شادی تکوینی سنت ہے:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَھُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّۃً۔ (سورہ الرعد:۳۸)
’’البتہ ہم نے آپ سے پہلے کئی رسول بھیجے اور ہم نے انہیں بیویاں اور اولاد بھی دی تھی‘‘
جب انسان لڑکپن سے رجولت میں قدم رکھتا ہے اور دل میں شادی کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اگر اس کے پاس اپنا اور اپنی بیوی کا خرچہ برداشت کرنے کی گنجائش ہو تو اسے جلدی شادی کرنی چاہیے۔ اسی بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’نوجوانو! جو تم میں سے شادی کی استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کر لے ‘کیونکہ یہ نگاہ اور شرمگاہ کی محافظ ہے … اور جو نکاح کی استطاعت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے۔‘‘
(بخاری: ۷/۳‘ مسلم ۱/۲‘ نسائی ۴/۱۶۹‘ مسند احمد ‘/۳۸۷‘۴۲۴)
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ اپنے اندر عورت کی طرف جنسی میلان انگڑائی لیتا محسوس کریں تو جلد شادی کر لیں‘ اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس اس قدر مالی استطاعت بھی ہو کہ وہ بیوی کا نان نفقہ برداشت کر سکیں۔
یہ معزز آدمی اور محترم معاشرے کی امتیازی خصوصیت ہے۔ مغربی تہذیب نے جو ہمیں شخصی آزادی کی نعمت عطا کی ہے وہ مرد کو اجازت دیتی ہے کہ وہ مالی قدرت کے باوجود بغیر شادی کے رہے۔ اور جنسی تسکین کے لیے جو کچھ اسے باسہولت میسر آئے اسی پر اکتفا کرے۔ یہ ایک قسم کی جنسی احتیاجی ہے‘ مال و متاع کی بنا پر کچھ نوجوان اس کا رخ کرتے ہیں اور ان کا مقصد ازدواجی ذمہ داریوں سے بھاگنا اور کھانے پینے اور لباس کے Status کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ جب بال بچے ہو جائیں تو وہ ان کی قربانی دیں۔
اگر اس گھٹیا سوچ کے بار ے میں ہم دینی حکم سے قطع نظر کریں اور عقل اورمعا شر تی فطرت سے فیصلہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ یہ انانیت‘ مادی اعزاز اور روحانی آئیڈیالوجی کے خاتمے کی وجہ سے ہے۔ اگر معاشرہ ہی اپنے افراد کو اس بات کی اجازت دے دے کہ مادی خواہشات مقدس فضائل سے بہتر ہیں اور مال اور اس سے متعلقہ بدنی خواہشات عظمت و شرافت‘ عفت و عصمت سے بالاتر ہیں تو پھر اس معاشرے سے کس بھلائی کی توقع ممکن ہے؟
اس معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے خیر خواہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ جبکہ ان میں سے ہر ایک نے اپنی انانیت کو اپنا خدا و معبود بنا رکھا ہو۔
بھلا وہ اپنے وطن کے لیے کیسے مفید ہو سکتے ہیں جبکہ عیاشی اور خواہشات نفسانیہ نے انہیں کمزور کر دیا ہو؟ اور اس کمزوری نے انہیں دنیاوی زندگی کی عبادت کے سپرد کر دیا ہو۔ ان کے وطن کے لیے بھلائی کی امید اس وقت کیسے کی جا سکتی ہے کہ جب طاقتور دشمن ان پر دھاوا بولے تو وہ پہلے ہی صدمے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں‘ پہلے ہی حملے میں قوم پسپا ہو جائے اور دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔
معلوم نہیں؟ کہ دوسری عالمی جنگ میں فرانس نے جرمنی کے آگے گھٹنے کیوں ٹیک دیئے؟ خواہشات نفسانیہ کی وجہ سے یا شخصی آزادی کی وجہ سے؟ حتی کہ پیٹن کو کہنا پڑا:
’’ اپنی غلطیوں کو تولو‘ وہ ترازو میں بہت وزنی ہوں گی‘ تم اولاد کے خواہش مند نہ تھے‘ خاندانی نظام کو تم نے چھوڑا‘ عزت و شرافت اور عام روحانی اقدار کو خیرآباد کہا‘ اور شہوات کے پیچھے یوں چل پڑے کہ ہر جگہ انہیں کا سراغ تلاش کرنے لگے‘ ارے اب دیکھو! کہ یہ خواہشات تمہیں کہاں دھکیل لائی ہیں…!‘‘
آپ دیکھتی ہیں کہ معاشرتی فطرت اسی اسلام کے حکم کے تحت ہے جو شادی کا حکم دیتا اور فضائل کو پسند کرتا ہے اور لوگوں میں فواحش کے پھیلاؤ کو ناپسند کرتا ہے۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ یہ گھٹیا کلچر ہماری نسلوں میں جڑ پکڑ رہا ہے حتی کہ آپ دیکھیں گی کہ اکثر لوگوں کی عمریں کنوارے پن کی حالت ہی میں ۴۰ اور ۵۰ سے تجاوز کر رہی ہیں۔ ان کے نفس میں کسی قسم کی حیا نہیں کہ جو اسے لوگوں کے سامنے اس کی پرائیویٹ زندگی کی گندیوں کی وجہ سے شرمندہ کرے… مزید افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ لوگوں کا رویہ بھی اظہار ملامت کا باعث نہیں بنتا بلکہ وہ اس کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کیے رکھتے ہیں جو کسی شریف آدمی کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ یہ سب اس تبدیلی کا مظہر ہیں جسے ہم شدید رنج و الم میں دیکھ رہے ہیں۔
اسی وجہ سے ہم علامہ ابن حزم کو دیکھتے ہیں کہ وہ صاحب استطاعت مسلمان پر شادی کو فرض قرار دیتے ہیں۔ بایں طور کہ جو اسے ترک کرے یا تغافل برتے تو وہ ایسا ہی گناہگار ہے جیسے اس نے فرائض اسلام میں سے کسی فرض کو ترک کیا ہے۔ ائمہ اور علماء کا ایک بڑا گروہ شادی کو واجب کہتا ہے۔
اسی بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’لاصرورۃ فی الاسلام‘‘
(ابو داؤد: ۱۷۲۹‘ مسند احمد ۱/۳۱۲)
صرورۃ سے مراد وہ شخص ہے جو شادی یا حج نہ کرے اور پیسہ جمع کیے رکھے اور اسے باہر نہ نکالے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’ جو آدمی مالدار ہو اور شادی کر سکتا ہو لیکن نہ کرے تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ (الترغیب و الترہیب: ۳/۴۳)
باقی جو آدمی صاحب استطاعت نہ ہو تو حضورؐ کے ارشاد کے مطابق وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ اس کی طبیعت کی گرمی اور ہیجان کو روک دے گا۔