ایمان اور عمل صالح: Iman Aur Amal e Saleh

 ایمان اور عمل صالح:

مومن کی نجات کا دارو مدار ایمان اور اعمال صالحہ ہیں ۔اس کی زندگی میں جب تک ان دونوں کی رونقیں بحال رہیں، اس کی زندگی کا حسن و خوشحالی برقرار رہتی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:

{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ‘ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ}

(سورۃ النحل:97)

’’جس نے نیک کام کیا مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہے تو ہم اسے ضرور اچھی زندگی بسر کرائیں گے اور ان کا حق انہیں بدلے میں دیںگے ،ان کے اچھے کاموں کے عوض میں جووہ کرتے تھے‘‘

اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے وعدہ کیا ہے کہ اس دنیا میں خوشگوار زندگی کے حصول کے لئے ایمان اور عمل صالح اساسی حیثیت رکھتے ہیں ۔اگر یہ دونوں چیزیں مومن کو میسر ہیں تو یہ زندگی بھی سروراور ابتھاج والی ہے اور آنے والی زندگی بھی اچھے بدلے والی ہے۔

وجہ اس کی کیا ہے؟

اس کی وجہ بالکل واضح ہے، کیونکہ اللہ پر صحیح ایمان رکھنے والے، عمل صالح سے زندگی کو روشن کرنے والے، دلوں اور اخلاق کی اصلاح کرنے والے، ایسے لوگوں کو دین سے سرور و خوشگواری کے اسباب معلوم ہوتے ہیں ، غم اور بے چینی کا علاج انہیں قرآن و سنت سے معلوم ہوتاہے، جن پر عمل کرتے ہوئے ان کی زندگی جنت نظیر بن جاتی ہے ۔

ذرادیکھئے تو سہی؟ 

یہ لوگ خوشی کو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں، اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، جائز اور مفید کام میں اسے استعمال کرتے ہیں، جب وہ ایسا کرتے ہیں تو انہیں ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوتی ہے، دل کرتاہے کہ یہ حالت یوں ہی برقرار رہے،اس کی برکتیں برابر رہیں،شاکرین کا ثواب حاصل ہوجائے،ایسے بڑے بڑے بدلے جن کے سامنے دنیا کی عارضی خوشی ہیچ نظر آتی ہے۔

اگر کوئی مصیبت، غم اور تکلیف پہنچ جائے تو جہاں تک ممکن ہوسکے اسے جھیلتے ہیں ،جس قدراسے ہلکا کیا جاسکے ہلکا کرتے ہیں، صبر جمیل کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں، اس کے بغیر تو چارہ کارہی نہیں ،مصائب کامقابلہ کرنے سے تجربات حاصل کرتے ہیں ، اور ان کی دفاعی قوت بڑھتی جاتی ہے، ادھر صبر اور اس کے اجر و ثواب کے ذریعہ اس کے مصائب مضمہل ہوتے جاتے ہیں اور ان کی جگہ ثواب کی اچھی امیدیں  آ لیتی ہیں۔

اس بات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

عجبا لأمرالمومنین ان امرہ کلہ خیر ،ان اصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ ،وان اصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ،ولیس ذلک لاحد الا المؤمنین

’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے اس کا ہر معاملہ اس کی بھلائی کا سبب اور ذریعہ ہے اگر اسے خوشی پہنچے تو وہ اس پر شکر کرتاہے ، اور یہ اس کی بھلائی کا سبب بن جاتا ہے،اور اگر     ا سے مصیبت پہنچے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے ‘یہ بھی اس کی بھلائی کا سبب بن جاتاہے ۔ لیکن یاد رکھنا! یہ صرف مومن کے لئے ہے کسی اور کے لئے نہیں ‘‘

مومن جب ان دونوں صفات کے ساتھ متصف ہوتاہے تو وہ بھلائی چن  لیتاہے ، اور برائی سے دامن محفوظ کرلیتاہے ،شکر اور صبر کے اسی ملے جلے امتزاج کی وجہ سے اسے خوشی و سرور حاصل ہوتاہے، غم اوربے چینی ، تنگی اور شقاوت دور ہوجاتی ہے اور یوں اس دنیا میں زندگی خوشگوار ہوجاتی ہے۔

اس کے برعکس وہ لوگ جو خدا کی تعلیمات سے آشنا نہیں، وہ طمع اور لالچ کے امتزاج کے ساتھ دنیا کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ،ہر طرف سے اسے سمیٹنے کی کوشش ان کے اخلاق کو تباہ کر ڈالتی ہے ، اس پر یوں لپکتے ہیں جیسے چوپائے ہلہ گلہ کرتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود ، انہیں دلی راحت حاصل نہیں بلکہ مصائب ان پر بکھر کر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

ایک طرف محبوب دنیا کے چھن جانے کا خوف دامن گیر ہے، دوسری طرف نفس کی پیاس بجھنے کو نہیں ۔ وہ برابر خواہشات کی لت میں پڑا ہواہے ،اگر ان کا حصول ہو بھی جائے تو مزید کی خواہش دامن گیر ہے اور اگر حصول نہ ہو تو حسرت ساتھ نہیں چھوڑتی۔

اگر مصیبت آپڑے تو بے چینی اور اضطراب … اس کی بد بختی کے سامان کی بابت نہ ہی پوچھئے تو بہتر ہے ،اس کے اعصابی امراض کی بابت کیا کہا جائے؟ خوف اسے حالات کی خطرناک ابتری تک پہنچا دیتاہے، کیونکہ اسے نہ توثواب کی امید ہوتی ہے اور نہ ہی صبرسے تسلی دے کر اس کی مصیبت کو کم کیا جاسکتاہے ۔

وجہ فرق:

اگر آپ ان باتوں کو اپنے مشاہدے میں لائیں اور لوگوں کے احوال دیکھنا شروع کریں، تو آپ کو ایسے مومن جو کہ اپنے ایمان کے مقتضیٰ پر عمل کر نے والا ہو اور اس کے غیر میں بڑا فرق نظر آ ئے گا اور وہ فرق یہ ہے کہ دین اسلام اپنے پیروکاروں کو اللہ کے دئیے ہوئے رزق پر قناعت اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے انعامات پر نہ صرف اکتفاء کریں بلکہ ان پر سجدہ شکر بھی بجا لائیں۔

چنانچہ مومن کو کوئی تکلیف یا فقرو فاقہ کی نوبت پہنچتی ہے تو وہ ایمانی حرارت کی وجہ سے قناعت اور رضا بالقضاء کے جذبے کے تحت انہی عوارض سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون حاصل کر رہا ہوتاہے ، وہ اپنے سے ادنیٰ کو دیکھ کر شکر بجا لاتاہے اور بالا کو دیکھ کر صبر کرتاہے اور رضا بالقضا پر عمل کرتاہے۔ 

اس کے بر عکس نور ایمان سے خالی ایسے عوارض کے پیش آنے  سے نہ صرف تأسف شدید بلکہ شقاوت کا شکار ہوجاتاہے۔ 

Previous Post Next Post