muslim Muashirey me Islah Ki zarurat

الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ، ونشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و نشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ۔

اما بعد !

انیسویں صدی کی ابتداء سے لے کر اب تک نہ صرف غیر مسلم معاشرے بلکہ بعض نام نہاد مسلمانوں کی طرف سے کچھ ایسی تحریکوں نے سر اٹھایا جن کے منتظمین اس گمان میں مبتلا تھے کہ وہ ’’آزادی حقوق نسواں ‘‘ کے محافظ اور علمبردار ہیں ۔ان لوگوں کا نعرہ یہ تھا کہ عورتوں کو ان کے حقوق فراہم کئے جائیں ،انہیں معاشرتی مساوات سے نوازا جائے اور عورت کو ہر طرح کی آزادی سے بہرہ ور کیا جائے ۔

ان کوششوں کو اگر مثبت انداز میں  پیش کیا جاتا تو شاید ہمیں ان سے کوئی گلہ نہ ہوتا کیونکہ ہم اس حقیقت کوفراموش نہیں کرسکتے کہ دنیا کے بیشتر علاقوںمیں…غیر مسلم معاشرہ کی تخصیص کے بغیر… اب بھی عورت کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا ہے۔اس لئے ان تحریکوں یا تنظیموں کو مطلقاً بے فائدہ یا بے مقصد قرار نہیں دیا جاسکتا ۔البتہ جو بات ہمارے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اسلام جیسے مقدس، انسان دوست اور عالمگیر مذہب کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔بات اگر غیروں کی ہوتی تو ان کی فطرت پر محمول کرلیتے لیکن …افسوس صد افسوس…اس گھر کو آگ لگانے والوں میں اپنے پیش پیش رہے :




تیر کھا کے دیکھا کمین گاہ کی  طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی 

اس سلسلہ میںایک کو شش یہ بھی کی گئی کہ اسلام کو اس مسئلہ میں ہمیشہ دفاعی حیثیت میں رکھا گیا ،بہت سے مصنفین نے حقوق نسواں کے حوالہ سے ہونے والے اعتراضات کے جوابات بھی دفاعی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے دیئے …حالانکہ اسلام  اس مسئلہ میں بھی دفاعی درجہ میں نہیں بلکہ اقدامی پوزیشن میں ہے۔اسلام نے عورت کو جو حقوق دیئے ہیں ،بلاشبہ کسی بھی جہت سے ان پر انگشت نمائی کی گنجائش نہیں ہے۔

…………………

اسلام سے پہلے …نہ صرف جزیرہ عرب میں… بلکہ پوری دنیامیں عورت کوایک کم حیثیت، معمولی اور بے وقعت چیز سمجھا جاتاتھا۔ 

میکسیکو میں پائی جانے والی ’’ازتک‘‘قوم کے لوگ مکئی کے موسم کے شروع میں ایک نوجوان لڑکی کو ذبح کیا کرتے تھے اور پھر موسم کے آخر میں ایک بوڑھی کا سرتن سے جدا کرتے اور اس کی کھال اتار کر قبیلہ کے کاہن کو پیش کردی جاتی تھی جو اس کے اوڑھنے کے کام آتی تھی ۔یہ ساراعمل ڈنکے کی چوٹ پر کیا جاتا اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی مصلحت یا مداخلت کو خاطر میں نہ لا یا جاتاتھا ۔

یونانی لوگ عورت کو اس نگاہ سے دیکھتے تھے کہ وہ سراپا شر ہے جو معبودوںکی طرف سے انسانوں پر مسلط کی گئی ہے ۔وہ یہ خیال کرتے تھے کہ عورت کے ظاہری حسن کے فریب میں نحوست اور بدبختی پوشیدہ ہے ۔

براعظم امریکہ میں پائے جانے والے بولیائی قبائل کے لوگ نوجوان لڑکی کو ذبح کرکے اس کے اعضاء کو کھیت میں بنی ہوئی نالیوں میں ڈال دیا کرتے تھے اور اس سے ان کا مقصد اپنے دیوتاؤں کو خوش کرنا ہوتا تھا ۔





