خاندانی نظام تباہی کے دہانے پر:
جب عورت میدان عمل میں اترتی ہے تو اولاً وہ خاندانی نظام کے قیام کی ہی نفی کردیتی ہے۔ کیونکہ اس نے سماج کی ذمہ داری کو سنبھال رکھا ہوتا ہے۔ اب اسے ایک اور ذمہ داری کو برداشت کرنا دشوار نظر آتا ہے۔ کیونکہ سماج کی ذمہ داری کٹھن مرحلے کی ہوتی ہے اور وہ عورت کی عمومی تخلیق کے مخالف ہے۔ لہٰذا یہ پہلی ذمہ داری ہی اس کے کندھوں کو تھکا دیتی ہے۔
اب اگر وہ خاندانی نظام کی بنیاد رکھ بھی دے تو اسے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نسوانیت کا خاتمہ:
اگر عورت میدان عمل میں ایسا شعبہ اختیار کرلے جس کا تعلق جفاکشی سے ہے تو عورت کی نسوانیت رفتہ رفتہ لٹنے لگتی ہے۔ حتیٰ کہ عورت مردوں کی صف میں کھڑی ہو تو اس کا پہچانا جانا مشکل نظر آتا ہے۔
جب عورت کی نسوانیت ہی ختم ہوجاتی ہے تو مرد کے لیے باعث تسکین نہیں رہتی۔ مرد کا استمتاع اس سے ناممکن نہ سہی مشکل ضرورہوجاتا ہے۔نتیجتاًبات ازدواجی تعلق کے اختتام تک پہنچ جاتی ہے۔
اولاد کی ماں سے دوری:
عورت جب سماج کے کام میں مصروف ہوتی ہے تو ماں ہونے کی حیثیت سے وہ مامتا کا کردار ادا نہیں کرسکتی۔ اولاد کی تربیت میں بہت سی کوتاہیاں جنم لیتی ہیں، جدید نسل کی تباہی معاشرے کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔
اس بارے میں مختلف قسم کے بچے لے کر دو سال تک ان پر تحقیق کی گئی۔ بچوں کے ایک گروپ کی پرورش ان کی ماں جبکہ دوسرے کی پرورش آیا نے کی۔ دو سال کے بعد دیکھا گیا کہ جو بچے ماں کی شفقت اور مامتا سے محروم تھے وہ ٹھیک طور پر نہ بول سکتے تھے اور نہ ہی چل سکتے تھے۔ اس سے بڑھ کر جانکاہ حادثہ یہ تھا کہ ایسے بچوں میں سے 37 فیصد زندگی کی پانچ بہاریں بھی نہ دیکھ سکے۔ جبکہ نفسیاتی پیچیدگیاں اس کے علاوہیں۔ وہ خدا ہی جانے!
اخلاقی بے راہ روی:
سماجی شعبہ جات میں کام کرنے والی خواتین اکثر و بیشتر کسی مرد کے ماتحت ہوتی ہیں۔ انہیں ہر وقت اپنے Boss کی نظر کا جواب زیر لب مسکراہٹ سے دینا پڑتا ہے۔
اگر خاتون Reception پر ہو تو اس کا کام صرف گاہکوں کے دلوں کولبھانا ہے۔ اکثر دفاتر میں خوبرو دو شیزو کو بٹھا کر محض گاہکوں کو متوجہ کیا جاتا ہے۔
مغرب میں کی گئی تحقیق کے مطابق مردوں کے ماتحت کام کرنے والی خواتین میں جو Rape کے واقعات رونما ہوتے ہیں ان میں سے 90 فیصد واقعات میں خواتین کی رضا نہیں ہوتی۔
پھر مخلوط ماحول میں کام کرنے والی خواتین اکثر اپنا دل کسی نہ کسی مرد کے دامن فریب میں اٹکا بیٹھتی ہیں۔ اس سلسلے میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی کوئی تخصیص نہیں۔
معاشرے کی تباہی:
سماجی کاموں سے فارغ ہوکر جب مرد تھکاماندہ گھر واپس پلٹتا ہے تو اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کی بیگم گھر میں سب سے پہلے اس کا استقبال کرنے والی ہو‘ خاتون کی دل آویز مسکراہٹ اس کے دن بھر کی تکان کو دور کردیتی ہے۔ اس کا دماغ جو دن بھر سماجی مصروفیات میں
