نکاح کی خصوصیات اور فوائد
اور نکاح کے پانچ فوائد ہیں:
ا گھر کے نظام کی تدبیر خاندان کی افزائش
اور ان امورکی بجا آوری میں نفس کا مجاہدہ۔
نکاح کی خصوصیات اور فوائد
فائدہ1:
حصول اولاد اور یہی اصل مقصود ہے‘ نکاح سے مقصود بقائے نسل انسانی ہے جبکہ شہوت کو اس کا سبب بنا یا گیا ہے۔ حصول اولاد میں چار اعتبار سے قرب خداوندی کا حصول ہے ،کیونکہ شہوت کی برائیوں سے حفاظت کا ذریعہ نکاح ہی ہے۔ لوگوں کو اس کا علم ہو جائے تو کوئی بھی اللہ سے کنوارے پن کی حالت میں ملاقات کرنا پسند نہ کرے۔
پہلی وجہ… یہ سب سے باریک وجہ ہے جو کہ عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے، جبکہ اہل بصیرت کے ہاں سب سے قوی اور برحق ہے۔ ان اہل بصیرت کے ہاں جو اللہ کی صنعت اور حکمتوں میں غور کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ آقا جب اپنے غلام کوبیج اور کھیتی باڑی کے اوزار دے اور کھیتی باڑی کے لیے اسے زمین بھی تیار کر کے دے دے‘ اور بندہ یعنی اس کا غلام کاشت کاری بھی کر سکتا ہو اور پھر آقا بھی اسے یہ ذمہ داری دے دے‘ پھر اگر وہ کاہلی سے کام لے اور اوزاروں کو اور بیج کو بیکار اور ضائع کر دے اور آقا کے سامنے کوئی حیلہ بہانہ بنا کر پیش کر دے تو وہ غلام اپنے آقا کے عتاب اور ناراضگی کا لازماً مستحق ہو گا۔
اب دیکھئے! اللہ پاک نے زوجین کو پیدا کیا‘ مذکر اور مؤنث کو پیدا فرمایا‘ مرد کی ریڑھ کی ہڈی میں نطفہ بنایا اور عورت کے وجود میں نطفے کے مستقر کے طور پر جگہ بنائی اور رگیں اور نالیاں پیدا کیں اور مرد ‘ عورت دونوں پر اسباب شہوت کو مسلط کر دیا۔
یہ تمام امور اور افعال اہل عقل و خرد کو اس بات کی دعوت دے رہے ہیں کہ یہ سب کچھ مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
پھر دیکھئے خالق کائنات نے اس حقیقت کو اپنے رسول کی زبان سے بیان فرما دیا:
تناکحوا تکثروا…
’’نکاح کرو ‘ تمہاری تعداد بڑھے گی‘‘
(مصنف عبد الرزاق: ۱۳۹۱)
بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ صراحتاً حکم دیا ہو اور خفیہ طور پر مباح قرار
ولاد . شہوت کا ختم کرنا
دیا ہو؟ چنانچہ ہم یہ بات کہنے میںحق بجانب ہیں کہ جو آدمی نکاح نہ کرے وہ اللہ کی عطا کردہ کھیتی اور بیج کو ضائع کرنے والا اور اس مقصد کے لیے پیدا کردہ اعضاء کو تلف کرنے والا ہے اور فطرت خداوندی کا وہ مجرم ہے۔
چنانچہ اللہ کی پسندیدہ چیز کو مکمل کرنے والا نکاح ہے اور جس چیز کے ضیاع کو اللہ نے ناپسند کیا ہے‘ نکاح سے اعراض اسی کو ضائع کرنا ہے۔ چنانچہ جو کوئی نکاح نہ کرے تو وہ آدم ؑ سے لے کر اس کی اپنی ذات تک جو وجود کی بقاء ہے اسے ختم کرنے والا ہے اور وہ دم بریدہ ہو کر مرے گا…کہ اس کی کوئی اولاد نہ ہو گی۔
حضرت زکریا ؑ جو بوڑھے ہیں لیکن بشریت کے تقاضے کے مطابق ان میں اولاد کی چاہت پیدا ہو رہی ہے اور وہ تخلیق خداوندی میں دوام کو چاہ رہے ہیں‘ یہی وہ رغبت ہے جو عابد زاہد لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوتی ہے ‘جنہوں نے اپنے آپ کو عبادت خداوندی کے لیے وقف کر رکھا ہوتا ہے۔
{ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہُ قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِ} (سورہ آل عمران:۳۸)
’’زکریا نے وہیں اپنے رب سے دعا کی ،کہا :اے میرے رب!مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما،بے شک تو دعا سننے والا ہے‘‘
ان ہی کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
{رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ}
(سورہ الانبیاء: ۸۹)