ہالینڈ کے شہر’’ ایڈنبرگ‘‘ کی حالت یہ ہے کہ چودھویں صدی عیسوی میں مقرر کردہ قانون کا ایک مسودہ وہاں دریافت ہوا جس میں تحریر تھا :

’’خاوند کو اختیار ہے کہ وہ عورت کو مارے ،اس کی کھال کو اوپر سے نیچے تک چیرے،پھر اس کے خون سے اپنے ہاتھ پاؤں پراگندہ کرے اور اس کے بعد اس کی کھال کو ٹانکے لگا ئے ۔ عورت نکاح کے بعد ہمیشہ ہمیشہ مر د کے پاس زندگی کی قید میں گرفتار رہے گی‘‘

تحریف شدہ یہودی مذہب کی کتابوں میں مذکور ہے کہ (معاذ اللہ) حواء (علیہاالسلام)ہی انسانی مشقت اور بدبختی کا باعث بنیں،انہیں کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا گیا اور زمین کی مصیبتوں میں ڈال دیا گیا ۔

مزید یہ بھی لکھا ہے :

’’بیوی کا سارا مال خاوند کی ملکیت ہے اور عورت کا حق صرف اسی مال پر ہے جو شادی کے وقت اسے بطور مہر کے ملا ،خاوند کی موت کے بعد وہ مال بھی اس سے لے لیا جائے گا، اسی طرح اگر طلاق ہوئی یا فرقت واقع ہوگئی تو وہ مہر واپس کرنا پڑے گا ،لہذا ہر وہ مال جسے عورت اپنی محنت وکوشش سے کمائے یا اسے شادی کے وقت جو چیز ہدیہ میں ملے تو یہ سارا مال خاوند کی ملکیت ہے ،وہ جیسے چاہے بغیر روک ٹوک کے اس میں تصرف کرے‘‘

ہندو مذہب میں عورت کو جو حیثیت دی گئی ہے وہ بھی حیران کن حد تک گری ہوئی ہے، ہندؤوں کی مقدس مذہبی کتاب ’’رگ وید‘‘ میں لکھا ہے :

’’کسی عورت سے مستقل محبت نہیں ہوسکتی،عورت دھوکہ باز ہے ، ہر عورت کی عصمت مشتبہ ہے ،عورت عقل سے خالی ہے نیز عورت کا کوئی حق واحترام نہیں‘‘۔

ایک طرف تو ان حقائق کو ذہن میں جگہ دیجئے اور پھر یہ بھی جان لیں کہ اسلام نے عورت کو کیا دیا ہے…؟کیا اسلام نے عورت کو ماں کی حیثیت سے گھر کی ملکہ نہیں بنایا اور پھر قیامت تک آنے والے انسانوں کو نصیحت کردی:







’’وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَانًا حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھًا ‘‘

’’ہم نے انسان کو اس بات کا حکم دیا کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے ،اس کی ماں نے مشقت کے ساتھ اٹھائے رکھا اور پھر اسے مشقت کے ساتھ جنم دیا‘‘

جب صحابی ؓ نے آکرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ   ’ ’ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’تیری ماں!‘‘دوباریہی سوال کیا تو فرمایا’’تیری ماں!!‘‘سہ بارہ سوال کیا تو پھریہی فرمایا’’تیری ماں!!!‘‘کیا اس فرمان میں ماؤں کے لئے زبردست تسلی کا سامان موجود نہیں ،کیا اس فرمان میںاس باپ کے لئے مسرت کاسامان نہیں جس کے گھر بیٹی کی پیدائش ہو،کیااس فرمان میں معاشرہ کو ایک ایسا پیغام نہیں دیا جارہا جس کی بنیاد عورت کی عظمت پر رکھی گئی ہے …؟

اسلام نے بیوی کی حیثیت سے عورت کو جومقام دیا دنیا کا کوئی نیا پرانا ،آسمانی یا غیر آسمانی مذہب اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ میراث کا حصہ بننے والی کو میراث کا اہم مالک بنا دیا گیا۔شوہر کو بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کا پابند بنایا گیا ،قرآن مجید میں خانگی زندگی کے احکامات کو کھول کھول کر بیان کیا گیا اورانہیں اہمیت دی گئی ،یہاں تک کہ قرآن مجید میں ایک سورت کا نام’’ سورۃ النساء‘‘رکھا گیا،نساء عربی زبان میں عورتوں کو کہا جاتا ہے ۔خاوند اور بیوی کو حقوق میں برابری عطا کی گئی ، چنانچہ فرمایا:

