کومل جذبوں کا شاعر.........ڈاکٹرداؤدمحسنؔ
غلام ربانی فداؔ
غلام ربانی فداؔ
مدیرجہان نعت ہیرور
ڈاکٹرداؤدمحسن سے میری پہلی بات و ملاقات 7 اکٹوبر2010 کو ہوئی۔جب میں جہان نعت کے رسم اجرا کے موقعے پر ڈاکٹرداؤدمحسن صاحب کو فون کیااوردرخواست کی کہ جہان نعت کے رسم اجرا کے تقریب میں شرکت فرمائیں۔جہان نعت کاآغاز جہاں میرے دنیا ودینکی سعادتیں لایاوہیں ڈاکٹرداؤدمحسن صاحب شرف ملاقات بھی بخشا۔ڈاکٹرداؤدمحسن نے میری خدمت نعت کو بہت سراہا ۔اس محفل میں شرکت کاقرض میرے ذمہ باقی رہا مجھ سا اہل قلم ان کا قرض کس طرح ادا کرتا۔یہ چند سطریں شاید اس بار کو ہلکا کرسکیں۔
آگ کو گلزار بنانے والے، کلاسیکل انداز کے ساتھ زبان و فن پرگرفت رکھنے والےڈاکٹرداؤدمحسنجو اس کوہ طور تک پہنچتے پہنچتے نجانے کتنے دیوں سے لڑے ہوں گے،کتنے ہی سایوں کا مقابلہ کیا ہوگا،جھپٹتی بجلیوں کو جُل دیا ہوگا،ان کے سفر کی صعوبتیں ، آہٹوں اور صداؤں کے منظر دکھاتی ہیں۔۔۔
ہے حادثات کا موحول دہر میں محسن
عجیب دور ہے تو زندگی تلاش نہ کر
اپنی اپنی فطرت کے مطابق ہر انسان ایک رائے ایک نظریئے کا حامل ہوتا ہے ماضی، حال و مسقبل انہیں نظریات کے تحت ترتیب پاتے ہیں،تمناؤں کے بدن تشکیل ہوتے ہیں،ہواؤں میں لکھی تحریروں کا وجود بنتا ہے،بدلتی رتوں کے تجربے سبق سکھاتے ہیں،قدموں کے نشاں پیکر خاکی میں ڈھلتے ہیں،جرأت و عزم کی صدائیں سنی جاتی ہیں،سرابوں میں الجھتی آنکھوں کو بینائیاں ملتی ہیں تو یہ موجِ آب کھلکھلا کے تنبیہہ کرتی ہے کہ۔۔۔
خود کو امید کی نگری میں اٹھا لے جاؤ
نیند کے کوچےسے کچھ خواب چرالے جاؤ
کیا گرانی اور ارزانی کی ہم باتیں کریں
پانی مہنگا ہے یہاں اور خون سستے دام ہے
زر کے الاؤ میں یوں وفائیں جل اٹھیں
اب وفا کے پیکر نے اپنا چہرہ کھویاہے
جلتے سورج کی تمازت جہاں بادل جیسی تھی ،جن کھیتوں کا سبز ہ روح میں ٹھنڈک بھرتاتھا، جس گلاب مٹی پہ بسنے والے پیار کے پیکرموجود تھے وہاں سے دوراُس نگرمیں ہجرت کرنا ، جہاں جذبوںکی گرمجوشی برف وادی کی طرح منجمد ہوجاتی ہے تو یادوں میں ڈوبا دل، بول پڑتا ہے۔۔۔
ہمت ہماری دیکھو منزل کی جستجو میں
بچھڑے ہیں قافلے سے تنہا ہی چل رہے ہیں
ہیں اور بھی فصیلیں پیش نظر ہماری
فی الحال کشمکش سے اب ہم نکل رہے ہیں
زخمِ دل، داغِ جگر،داغِ تمنا کی قسم
چاند سے پھول سے ڈر ہم کو یہاں ہوتا ہے
رنج وغم چھا گئے مجھ پر میرا سایہ بن کر
جی رہا ہوں میں یہاں خود سے رایا بن کر
اپنی تہذیب وثقافت، معاشرت، بود وباش، اردو زبان کی محبت میں عشق کے مقام پر پہنچے ہوئے ڈاکٹرداؤدمحسن شبنمی یادوں کی پھوار میں جاگتی آنکھوں کے خوابوں کی تعبیریں لکھتے رہتے ہیںتاکہ رکنے والی سانسوں کو تازہ ہوا میسر آجائے۔۔۔
ہر ایک خطا معاف ہوئی زندگی ہنسی
میں ڈگمگا کے زیست میں آخر سنبھل گیا
درد اے بھاری قلب و جگر ہیں
کتنے موذی پیش نظر ہیں
ابنِ آدم نے جب اپنے تجربوں کو دوسروں تک پہنچانا چاہا تو کوزے میں دریا کو بند کرنے کے لئے محاوراتی زبان نے بھی جنم لیا ،تاریخ کے حوالے بھی قائم ہوئے،تشبیہات و استعاروں نے بول چال کو نیا رنگ بھی دیا ،تاکہ آپ کی بات بھی پہنچے اور منظر بھی جاگے، ملاحظہ کیجئے ڈاکٹرداؤدمحسن کے مناظر کہاوتوں کے روپ میں۔۔۔