’’اے میرے رب!مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے‘‘
یہی وہ فطرت خداوندی ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے اور اس میں نسل انسانی کے بقاء اور ارتقاء کی حکمت کو ملحوظ رکھا ہے۔
دوسری وجہ:…حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی کثرت کو پسند کریں گے اور دیگر امتوں پر فخر کریں گے۔
تیسری وجہ… صاحب اولاد کے فوت ہو جانے کے بعد اس کی صالح اولاد اس کے لیے دعا کرے گی۔
حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ینقطع عمل ابن آدم الا من ثلاث :من ولد صالح یدعو لہ،او صدقۃ جاریۃ من بعدہ،او علم ینتفع بہ
’’تین صورتوں کے علاوہ ہر اعتبار سے انسان کا عمل منقطع ہو جاتا ہے‘ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے‘ یا اس کے بعد جاری رہنے والا صدقہ یا ایسا علم وہ چھوڑ جائے کہ جس سے لوگ مستفید ہوں‘‘۔(صحیح الجامع الصغیر: ۷۹۳)
دین دار لوگوں کی اولاد کی اکثریت صالح ہوتی ہے۔ خصوصاً جب وہ اس کی اچھی تربیت کریں۔ خلاصہ یہ کہ مؤمن چاہے نیک ہو یا فاجر‘ والدین کے حق میں اس کی دعا فائدہ مند ہے‘ اسے اس کی دعاؤں اور نیکیوں پر اجر ملے گا کیونکہ یہ اس کا اپنا کسب ہے اور اس اولاد کے گناہوں پر باپ کی پکڑ نہ ہو گی‘ کیونکہ کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہ اٹھائے گا‘ اسی بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اَلْحَقْنَا بِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَمَا اَلَتْنَاھُمْ مِّنْ عَمَلِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ} (سورہ الطور: ۲۱)
’’یعنی ہم نے ان کے اعمال میں کوئی کمی نہ کی بلکہ ان پر مزید احسان کرتے ہوئے انہیں اولاد عطا کی۔‘‘
چوتھی وجہ … اگر باپ کی زندگی میں بچہ فوت ہو گیا تو وہ اس کے لیے شفیع بن جائے گا۔
حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
یا خذ بثوبہ کما انا آخذ بثوبک
’’بچہ اپنے باپ کے کپڑوں کو یوں پکڑے گا جیسے میں نے اس وقت تمہارے کپڑوں کو پکڑ رکھا ہے‘‘۔ (مسلم)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
یقال لھم:ادخلواالجنۃ ،فیقولون:حتی یدخل آباؤنا فیقال:ادخلواالجنۃ انتم وآباؤکم
’’ ان بچوں سے کہا جائے گا :جنت میں داخل ہو جاؤ‘ تو وہ کہیں گے:ہم جنت میں اس وقت تک داخل نہ ہوں گے جب تک ہمارے آباؤ اجداد داخل نہ ہوں‘ تو ان سے کہا جائے گا: تم اور تمہارے آباؤ اجداد سب داخل ہو جاؤ‘‘۔
(اخرجہ النسائی و اسنادہ جید)
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں اپنے تین بچے دفن کر چکی ہوں۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے آگ سے حفاظت کے طور پر بڑا زبردست احاطہ بنا لیا‘ اور فرمایا: جس کے تین نابالغ بچے فوت ہو جائیں تو اللہ ان پر اپنی رحمت کے ذریعے اسے بھی جنت میں داخل کرے گا۔ کسی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !… اور جس کے دو بچے فوت ہو چکے ہوں؟
توفرمایا:… دو کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔
(اخرجہ احمد و بخاری)
دوسرا فائدہ:
شیطان سے حفاظت‘ شہوت کی برائیوں کی روک تھام‘ نگاہوں کی حفاظت‘ شرمگاہ کی حفاظت۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں اسی کی طرف اشارہ ہے:
’’ جس نے نکاح کر لیا اس نے اپنے آدھے دین کی قلعہ بندی کر لی‘ چنانچہ دوسرے حصے میں اللہ سے ڈرے۔‘‘
(اتحاد المتقین ۵/۳۰۰‘ مجمع الزوائد ۴/۲۵۲)
اولاد فطری طور پر مقصود ہے اور شہوت حصول اولاد پر ابھارتی ہے۔
