مرد حاکم اور عورت محکوم Mard Hakim Aur Aurat Mahkoom

 مرد حاکم اور عورت محکوم:

اسلام نے مرد کو حاکم اور عورت کو محکوم بنایا ہے۔ 

{اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ}

اور طلاق کا مختار مرد کو بنایا ہے۔ عورت کے ہاتھ میں طلاق کا اختیار نہیں دیا۔ یہ سب باتیں درست ہیں لیکن ان سے غلط مطلب اخذ نہیں کرنا چاہیے۔ یورپ زدہ عورتیں ان سے یہ مطلب لیتی ہیں کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ ان کی حق تلفی کی گئی ہے۔ ان کی آزادی سلب کرلی گئی ہے۔ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ یہ کم فہمی ہے۔

اس دنیا کا طبعی اور فطرتی نظام ایسا ہے کہ وہ حاکم کی برتری کے بغیر نہیں چل سکتا۔ دیکھئے! کسی مملکت کا نظام آپ کو اگر بہتر نظر آرہا ہو مثلاً رعایا خوش ہو‘ ان میں کسی طرح جھگڑے نہ ہوں‘ تو اس حسین نظام کا سبب یہ نہیں ہے کہ اس میں سب باشندے حاکم ہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے بعض کو حاکم اور بعض کو محکوم بنارکھا ہے۔

ان میں بعض افسر ہیں اور بعض ان کے ماتحت۔ چھوٹے‘ بڑے‘ حاکم محکوم‘ افسر و ماتحت‘ آمرو مامور کے سلسلے کا قیام ہی اس مملکت کی ترقی و خوشی کا ضامن ہے۔ اگر اس کے باشندے سب کے سب اس طرح  آزاد ہوجائیں کہ کوئی ان پر حاکم نہ ہو‘ ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہ ہو‘ تو ایک ہفتے میں ہی سارا ملک تباہ ہوجائے گا۔ ظلم و ستم کے طوفان سے شہروں کا سکون ختم ہوجائے گا‘ طاقتور لڑلڑ کر کمزور کو ختم کردے گا‘ کسی کی عزت محفوظ نہ ہوگی۔ معلوم ہوا کہ حاکم و محکوم کا سلسلہ خوشی اور مسرت کا سبب ہے۔ بشرطیکہ وہ انصاف پر مبنی ہو۔

Previous Post Next Post