قرآن کی سورت …خواتین کے نام سے موسوم: Quran Ki Surateen Khawateen Ki Naam Se Mosoom

 قرآن کی سورت …خواتین کے نام سے موسوم:

عورتوں کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہوگا کہ قرآن کریم میں اللہ پاک نے ایک مکمل سورت کا نام عورتوں کے نام سے موسوم کیا ہے۔ جبکہ قرآن کریم میں سورۃ الرجال کے نام سے کوئی بھی سورت موسوم نہیں۔ اس سورت مبارکہ میں خواتین سے متعلق اہم امور کا تذکرہ ہے۔ ذیل میں چند امور کا ذکر کیا جاتا ہے کہ جن کا تعلق خواتین کے ساتھ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام نے صنف نازک کو کس قدر اہمیت دی ہے۔

عورت کی تخلیق مرد کی پسلی سے ہے:

اللہ پاک نے عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا ہے۔ اور پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا فرما کر اس کائنات میں پھیلا دیے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً} (النساء : ۱)

’’اے لوگو اپنے رب سے ڈروجس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں‘‘

عورت کی تخلیق چونکہ پسلی سے ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ نرمی والا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’عورت کی پیدائش ٹیڑھی پسلی ہے۔ اسے اگر حد سے زیادہ موڑ اجائے گا تو یہ ٹوٹ جائے گی‘‘۔

یتیم عورتوں کے حقوق کی حفاظت کا حکم:

اسی سورۃ مبارکہ کے اندر اللہ پاک نے یتیم خواتین کے حقوق کی خصوصی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلَّا تَعُوْلُوْا} (النساء : ۳)

’’اگرتم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں  تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو ‘تین تین‘چارچار‘ سے نکاح کرلو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرویا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہ ہی سہی یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لئے زیادہ قریب ہے ‘‘

اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اہل عرب یتیموں کے حقوق کی بالعموم اور خواتین یتیموں کے حقوق کی بالخصوص حفاظت کا لحاظ نہ رکھتے تھے۔ اسلام نے دونوں کے حقوق کی حفاظت کا بالعموم اور خواتین یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا بالخصوص حکم دیا ہے۔ 

حضرت عروہ بن زبیر ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے اس ارشاد باری تعالیٰ کے متعلق پوچھا:

{وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی }

تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:

’’بھتیجے! یہ یتیم لڑکی اپنے ولی کی کفالت میں ہوگی۔ اس کے مال میں شریک‘ ولی کو اس کا مال اور جمال پسند آئے‘ اور وہ اس سے اس کا مہر انصاف سے ادا کئے بغیر نکاح کرنا چاہے تو اس سے روکا گیا ہے کہ اگر نکاح کرنا چاہیں تو انصاف کے ساتھ اور انہیں اعلی مہر عطا کریں نہ کہ دیگر عورتوں جیسا مہر‘‘۔

اگر انصاف نہ کرسکے تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے:

یہ بات بجا ہے کہ اسلام نے مرد کو چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے‘ جبکہ عورت کو فی الوقت ایک ہی شادی کرنے کی اجازت ہے۔مغرب زدہ طبقہ اسے ناانصافی سے تعبیر کرتا ہے اور مرد کو بھی صرف ایک ہی شادی کی اجازت دینے کا خواہاں ہے۔

علمائے مسلمین نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ایک سے زائد خواتین سے شادی کرنا جہاں مردوں کے حق میں مصلحت خدا وندی ہے‘ وہیں مردوں سے پہلے عورتوں کے حق میں مصلحت ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ بعض ناواقف لوگ یہ خیال کر بیٹھتے ہیں کہ اسلام نے چار شادیوں کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ بات یہ نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ اسی لیے تو فرمایا کہ اگر تمہیں خطرہ ہو کہ تم انصاف نہ کرپاؤ گے تو صرف ایک ہی عورت پر اکتفا کرو۔

دیکھئے! اسلام نے عورت کے حقوق کا کس قدر خیال رکھاہے۔ کسی بھی  جگہ اس کی حق تلفی نہ ہونے دی۔ جہاں حق تلفی کا خدشہ تھا‘ وہاں فوراً روک تھام کردی۔

Previous Post Next Post