’’وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘

’’ان عورتوں کے لئے وہ حق ہیں جو ان پر لازم ہیںنیکی کے ساتھ‘‘







ہر موقع پر عورت سے نیکی اور بھلائی کرنے کا حکم دیا گیا ،اگر دونوں کا مزاج آپس میںنہ ملے اور نوبت فرقت تک آجائے تو اس موقع پر بھی بھلائی کا دامن تھامنے کی تلقین کی گئی ،چنانچہ فرمایا:

’’فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ‘‘

’’یا تو معروف کے ساتھ روکو یا اچھے طریقہ سے رخصت کردو‘‘

اسی طرح وہ عورت جسے دوسرے معاشروں میں ذلت ونحوست کا نشان سمجھا جاتا تھا اسے مرد کے لئے سکون اور راحت کی علامت قرار دے دیا گیا ،چنانچہ فرمایا:



’’وَمِنْ آیٰتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا‘‘

’’اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہارے نفوس میں سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو‘‘

امام ابن القیم الجوزیہ ؒ بیوی کے ساتھ جماع کے فائدے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اس میں کمال لذت بھی ہے اور بیوی پر احسان کی تکمیل بھی …اس میں حصول اجر بھی ہے اور ثواب صدقہ بھی…فرحت نفس بھی ہے فضول سوچوںکا زوال بھی…روح کی خفت بھی ہے اور ثقل کی دوری بھی… بدن کی خفت بھی ہے اور جسم کا اعتدال بھی…صحت کا حصول بھی ہے اور بیماریوں کا علاج بھی…جب یہ خوشگوار چہرے ،نرم اخلاق،بے پناہ عشق،  بھرپوررغبت اور ثواب کی امید کے ساتھ ہوتوکوئی چیزاسکامقابلہ نہیںکرسکتی اور خاص طور پر جب لذت کمال کی موافقت کرے ، کیونکہ لذت اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتی جب تک ہر ہر جزو بدن اپنے اپنے حصہ کی لذت نہ لے لے ،پس آنکھ محبوب کو دیکھ کر لذت اٹھاتی ہے ،کان اس کے کلام کو سنتے ہیں ،ناک اس کی خوشبو سونگھتی ہے ،منہ اس کو چومتا ہے، ہاتھ اس کو چھو کر لذت حاصل کرتا ہے ،ہر طالب کو اس کی مطلوبہ چیز مل جاتی ہے ، لیکن اگر ان میںسے ایک چیز بھی کم ہوتو نفس کو اس سے قرار حاصل نہ ہوگا اور وہ اس کا متلاشی رہے گا اور مکمل سکون حاصل نہ کرسکے گا،قرآن مجید میں عورت کو اسی وجہ سے’سکن‘ کہا گیا ہے کہ اس میں نفس کا سکون ہے ،فرمایا:

’’وَمِنْ آیٰتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا‘‘

’’اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہارے نفوس میں سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو‘‘۔

بیوی کے حقوق ادائیگی اور اس کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیر لاھلی‘‘

’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا ہواور میں اپنی بیویوں سے بہترین سلوک کرنے والاہوں‘‘

عرب کے لوگ جس بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا کرتے تھے ،اسلام نے اسی کو نورنظر اور محبت کا عنوان قرار دیا ،گھر کی 


چاندنی اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنایا ، رحمت وبرکت کی دلیل اور شفقت ومحبت کی نشانی قرار دیا ،فخر انسانیت سرکار دوعالم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جس کے ہاں کوئی بیٹی پیدا ہواور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے ،نہ اس کی توہین ہونے دے اور نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے ،اسے اللہ جنت میں داخل کرے گا‘‘۔

صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے :

’’جس کے ہاں لڑکیا ں پیدا ہوں اور وہ ان کی اچھی طرح پرورش کرے تو یہی لڑکیا ں اس کے لئے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے :

’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغ کو پہنچ گئیں تو قیامت کے روز میںاور وہ اس طرح آئیں گے جیسے میرے ہاتھ کی دو انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں‘‘۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ فرماتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت کو ساتھ والی انگلی کے ساتھ ملا کر دکھایا ،ان دونوں انگلیوں میں چھوٹا بڑا ہونے کے اعتبار سے تو کچھ فرق ہے لیکن ہیں بہر حال دونوں ساتھ ساتھ۔اسی طرح نبی اور امتی کے درمیان مقام اور مرتبے کے اعتبار سے فرق تو ہوگا لیکن امتی کے لئے یہ کوئی کم خوش نصیبی ہے کہ وہ جنت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  ہو گا ؟   

یہ صرف زبانی باتیں نہ تھیں ،ہمارے آقا کا عمل بھی یہی تھاکہ آپ اپنی بیٹیوں کے لئے ’’بضعۃ منی‘‘ (میرے جگر کا ٹکڑا)کے الفاظ استعمال فرماتے،سفر سے واپس تشریف لاتے تو مسجد کے بعد سب سے پہلے اکثر وبیشتر اپنی نور چشم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے اور جب سیدہ ملنے کے لئے حاضر ہوتیں تو کھڑے ہوکر استقبال فرماتے، ان کے لئے چادر بچھاتے اور اصرار کرکے ان کو چادرپر بٹھاتے ۔

………………


اسلام سے پہلے کے عرب معاشرہ میں لڑکی کی پیدائش کو بہت بڑا عیب شمار کیا جاتاتھا،زمانہ جاہلیت کے ہوس زدہ اور شرک خوردہ انسانوں کی سوچ یہ تھی کہ وہ لڑکی کی ولادت پر بحر ندامت میں ڈوب جاتے تھے،ان کے خیال میں لڑکی کو زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں تھا۔اس کی ولادت کی خبر پر باپ کا چہرہ سیاہ پڑجاتا تھا ،اس کادل حزن وملال کی تاریکیوں میں ڈوب جاتا تھا ،وہ اسے زندہ درگور کرنے کی تدبیریں سوچنے لگتا تھا۔

زمانہ جاہلیت کی تاریخ کا جب گہرائی سے مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عربوں میں رواج پانے والی اس سوچ کے پیچھے بیشتر اوقات دو عوامل کارفرماہوتے تھے۔

ایک یہ کہ اس زمانہ کے جاہل اور زبان دراز شعراء اپنے اشعار میں لوگوں کی بچیوں کی عزت اچھالتے اور لڑکیوںکے نام لے کرنہ صرف ان کے نسوانی اوصاف کو ذکر کرتے بلکہ ان کے ساتھ محبت کی فرضی داستانوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا تھا،اس سلسلہ میں وہ شعراء کسی بھی قسم کی قانونی گرفت سے کلی طور پرآزاد ہوتے تھے۔چنانچہ ایک غیرت مند باپ کے لئے یہ بات انتہائی ناقابل برداشت تھی کہ وہ کسی شرابی کے منہ سے اپنی بیٹی کے متعلق کہے گئے نازیبا اشعار سن سکے۔

دوسرابڑا سبب یہ تھا کہ شادی کے بعدلڑکی مکمل طورپر اپنے خاوند کی ملکیت میں چلی جاتی تھی،وہ اپنی مرضی سے اس کے ساتھ جیسا چاہتا سلوک کرسکتا تھا،خاوند کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ میںاس کی بیوی کو بھی شمار کیا جاتا تھا…خاوندکی میراث میں سے بیوی کو کچھ ملنا تو دور کی بات… وہ ایک باندی کی طرح میراث میں تقسیم کردی جاتی تھی۔

اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ ہی ان دونوں اسباب کاتدارک کیا ، اس سلسلہ میں لوگوں کی زبانوں کو قانون کا پابند بنانے کے لئے حد قذف کانزول ہوااور کسی پاکدامن اور عفیفہ پر تہمت لگانے والوں کوکوڑے لگانے کا حکم دیا گیا ۔