اٹکا ہوا تھا اب خاتون خانہ کے نشیمن محبت میں گرفتار ہوچکا ہے۔ بیگم کی تازگی اسے بھی تازہ دم کردیتی ہے اور وہ خانہ داری میں اس کا ہاتھ بٹانے لگتا ہے۔
لیکن اگر مرد اور عورت دونوں ہی سماجی کاموں سے فارغ ہوکر گھر کو پلٹیں تو دونوں ہی تھکے ہوں گے۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی تھکاوٹ دور ہونے کی بجائے انہیں کوفت ہورہی ہوگی۔ ادھر بچے بھوک کے مارے بلبلا رہے ہوں گے‘ ادھر شوہر نامداردردوں سے کراہ رہے ہوں گے۔ بیچاری عورت جو پہلے سے تھک کر چور ہوگی دوبارہ تھکاوٹیں برداشت کرنے کے لیے تیارنہ ہوگی۔
یہ ایک دن کا معمول نہ ہوگا بلکہ یہ تو زندگی بھر کا مشغلہ ہوگا‘ نتیجتاً دونوں میں چڑچڑاپن پیدا ہوگا۔ بات بات پر جھگڑے شروع ہونے لگیں گے۔ مرد عورت کو کوسے گا‘ اور عورت مرد کو۔ زبانیں تیز ہونے لگیں گی۔پیار ومحبت کی باتوں کا سرے سے خاتمہ ہوجائے گا اور بات نااتفاقی پر جاٹھہرے گی۔
اقتصادی خرابی:
عورت مغرب کے چکر میں یوں پھنس گئی کہ اس نے خیال کیاکہ جب کمانے والے دو فرد ہوں گے تو آمدنی کا تناسب بڑھے گا اور زندگی خوشگوار ہوجائے گی۔
حالانکہ بے چاری نے یہ نہیں سوچا کہ اگر دونوں سماج کے کاموں میں مصروف ہوں گے تو امور خانہ داری کون بجالائے گا؟
یقینا برتن دھونے‘ گھر کی صفائی ستھرائی کے لیے کوئی خادمہ لانی پڑے گی‘ بچوں کی نگہداشت کے لیے علیحدہ آیا رکھنا ہوگی۔ اب تو بے چاری کپڑے بھی نہ دھوسکے گی‘ وہ بھی Dry Cleaner کے پاس بھیجنے پڑیں گے۔ دوپہر کا کھانا تو دونوں کو شاید باہر سے کھانا پڑے۔ بچوں کے لیے علیحدہ سے منگوانا پڑے۔ رات کا کھانا بھی عموماً باہر سے ہی لانا پڑے۔
میزان خود کرلیجئے‘ میں نے موٹی موٹی باتیں گنوادیں۔ اب غور کیجئے ! آمدنی کے تناسب میں جو اضافہ ہوا‘ بھلاوہ سو دمندرہا یا نہیں؟
جسمانی کمزوری:
کام کرنے والی خواتین عموماً جسمانی بے چینی‘ اعصابی کمزوری اور نفسیاتی اضطراب اور قلق کا شکار ہوجاتی ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ عورت ناقص الخلقت ہے۔ اسے اللہ پاک نے امور خانہ داری
ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ جب وہ اپنی ہمت سے بڑھ کر کام کرنا شروع کرتی ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو وہ کرسکتی تھی اب وہ بھی نہیں کرسکتی۔
عورت کی ماہواری کے ایام کے دوران‘ عورت کو طبعی طور پر کچھ کمزوری محسوس ہونے لگتی ہے۔ لیکن ان ایام میں کام میں تو کوئی کمی نہیں آتی۔ اسی طرح ولادت سے قبل اور بعد کچھ ماہ اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
ان ادوار میں عورت جب مسلسل مشقت کرتی رہتی ہے تو بالآخر ایک نہ ایک دن اس کی کمزوری اسے بے جان بنادیتی ہے۔ اس کی صحت گرنا شروع ہوجاتی ہے‘ طرح طرح کے امراض اسے آگھیرتے ہیں۔ معصوم اولاد جنہیں ماں کی ضرورت تھی آج ماں کو ان کی ضرورت ہے۔ نوجوانی ہی میں بڑھاپے نے دستک دینا شروع کردی۔