عورت کی معیاربزرگی: Aurat Ki Miyar e Zindagi

 عورت کی معیاربزرگی:

لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے عظمت کا معیار ایمان و عمل اور تقوے کو ٹھہرایا ہے۔ یعنی بنی آدم تمام مخلوقات سے افضل ہیں اور بنی آدم میں باہمی معیار عظمت و سربلندی تقویٰ اور ایمان و عمل ہے۔

اسلام کے نزدیک انسان کی فلاح و خسران ‘سلامتی فکر و درستی عمل کے ساتھ وابستہ ہے۔ اسلام مرد کو صرف مرد ہونے کی وجہ سے عظمت نہیں دیتا اور نہ ہی عورت کو محض عورت ہونے کی بنا پر پستی کی گھاٹیوں میں پھینکتا ہے۔

بلکہ ان دونوں کو ان کے تقویٰ اور عمل کی بنیاد پر عظمت و سربلندی کی راہوں پہ سر فراز کرتا ہے۔

{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَ لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ} (سورۃ النحل : ۹۷)

’’جس مرد اور عورت نے بھی اچھا کام کیا اور وہ مومن بھی ہے تو ہم اسے ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور وہ جو اچھے کام کرتے رہے ان کا اجر بھی دیں گے‘‘۔

اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے حسب نصب اور برادری کا لحاظ نہیں رکھا بلکہ معیار بزرگی تقوے کو ٹھہرایا ہے اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے:

{اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ } (سورۃ الحجرات : ۱۳)

’’بے شک تم میںسے اللہ کے ہاں سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔

رحمت خداوندی عام ہے:

اسلام نے رحمت الٰہی اور بخشش الٰہی کو مرد و عورت دونوں کے لیے عام رکھا ہے۔ دونوں میں سے کسی ایک صنف کے لیے اللہ کی رحمت خاص نہیں بلکہ دونوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ جو تگ و دو کرے اور آگے بڑھ کر اسے پا لے وہ اسی کا حق اور مقدر ہے۔

ایک مفکر نے اس آیت قرآنی پر بحث کرتے ہوئے اس بات کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے:

{فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ} 

(آل عمران: ۱۹۵)

’’چنانچہ ان کی دعا کو ان کے پروردگار نے قبول کر لیا۔ کیونکہ میں تم میں سے کسی کے عمل کو خواہ مرد ہو یا عورت‘ ضائع نہیں ہونے دیتا۔ تم آپس میں ایک دوسرے کا جزء ہو‘‘

اس آیت سے قبل اللہ پاک نے اہل ایمان کی دعاؤں کا تذکرہ کیا ہے‘ ان اہل ایمان نے خوب دل کھول کر دعائیں کیں ۔ ان کی دعائیں معمولی دعائیں نہ تھیں بلکہ ان کی دعائیں بڑی مومنانہ تھیں۔

اگر قرآنی سیاق و سباق میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعائیں مردوں نے کی تھیں مردوں ہی نے کہا تھا:

{رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ آمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا} (سورہ آل عمران:۱۹۳)

’’اے ہمارے رب ہم نے ایک پکارنے والے سے سنا جو ایمان لانے کو پکارتا تھا کہ اپنے رب پہ ایمان لاؤ سو ہم ایمان لے آئے‘‘

یہ مردانہ دعا ہے۔ پیش پیش رہنے والے اور مردار نہ وار لبیک کہنے والے مرد ہی تھے۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب ان دعاؤں کی قبولیت اور ان پر اجر و جزا کا ذکر کیا ہے تو صرف مردوں کا ذکر نہیں کیا، بلکہ خاص طور پر عورتوں کا ذکر بھی کیا ہے۔


اب یہاں غور کیجئے! اگر کوئی ادیب ہوتا‘ کوئی انشاء پرداز ہوتا، کوئی ماہر نفسیات ہوتا‘ کوئی عورتوں کا بڑا حامی اور ان کی آزادی کا محرک ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ یہاں عورتوں کو فراموش کردیتا۔

کیونکہ یہاں موقع بھی نہ تھا‘ ساری دعائیں مردوں نے کیں‘ سارے کام مردوں کے تھے‘ مرد ہی پیش پیش تھے، لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت دیکھئے ‘وہ خالق ذکورو اناث دونوں جنسوں کا خالق ہے‘ دونوں پر اس کی یکساں شفقت کی نظر ہے۔ اس ذات نے جب

(اِنِّیْ لاَ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ)

کہا تو جواب پورا ہوگا تھا لیکن ایک دم سے عورتوں کو یاد فرمایا اور ان کو شرف بخشتے ہوئے فرمایا:

(مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی)

یہاں یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جاسکتی ہے کہ رحمت الٰہی اور بخشش الٰہی میں مساوات کامل ہے اس میں کوئی تحفظ نہیں۔ کسی قسم کا ریزرویشن نہیں ‘ کسی قسم کا امتیاز نہیں۔

دیکھیں !مردوں نے کسی عورت کا ذکر نہ کیا‘ نہ ماں کا‘ نہ بہن کا‘ نہ شریک حیات کا‘ یہ مرد تو بھول ہی گئے لیکن اللہ پاک نے فرمایا کہ ہم بھولنے والے نہیں… ہمیں یاد ہے۔

اس موقع پر غور کرنے سے اگر ہماری ماؤں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کے رونگٹے رونگٹے سے شکر کے ترانے نکلنے لگیں بلکہ ابلنے لگیں تو یہ بالکل بجا ہے۔ بلکہ بر محل اور بر موقع ہے۔ اس پر مرد و عورت رب کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔


Previous Post Next Post