اسلام نے مرد کو عزت بخشی ہے:
’’اگر میں کسی کو کسی کے آگے سجدے کا حکم کرتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے‘‘۔
کیونکہ اسلام نے گھریلو امورکی ریاست اور نظامت مرد کے سپرد کی ہے کیونکہ وہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے زیادہ قابل ہے۔ مسائل کا حل بخوبی کر سکتا ہے۔ اس کی جسمانی ساخت عورت سے زیادہ مضبوط ہے… جسمانی بساطت کے ساتھ اللہ پاک نے اسے پختگی رائے بھی عطاء کی ہے۔ باقی رہی عورت تو وہ جسمانی اور تکوینی اعتبار سے کمزور جسم اور کمزور دل ہے۔ مامتا اس پر غالب ہے… اسی جسمانی کمزوری کے پیش نظر بعض اوقات اس سے کچھ عبادات بھی ساقط ہو جاتی ہیں‘ چنانچہ ماہواری اور نفاس کے دوران وہ نماز‘ روزے کی مکلف نہیں رہتی۔
انہی خصوصیات اور امتیازات کی بناء پر اللہ پاک نے مرد کو خاندانی ریاست کے لیے مختص کیا ہے:
{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآاَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ}
(سورہ النساء: ۳۴)
’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس واسطے کہ اللہ نے ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے اور اس واسطے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں‘‘
جیسا کہ انہیں امامت‘ ولایت‘ فتویٰ‘ جہاد اور میراث میں زیادہ حصے کے ساتھ مختص کیا ہے۔ وللرجال علیھن درجۃ۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ’’ نیک اور صالح بیوی دنیا کا بہترین متاع ہے۔ ‘‘
ارشاد ہے:
’’دنیا متاع ہے اور اس کا بہترین متاع نیک بیوی ہے‘‘ (مشکوٰۃ: 3083)
تقویٰ خداوندی کے بعد اسے مرد کے لیے سب سے بڑا کسب قرار دیا ہے۔
’’تقویٰ خداوندی کے حصول کے بعد مومن کے لئے نیک بیوی سے بڑھ کر کوئی چیز مفید نہیں‘ اگر اسے حکم دیتا ہے تو وہ اس کی اطاعت کرتی ہے‘ اگر اسے دیکھتا ہے تو خوش کر دیتی ہے‘ اگر اس پر قسم کھاتا ہے تو وہ پوری کر دیتی ہے‘ اگر اس سے دور کہیں جاتا ہے تو وہ اپنے نفس اور اس کے مال کی حفاظت کرتی ہے۔‘‘ (طبرانی‘ ابن ماجہ‘ مشکوٰۃ ۳۰۹۵)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اسے صالح فرمایا۔ اس سے مراد مال کی کثرت اور حسن جمال کی توقیر نہیں، بلکہ نیکی کا معیار، اس کا خاوند کی اطاعت کرنا اور اس کے دل کو خوش کرنا بنایا ہے۔ چنانچہ اسے پراگندہ نہ دیکھے‘ اگر اسے سونگھے تو اسے خوشبو ہی آئے۔ نیکی کا معیار عفت ہے کہ اگر خاوند موجود نہ ہو یا جنسی ملاقات میں مشاغل کی کثرت حائل ہو جائے تو وہ پاکدامن رہے۔
بہت سی ایسی ہوتی ہیں جو اپنے ہم سفر زندگی کی غیر موجودگی کے موقع کی ٹوہ میں رہتی ہیں‘ پھر ایسی راہ پر چل پڑتی ہیں کہ جسے ان کا ہم سفر پسند نہیں کرتا۔ ضمیر انہیں ٹوکتا ہے‘ جب ضمیر کی روک ٹوک ختم ہو جاتی ہے اور رقابت زائل ہو جاتی ہے تو فتنہ رونما ہوتا ہے اور ظہور فساد ہو جاتا ہے۔
حضرت عمرؓ اپنی رعایا کے احوال جاننے کے لیے رات کو گشت کر رہے
تھے کہ ایک خیمہ کے اندر سے ایک عورت کو کہتے سنا:
الا طال ہذااللیل وازور جانبہ
ولیس الی جنبی خلیل الاعبہ
فواللہ لولا اللہ تخشی عواقبہ
لزلزل من ہذاالسریر جوانبہ
مخافۃ ربی و الحیاء یعفنی
واکرام بعلی ان تنال مراتبہ
’’ہائے! یہ رات کتنی دراز ہو گئی اور وہ رخصت ہو گیا‘ میرے پہلو میں میرا خلیل بھی نہیں کہ میں اس سے کھیلوں‘ اللہ کی قسم !اگر نتائج کا ڈر نہ ہوتا تو اس تخت سے جوانب سرک جاتے‘ اپنے رب کے خوف‘ حیاو پاک دامنی اور احترام خاوند کے پیش نظر ایسا نہیں ہوا کہ مراتب کا حصول اسی سے ممکن ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ جان گئے کہ کسی مسلمان سپاہی کی بیوی ہے جو کئی ماہ سے میدان جنگ میں ہے اور اس کی عفت و عصمت اور خشیت خداوندی نے اسے تنہاء رکھا ہوا ہے۔ تو آپؓ نے حکم صادر فرمایا کہ سپاہی میدان جنگ میں ایک متعین مدت تک ہی رہے پھر اپنے گھر واپس پلٹے تاکہ حقوق زوجیت ادا کر سکے۔ پھر میدان جہاد پلٹ جائے تاکہ دین اور قرآن کا حکم بجا لا سکے۔