گھر ایک مملکت:
ہر گھر بھی ایک مختصر سی مملکت ہے۔ اس کے انتظام و انصرام کے لیے بھی حاکم چاہیے تاکہ اس کے انتظام میں تصادم واقع نہ ہو۔ اور وہ گھر خوشی سے ہمکنار ہوسکے۔ تو اسلام نے اس فطری سلسلے کو یوں برقرار رکھا ہے کہ مرد کو حاکم اور عورت کواور اس کی اولاد کو محکوم ٹھہرایا ہے۔
عورت چونکہ صنف نازک ہے‘ اس کووہ شجاعت‘ قوت‘ طاقت اور رعب حاصل نہیں ہے‘ جو مرد کو حاصل ہے۔ اسی لیے حاکمیت کے قابل مرد ہے نہ کہ عورت۔ لہٰذا اس گھر کا حاکم اعلیٰ اللہ تعالیٰ نے مرد کو مقرر کیا ہے۔ تو گھر بھی ایک مملکت ہے۔
ایک حدیث شریف میں اس کی طرف واضح اشارہ موجود ہے:
کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ
کسی معاشرے یا دین میں خواتین کو اتنے حقوق حاصل نہیں ہیں جتنے اسلام نے عورت کو دیے ہیں۔ اسلام میں جو حقوق عورت کو دیے گئے ہیں وہ فطرت کے عین مطابق ہیں۔
بہرحال اسلام نے اگرچہ مرد کو حاکم قرار دیا ہے اور عورت کو محکوم‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت بے دست وپا ہوئی اور اس کی آزادی بھی سلب ہوگئی‘ بلکہ اولاً تو ہر ناجائز کام میں عورت خاوند کی بات کو رد کرسکتی ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق
’’اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت ممنوع ہے‘‘
اس بارے میں عورت آزاد ہے۔
دوسری بات:
اسلام نے اس کے ساتھ ساتھ مرد کو عدل وانصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسے حکم دیا ہے کہ وہ عورت کے ساتھ محبت سے پیش آئے۔ دائرہ محبت کے اندر اگر میاں بیوی میں ایک حاکم اور دوسرا محکوم ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ (تنبیہ العقلاء علی حقوق النساء للشیخ محمد موسیٰ ؒ)