‘ پانی کو چھوتی تک نہ تھی‘ نہ ناخن کاٹتی اور نہ ہی بال۔
عرب اپنی باندیوں کو زنا پر مجبور کرتے تھے اس پر ان سے اجر لیتے ‘ قرآن کریم نے اسی سے روکا:
{وَلاَ تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَائِ اِِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا } (النور: ۳۳)
’’اور تمہاری لونڈیاں جو پاکدامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے زنا پر مجبور نہ کرو‘‘
کھانے میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو مردوں کے لیے خاص تھیں اور عورتیں ان سے محروم تھیں۔
عورت سے نفرت اس حد کو پہنچ چکی تھی کہ انہیں زندہ درگور کر دیتے تھے۔ ہیثم بن عدی نے ذکر کیا ہے کہ زندہ درگور کرنے کا اصول عرب کے تمام قبائل میں رائج تھا‘ ایک اس پر عمل کرتا تھا‘ دس چھوڑتے تھے۔ یہ سلسلہ اس مدت تک رہا جب تک اسلام نہیں آیا۔
بعض تو ننگ و عار کی بناء پر زندہ درگور کرتے اور بعض خرچ و مفلسی کے ڈر کی وجہ سے اولاد کو قتل کرتے تھے۔
جبکہ عرب کے بعض رؤساء ایسے بھی تھے جو ایسے مواقع پر بچوں کو خرید لیتے اور ان کی جان بچا لیتے۔ صعصعہ بن ناجیہ کا بیان ہے کہ اسلام کے ظہور کے وقت تک میں تین سو زندہ درگور ہونے والی لڑکیوں کو فدیہ دے کر بچا چکا تھا۔
اگر کبھی سفری مشغولیات کی وجہ سے بچی بڑی اور سیانی ہو جاتی تو باپ کسی بہانے سے لے جا کر اسے زندہ درگور کر دیتا۔ مثلاً ایک شخص حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے دور جاہلیت کا ایک واقعہ بیان کرنے لگا کہ
’’میرے ہاں ایک بچی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی۔ میں جب کبھی اسے بلاتا تو بڑی خوشی سے میرے پاس آ جاتی۔ ایک دن میں نے اسے بلایا تو وہ میرے پیچھے دوڑتی ہوئی آئی۔ میں اسے لے کر اپنے قبیلے ہی کے ایک کنویں پر چلاگیا اور اسے کنویں میں دھکیل دیا اس وقت بھی وہ بچی ابا‘ ابا پکارتی رہی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ سن کر اشک بار ہو گئے اور داڑھی مبارک تر ہو گئی۔
(سنن الدارمی ‘ باب ما کان علیہ الناس قبل مبعث النبیؐ)
قیس بن عاصم نے زمانہ جاہلیت میں آٹھ دس لڑکیاں دفن کی تھیں۔
حق میراث سے تو پہلے سے ہی محروم تھی چنانچہ جب میراث کا حکم نازل ہوا تو عورت کی میراث پر اہل عرب متعجب ہوئے اور کہنے لگے:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بھلا یہ لونڈی جو نہ تو گھوڑے پر سوار ہو سکتی ہے اور نہ ہی مدافعت کر سکتی ہے ‘یہ بھی میراث کی حق دار ہے؟
یہ تھا اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں اور دیگر اقوام کے ہاں عورت کا درجہ۔ آپ نے دیکھا کہ عورت کو بدی کا محور تصور کیا جاتا تھا۔ عورت کے وجود کو اس کائنات پر بوجھ سمجھا جاتا اور کوشش کی جاتی کے کسی نہ کسی طریقے سے اس کے ناپاک وجود سے کرئہ ارض کو پاک کر دیاجائے۔
اسی ماحول میں جب اسلام کی بہاریں آئیں تو اسلام نے عورت کو اس قدر مقام دیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ عورت جو احساس کمتری کا شکار ہو چکی تھی‘ اسلام نے اس میں نئے سرے سے روح پھونک دی اور اسے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا سہارا دیا۔ اسلام نے اسے مقدس ماں‘مقدس بیٹی اور مقدس بیوی کا درجہ دیا‘ اس کے وجود کو باعث رحمت ٹھہرایا‘ اس کے قدموں تلے جنت کی آبیاری کا وعدہ کیا۔
آیئے! اب ہم دیکھتے ہیں کہ عورت کی عزت و تکریم کے سلسلے میں اسلام نے کیا کیا کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