اسلام میں شادی کی حیثیت Islam Me Shadi Ki Haisiyat

 اسلام میں شادی کی حیثیت

قرآن کی رو سے رشتہ ازدواج محض نسل انسانی کے تحفظ کا ذریعہ نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر وہ اطمینان قلب اور سکون وجدان کا زینہ ہے۔

 ارشاد ربانی ہے:

{وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً} 

(سورہ الروم: ۲۱)

’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تمھارے لئے تمھیں میں سے بیویاں پیداکیں تاکہ ان کے پاس چین سے رہو اور تمھارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی‘‘

اس آیت میں قرآن کریم نے پر سکون اور محبت بھری زندگی کی بنیاد ڈالی ہے۔ چنانچہ بیوی مرد کے لیے جائے پناہ ہے‘ معاش کے حصول میں دن بھر کی محنت کے بعد وہ اس کے پاس راحت حاصل کرتا ہے اور اس کی موانست سے سکون حاصل کرتا ہے ،اس کی بیوی جوکہ اس کی تکان کی دوری کا باعث ہے‘ ایسی ہونی چاہیے کہ اسے دیکھ کر خاوند راحت محسوس کرے‘ خندہ پیشان‘ ہنستی‘ مسکراتی ہو‘… اس کے پاس آ کر میٹھی‘ دل لگی کی گفتگو کرے جو مرد کی ساری تھکاوٹ دور کر دے۔

یہ دیکھئے! عمر بن خطابؓ ،خلیفہ عادل‘ کامل مسلمان‘ پختہ اور آہنی عزم والے‘ جس راستے پر چلتے شیطان راہ بدل لیتا‘ ان کی بیوی نے زبان 

درازی کی‘ لیکن اس روحانی اور ازدواجی تعلق کی بنا پر کیسے اسے پی گئے؟ یہی وہ تعلق ہے جو دلی سکون کا باعث ہے۔

ایک شخص آپؓ کے پاس اپنی بیوی کی بدخلق کی شکایت لے کر آیا‘ اس نے حضرت عمرؓ کی بیوی کو زبان درازی کرتے دیکھا،جبکہ آپؓ خاموش ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اسے پلٹتے دیکھتا تو پکار کر کہا: 

بھائی! کیا کام ہے؟

 کہنے لگا: میں آپ کے پاس اپنی بیوی کی زبان درازی کی شکایت لے کر آیا تھا، یہاں دیکھا کہ آپ کی بیوی آپ پر زبان دراز ہے۔

 حضرت عمرؓ نے فرمایا: میرے ذمے اس کے جو حقوق ہیں ان کی وجہ سے میں یہ سب کچھ برداشت کرتا ہوں، کیونکہ یہ میرا کھانا بناتی ہے‘ میری روٹی پکاتی ہے‘ میرے کپڑے دھوتی ہے اور میرے بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔

 حالانکہ یہ سب اس کے ذمے نہیں‘ اسی کی وجہ سے میرا دل حرام سے باز رہتا ہے ۔

 تو وہ شخص کہنے لگا: میری بیوی بھی اسی طرح ہے۔

 تو فرمایا: بھائی! پھر اس کی باتوں کو برداشت کرو‘ مختصر سی زندگی ہے اور موت کا وقت قریب ہے۔

بیوی خاوند کے سکون کا باعث ہے‘ پیار‘ محبت اور پاکیزگی کے سائے میں اپنی جنسی پیاس اس سے بجھاتا ہے‘ اس کا دل حرام سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے اعضاء گناہ کے گڑھے میں پھسلنے سے بچے رہتے ہیں۔

خاندانی تعلق میں قلبی سکون اور روحانی آسائش کے حصول کے لیے اسلام نے بیوی کے کچھ حقوق اور خاوند کے لیے کچھ حدود مقرر کی ہیں۔ ان دونوں کے لیے زندگی کی ایک راہ متعین کی ہے کہ جس پر وہ حدود سے تجاوز کیے بغیر محو سفر رہیں تاکہ زندگی کی گاڑی اختلافات اور نزاعات سے دور رہتے ہوئے رواں دواں رہے۔

ہر ایک کے حقوق ہیں‘ ہر شریک پر دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا پاس رکھنا ضروری ہے۔ جب خاوند بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے تو خاوند کے راضی ہونے تک وہ اللہ کی ناراضگی کو مول لیے رکھتی ہے۔ 

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’جب خاوند بیوی کو حاجت کے لیے بلائے تو وہ ضرور اس کے پاس آئے اگرچہ وہ تنور ہی پر کیوں نہ ہو‘‘۔

      (طبرانی ۸/۳۹۸‘ مجمع الزوائد‘ ۴/۲۹۶)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے جو کوئی آدمی اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو آسمان والا اس پر اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اس کا خاوند راضی نہ ہو جائے‘‘۔

Previous Post Next Post