نکاح کو دین میں بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کے ذریعے شہوت کی خرابیاں دور ہوتی ہیں‘ کیونکہ جب شہوت غالب آ جائے اور اسے پورا کرنے کا جائز اہتمام نہ ہو تو فواحش کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔ وحی الٰہی کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی طرف یوں اشارہ فرمایا:
الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض و فساد کبیر
(ابن ماجہ ۱۹۶۷‘ مستدرک حاکم ۲/۱۶۵)
لیکن اگر شہوت کو تقوے کی لگام ڈال دی جائے تو اعضاء کو شہوت سے غلط فوائد حاصل کرنے سے روک دے گی‘ تقویٰ نگاہوں کی حفاظت اور شرمگاہ کی حفاظت کرے گا۔ باقی رہا دل کو وساوس سے محفوظ رکھنا تو یہ انسان کے بس کی بات نہیں‘ بلکہ نفس تو ایسے خیالات و افکار پیدا کرتا ہی رہتا ہے حتیٰ کہ نماز کے دوران بھی شیطان انسان کے دل میں مباشرت کے ایسے خیالات ڈالتا رہتا ہے کہ اگر انہیں کسی گھٹیا ذہنیت والے شخص کے سامنے بیان کر دیا جائے تو وہ بھی شرما جائے۔ جبکہ اس کے دل کے احوال کو اللہ خوب جانتا ہے۔ اللہ کے ہاں دل کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا مخلوق کے ہاں زبان کا معاملہ ہے۔ راہ آخرت میں ثواب کے طلبگار کے لیے امور کی بنیاد دل پر ہے۔
حضرت ابن عباسؓ کا ارشاد ہے :
’’عبادت گزار کی عبادت کی تکمیل نکاح کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔‘‘
جبکہ شہوت انسان کے خلاف شیطان کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے۔ اس کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں اشارہ کیا:
ما رایت من ناقصات عقل و دین اغلب لذوی الالباب منکن (اخرجہ مسلم)
’’تم سے زیادہ کم عقل اور کم دین کو میں نے عقل مندوں پر غالب نہیں دیکھا‘‘۔
اپنی دعا میں حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہم انی اعوذ بک من شر سمعی وبصری وقلبی وشر منیی (اخرجہ الترمذی۳۴۹۲،ابوداود۱۵۵۶)
’’اے اللہ! میں اپنی سماعت‘ بصارت‘ دل اور مادہ منویہ کے شر سے پناہ مانگتا ہوں‘‘۔
جس چیز سے حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگیں اس سے کوئی دوسرا کیوں غفلت برتے؟ تحقیقی بات یہ ہوئی کہ بیوی دل کی پاکیزگی کا سبب اور غذا ہے۔ اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ ہر وہ شخص جس کی کسی عورت پر نظر پڑے اور اس کا دل بہل جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی بیوی سے مباشرت کرے۔ (اخرجہ احمد و اسنادہ جید)
کیونکہ اس کے ذریعے دل سے خیالات ختم ہو جائیں گے۔
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک عورت پر پڑ گئی‘ فوراً حضرت زینبؓ کے ہاں تشریف لے گئے‘ اپنی حاجت پوری کی اور واپس تشریف لے آئے‘ اور فرمایا:ـ
ان المراۃ اذا اقبلت بصورۃ شیطان ،فاذا رآی احدکم امراۃ فاعجبتہ فلیأت اھلہ فان معھا مثل الذی معھا
’’ عورت جب شیطان کی صورت میں نظر آئے اور تم میں سے کوئی بھی اسے دیکھ لے اور وہ اسے اچھی لگے تو اپنی بیوی کے پاس جائے کیونکہ جو لذت اس عورت میں ہے یہی اس کی بیوی میں بھی ہے‘‘۔ (رواہ مسلم و الترمذی وقال حسن صحیح)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لا تدخلوا علی المغیبات،فان الشیطان یجری من احدکم مجری الدم
’’جن عورتوں کے خاوند گھر پر موجود نہ ہوں ان کے ہاں نہ جاؤ‘ کیونکہ شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے‘‘۔
صحابہ کہتے ہیں :ہم نے پوچھا‘ آپ کے وجود اقدس میں بھی؟
فرمایا: میرے وجود میں بھی یونہی تھا‘ لیکن اس کے خلاف اللہ نے میری مدد فرمائی اور میں اس کے شر سے محفوظ ہو گیا۔
(رواہ الترمذی و مسلم)
سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں :کہ معنی یہ ہے کہ میں اس سے محفوظ ہو گیا۔ کیونکہ شیطان اسلام نہیں لا سکتا۔
تیسرا فائدہ… :
بیوی کے ساتھ کھیل کود کرنے‘ اس کی صحبت میں بیٹھنے سے دل کو راحت ہو گی‘ اور عبادت میں قوت حاصل ہو گی۔ کیونکہ نفس آزردہ خاطر ہوتا ہے اور حق سے بھاگتا ہے ،کیونکہ حق اس کی طبیعت کے خلاف ہے۔ اگر اسے ہمیشگی کے ساتھ خلاف طبیعت پر مجبور کیا جائے تو وہ سرکش ہو جاتا ہے۔ ا ور جب اسے کبھی کبھار سکون پہنچایا جائے تو وہ مزید چست اور قوی ہو جاتا ہے۔ مناسب یہ ہے کہ متقی لوگوں کے لیے سامانِ راحتِ دل مباح چیزوں میں ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {لِیَسْکُنُوْااِلَیْھَا}
حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
’’لمحہ بھر کے لیے دلوں کو راحت پہنچاؤ ‘کیونکہ اگر انہیں مجبور کیا جاتا رہے تو یہ اندھے ہو جائیں گے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
’’ہربدکار بالآخر کمزور پڑ جاتا ہے اور جو برائی سے ڈھیلا پڑ کر میری سنت کو اپنائے تو وہ کامیاب ہے اور راہ یاب ہے‘‘۔
(رواہ احمد و الطبرانی و الترمذی وقال حسن صحیح)
چوتھا فائدہ…:
گھر کے کاموں سے دل کی فراغت‘ اور کھانے پینے‘ صفائی‘ جھاڑو‘ برتنوں کی دھلائی اور دیگر خانہ داری کی ذمہ داری کا اٹھ جانا‘ کیونکہ اگر انسان میں جماع کی شہوت نہ ہو گی تو تنہاء اس کے لیے گھر میں رہنا مشکل ہو گا ،کیونکہ اگر گھر کے تمام کاموں کی ذمہ داری اس پر ہو گی تو اس کے اکثر اوقات ضائع ہو جائیں گے۔ عملی اور علمی کاموں
کے لیے اسے وقت نہ ملے گا۔ گھر کی اصلاح کرنے والی‘ نیک صالح بیوی یوں دنیا کے معاملے میں اس کی معاون ہو گی۔لیکن اگر یہ ذرائع مختل ہو گئے تو دل کی تشویش بڑھے گی اور زندگی ویران ہو جائے گی۔ اسی وجہ سے ابو سلیمان دارانی فرماتے ہیں:
’’نیک بیوی کا تعلق دنیا سے نہیں ‘ کیونکہ یہ تجھ کو آخرت کے لیے فراغت مہیا کرتی ہے۔ کیونکہ وہ گھر کے کام کاج اور قضائے شہوت کی ذمہ داری خود اٹھا لیتی ہے‘‘۔
پانچواں فائدہ…:
نفس کا مجاہدہ اور ریاضت… وہ یوں کہ انسان اپنے اہل خانہ کے حقوق کی رعایت کرے گا ‘ ان کی نگہبانی کرے گا‘ ان کے اخلاق کو برداشت کرے گا‘ ان کی طرف سے تکالیف برداشت کرے گا‘ دین کے راستے میں ان کی اصلاح کی کوشش کرے گا‘ انہی کی خاطر حلال روزی کمائے گا‘ اولاد کی تربیت کرے گا‘ غرضیکہ یہ تمام کام بڑی فضیلت والے ہیں۔ کیونکہ ان میں رعایت بھی ہے اور ولایت بھی۔ اہل و عیال رعایا ہیں اور رعایا کی فضیلت بہت ہے۔ جو شخص اپنی بھی اصلاح کرے اور غیر کی بھی تو وہ اس کی طرح نہیں جو کہ صرف اپنی ہی اصلاح کرے اور جو مصیبت جھیلے وہ اس شخص کی طرح نہیں جو دل کو راحت ہی صرف پہنچائے۔ اہل و عیال کی مصیبتوں کو جھیلنا جہاد فی سبیل اللہ کے مرتبے میں ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ما انفقہ الرجل علی اھلہ فھو صدقۃ،وان الرجل لیؤجر فی اللقمۃ یرفعھا الی امراتہ
’’ جو مال آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے وہ صدقہ ہے اور اس آدمی کو اس لقمے پر بھی اجر ملے گا جو وہ اپنی بیوی کو کھلائے ‘‘
(متفق علیہ)
ابن مبارکؒ اپنے بھائیوں کے ہمراہ ایک جہاد میں شریک تھے کہنے لگے:
جس کام میں ہم مشغول ہیں کیا تمہیں اس سے بڑھیا کوئی کام معلوم ہے؟ساتھی کہنے لگے: نہیں‘ فرمایا: میں جانتا ہوں۔ انہوں نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ فرمایا‘ پاکباز شخص‘ صاحب اولاد‘ رات کو اٹھے‘ اپنے بچوں کو سوتے ہوئے دیکھے‘ ان پر سے بستر اٹھا ہو تو ان پر کپڑا ڈال دے‘ اس کا یہ عمل ہمارے اس عمل یعنی جہاد سے افضل ہے۔