اسی طرح عورت جسے بھیڑ بکریوں کی طرح میراث میںتقسیم کردیاجاتا تھا ، اسے میراث کاحصہ دار بنایا گیا …عورت جس کامقام ایک زر خرید غلام کا ساتھا اسے گھر کی مالکہ بنا دیا گیا…جو مخلوق پست تھی اسے بلندی عطا کی گئی…یہ حصہ محض رسمی نوعیت کا نہیں تھا بلکہ میت کے ترکہ میں عورت کے حصہ کو ایک خاص مقام اور امتیازی حیثیت دی گئی۔ ہماری اس بات کی وضاحت ذیل میں دی گئی دو مثالوں سے بخوبی ہو سکے گی:

(۱) میت کے ورثہ میں سے اس کے مال کے اولین حقدار اس کے   ’’ اصحاب فروض‘‘ کو قرار دیا گیا ہے ،اصحاب فروض سے مراد میت کے وہ رشتہ دار ہیں جو اس کے مال کے اولین حق دار ہیں ،ایسے ورثہ کی تعداد بارہ ہے اور ان کی فہرست درج ذیل ہے :

(۱)باپ (۲)دادا (۳)  ماںشریک بھائی (۴) خاوند (۵)بیوی (۶) دادی (۷)بیٹی(۸) پوتی(۹)ماں      (۱۰) بہن(۱۱)باپ شریک بہن (۱۲)ماں شریک بہن ۔

ذرا غور کیجئے کہ اصحاب فروض میں مردکتنے ہیں اور عورتوں کی تعداد کیا ہے ؟ یقینا ان ورثہ میں عورتوں کی تعداد مردوںسے دوگنی ہے ۔

(۲) قرآن مجید میں جب بیٹوں کی میراث کا ذکر آیا تو اس کے لئے مندرجہ ذیل تعبیر اختیار کی گئی :

’’وَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘‘

’’اور لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے ‘‘

اس تعبیر میں غور فرمائیںتو اس معجزاتی جملہ کی حقیقت آپ کے سامنے کھلتی چلی جائے گی کہ اس میں اہل دانش کوکیا پیغام دیا جارہاہے ۔ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے ،یعنی ہم لڑکیوں کا حصہ لڑکوں سے پہلے ہی طے کر چکے ہیں اوراب یہ اعلان کرتے ہیں کہ جتنادولڑکیوں کوملتا ہے ،لڑکے کی ذمہ داری کو سامنے رکھتے ہوئے اتنا حصہ اسے دے دیا جائے ۔کیا یہ تعبیر حق میراث میں صنف نازک کو مردوں پر فوقیت اورتقدم سے بہرہ ور نہیں کرتی…؟

……………

یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام بلا ضرورت گھر سے خواتین کے نکلنے کو پسند نہیں کرتا ،ضرورت کے موقع پر اسلام نے خواتین کو نکلنے کی اجازت دی ہے اور اس ضرورت کا دائرہ کافی وسیع ہے ،اگر کسی عورت کو روزی کمانے ،محنت مزدوری کرنے یا کسی اور ضرورت مثلاً علاج معالجہ وغیرہ کے لئے گھر کی چار دیواری سے نکلنے کی ضرورت ہوتو اسلام اس کی اجازت دیتا ہے ،البتہ اس میں یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ باپردہ ہو کر نکلے، زیب وزینت اور بناؤ سنگھار کے اس موقع پر غیر ضروری اظہار سے پر ہیز کرے کیونکہ اس طرح وہ کسی فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہے گی۔

اسلامی معاشرہ میں عورت کوئی عضو معطل نہیں ہے بلکہ معاشرہ کی تشکیل وتعمیر میں عورت کابہت بڑا حصہ ہے ،جب عہد نبوی اورعہد صحابہ رضی اللہ عنہم کامطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات اورصحابیات نے اسلام کی ترویج واشاعت کے لئے کیا گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہانے غزوہ خندق میں انتہائی بہادری اور پھرتی سے ایک یہودی کو ٹھکانے لگایا۔

غزوہ حنین میں حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کس ولولہ سے خنجرلے کر نکلیں اور مجاہدانہ بہادری کا مظاہر ہ کیا ۔

حضر ت ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے غزوہ احد میں جس جانثاری کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ سے معمولی مناسبت رکھنے والوں سے بھی مخفی نہیں ۔

حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جنگ یرموک کے دوران حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ،حضرت ام ابانؓ،حضرت خولہ ؓ اور حضرت جویریہ رضی اللہ عنہن نے جوداد شجاعت حاصل کی، وہ تاریخ اسلام میں مسلمان خواتین کے درخشاں باب کا ایک تابناک حصہ ہے ۔


علمی کارناموںمیں بھی صحابیات کا بڑا نمایا ں کردار رہا،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے ’’۲۲۱۰‘‘اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے    ’’ ۳۷۸‘‘ احادیث مروی ہیں ،علاوہ ازیں حضرت عائشہ ،حضرت حفصہ حضرت ام سلمہ اور ام ورقہ نے پورا قرآن مجید حفظ کیا، خوابوں کی تعبیر میں حضرت اسماء بنت عمیس ؓ کا خاص شہرہ تھا،خطابات میں حضرت اسماء بنت سکن مشہور تھیں،طب اور جراحی میں حضرت رفیدہ اور ام عطیہ کو مہارت تھی۔

اسی طرح حضرت فاطمہ بنت خطاب کی تبلیغ پرحضرت عمر فاروق ؓ نے اسلام قبول کیا،حضرت ام حکیمؓ کی ترغیب پر حضرت عکرمہ مسلمان ہوئے ،حضرت ام سلیمؓ کی دعوت پر حضرت ابو طلحہ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور ام شریک دوسیہ نے قریش کی عورتوں میں اشاعت اسلام کا مؤثر کا م کیا تھا۔

یہ ایک چھوٹا سا نمونہ ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ورنہ تاریخ اسلام اس قسم کی ان گنت مثالوں سے مالامال ہے ۔

………………

اسلام نے عورت کو زندگی گزارنے کے جو آداب دیئے ہیں ،ان آداب کواپنا کرعورت اپنی زندگی کو جنت کا گہوارہ بنا سکتی ہے ،اپنے آنگن میںرنگ بھرسکتی ہے اور خوشیوں اور شادمانیوں پراپنے گھر کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔

اسلام نے ایک عورت کو گھریلو زندگی خوشگوار اور کامیاب بنانے کے لئے کیا احکامات وآداب سکھائے ہیں؟اسلام ایک خاتون خانہ کو کیسادیکھنا چاہتا ہے ؟اسلام کی ترقی میں عورت کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟نیز ازدواجی زندگی میں اسلامی آداب کیا ہیں؟ ان تمام سوالوں کے جواب آپ کو زیرنظر کتا ب میںمل سکتے ہیں۔

کتاب کیاہے … علوم ومعارف کا خزینہ اور عبر وموعظت کا دفینہ ہے …اس میں ادب کی چاشنی بھی ہے اور علم کی گہرائی بھی…مسائل کا حل بھی ہے زندگی کے آداب بھی…ہر مسلمان عورت کو کم از کم ایک مرتبہ تواس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔

اس کتاب کی خاص بات اسلاف کی ان نصیحتوں کاذکر ہے جو انہوں نے اپنی بیٹیوںکو کی ہیں،اس اضافہ نے کتاب کے حسن کو چار چاند لگا دیئے ہیں اور اس کی افادیت دوگنی کردی ہے ۔ 

ہمارے عزیز اور محترم مولانا عبد النصیر علوی صاحب سلمہ الباری نے ان بکھرے ہوئے موتیوں کو یکجا کرکے دین اسلام کی ایک اہم خدمت سرانجام دی ہے ۔ طرز بیان اتنا عمدہ ہے کہ کسی موقع پر بوریت یا بیزارگی کااحساس نہیں ہوتا ۔آنجناب کی دوسری تصانیف کی طرح آپ کی یہ تخلیق بھی ایک ممتاز حیثیت کی حامل ہے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس کتاب کو اپنی بارگاہ عالیہ میں قبول فرمائے ،ہم سب کو اس سے استفادہ کرنے کی توفیق بخشے ،اس کے مؤلف ،ناشر اور جملہ معاونین کو خزانہ غیب سے انعامات کافیضان بخشے کہ انہوں نے امت کی بھلائی کا سامان پیدا کردیا۔

عبد ضعیف

Previous Post Next Post