عورت کا نفقہ مرد پر:
کامیاب سماجی جدوجہد جن صفات کا تقاضا کرتی ہے۔ مثلاً جفاکشی‘ سادگی‘ فطری استقلال اور محنت وغیرہ‘ فطری طور پر عورت کے اندر ان کی کمی ہوتی ہے۔ اور یہ صفات اسی وقت پیدا ہوتی ہیں جب انسان کو مخالف قوتوں سے تصادم اور کش مکش کرنا پڑے۔
لیکن چونکہ عورت عائلی زندگی سے تعلق کی بناء پر کش مکش سے دور رہتی ہے اس لیے مشکل ہی سے اس کے اندر یہ صفات پیدا ہوپاتی ہیں۔
بلکہ اس کے برعکس گھر کی پرسکون زندگی اس کے اندر بڑی آسانی سے تکلف و تصنع‘ عیش و راحت‘ طبعی نزاکت اور غیر مستقل مزاجی جیسی خصوصیات ابھار دیتی ہے۔
عورت کی ان فطری صفات کی بناء پر اسلام نے اس پر اخراجات کی ذمہ د اری نہیں ڈالی۔ بلکہ اس کے باپ‘ بھائی اور خاوندپر اس کے اخراجات کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ کیونکہ عورت اپنی فطری صفات کی وجہ سے سماج میں وہ امور سر انجام دینے سے قاصر ہے جنہیں ایک مرد دے سکتا ہے۔
لیکن اسلام نے اس بات کی اجازت بھی دی ہے کہ اگر کوئی عورت اسلامی حدودو قیودات کا لحاظ رکھتے ہوئے ان امور کو انجام دینا چاہے تو اسے اختیار ہے۔
اس کے برعکس مغرب نے جس طرح آزادیٔ نسواں کا نعرہ لگا کر عورت کو میدان عمل میں اتارا ہے۔ اس سے کئی قسم کی خرابیاں لازم آتی ہیں۔ذیل میں ہم چند خرابیوں کا اجمالی جائزہ لیں گے۔ تاکہ ہماری جن خواتین پر ملازمت کا جنون سوار ہے‘ وہ ان نقصانات کو دیکھ کر اپنی حقیقی ذمہ داری کی طرف پلٹ آئیں۔
عورت اور مرد کی تخلیق میں فطری طور پر کئی ایک نمایاں فرق ہیں۔ مرد کو گھر سے باہر کام کاج کے لیے اور عورت کو خانہ داری بجا لانے کے لیے اصلاً تخلیق کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ انسانی زندگی کے دو اہم شعبے ہیں ایک انسان کا گھر ‘دوسرا سماج۔
لیکن مغرب نے عورت کو باہر نکال کر اس کی ذمہ داریوں کو دوگنا کردیا اور خانہ داری کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ سماج کی ذمہ داری بھی اس پر ٹھونس دی ‘نتیجتاً عورت بے چاری دو کشتیوں میں سوار نہ ہوسکی اور منزل مقصود اس سے دور ہوتی گئی۔