بھوک بچھائے پیاس کو اوڑھے
سویاہوا ہے آج کا انساں
دامن خطا و جرم سے بھرنے لھے ہیں لوگ
پھر وعدۂ ازل سے مکرنے لگے ہیں لوگ
اپنے ہی اعمال پر پچھتا کے اب
رو رہا ہے رو رہا ہے آدمی
پھول بننے سے پہلے مرجھائیں
کتنی کلیاں غریب خانے کی
رشتے ناطے کاغذ پر ہیں
ساری قدریں رخت سفر ہیں
میں ڈاکٹرداؤدمحسن کی بابت کیا لکھوں جن کے پاس ایک سونے کا دل ہے ،جو اس دشت میں فرات جیسے ہیں، جن کے اصول اک نکتۂ ذات نہیں بلکہ آسمان کی وسعت جیسے ہیں،یہ اپنے مفاد کے لیئے چہرے نہیں بدل سکتے جو آج کے دور میں ایک چھوت کی بیماری کی طرح سب کو لاحق ہے، یہ تو وہ دور ہے جہاں دل کی آواز دبادی دی جاتی ہے، ضمیر کی کونپل سر اٹھاتے ہی کچل دی جاتی ہے، جہاں رکھ رکھاؤکو ملحوظِ خاطر رکھنا، مہذب ہونا اور شائستگی کو چھونا ممنوع نظر آتا ہے، معمولی باتوں کو نظر انداز کرنے کا ظرف کب کا ٹوٹ چکا،معصومیت اور بھولپن کو عیاری اور مکاری کا روپ دے دیا گیا ہے اور ہم سے نادان ارمانوںکے ریشم میں الجھے بدگمانیوں کی گتھیاں سلجھاتے رہ جاتے ہیں۔۔۔
ہم اوروں کی طرح ہر بات پر برہم نہیں ہوتے
اے محسنؔ راحتِ جاں ہے سدا سنجیدگی اپنی
چلے آؤ تمہاری راہ میں اب
مری پلکیں بچھانا چاہتا ہوں
ڈاکٹرداؤدمحسن جو مظلوموں اور محکوموں کی زباں ہیں تو حاکموں کی ترنگ اور حکمرانی کو بھی زیرِ غور لاتے ہیں ، جو اندھے سفر پہ جانے والوں کی پرواز وں کے انجام پر کڑھتے ہیں،نہ ان کو چالاکی آتی ہے نہ یہ کشکول لے کر کسی در پہ جا سکتے ہیں،کتابوں میں کالموں میں بہت بڑے بڑے بلند وبانگ دعوے کر کے منہ چھپانے والوں کی قطار میں شامل نہیں ہوسکتے، حق پرستوں کو کوئی خوف و ڈر نہیں ہوتا، ان کے آنگن میں چاندنی بھی پوری آب و تاب سے اترتی ہے تو سورج بھی شدت سے نکلتا ہے ،یہ تو نانصافی کو مٹانے کی فکروں میں مبتلا، تدبیریں سوچتے ہیں۔۔۔
ہر طرف درد کا، آہوں کا سماں ہوتاہے
پانی جلتاہے سمندر میں دھواں ہوتاہے
شمعِ خلوص ومشعلِ الفت کی خیر ہو
نفرت کی آندھیوں سے گزرنے لگے ہیں لوگ
پنچھی سارے جائیں کہاں اب
پیڑوں پر بموں کے ثمر ہیں
سہما ہے آدمان زمیں بھی اداس ہے
ہر گاؤں اور شہر میں خوف و ہراس ہے
فصل گل کی باتیں کرنے والے ڈاکٹرداؤدمحسن جو اپنے آنگن میں کھلے گلاب کی سادہ سی خوشبو کو ہی من پسند قرار دیتے ہیں ۔۔۔ کوئی رقیب نہ پیدا ہو دیکھ کر اس کو مجھے پسند ہے سادہ سا دلربا کا لبا س ڈاکٹرداؤدمحسن جو موسموں کو پیرہن پہناسکتے ہیں، انسانی رویوں کی تشخیص کرسکتے ہیں۔۔۔
میں خشک پھول ہوں مجھ میں نمی تلاش نہ کر
خزاں کی زد میں ہوں بالیدگی تلاش نہ کر
ڈاکٹرداؤدمحسن جو کبھی خوش خرامی کرتےہوئے خوابوں کے تراشیدہ صنم خانے میں پہنچیں توپتلی کا تماشا بھی زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتے،خواب کا الجھا ہوا آنچل بھی ان کے نرم سبھاؤ کو گوارا نہیں،پھولوں کو لیئے کانٹوں کی رہگزر میں منتظر ڈاکٹرداؤدمحسن منظر کی دلکشی میں گم تو ہوتے ہیں لیکن درد کا درماں ہونا، ڈوبے کا سہارا بن جانا ہی ان کی منزل ہے۔
چراغ یاد کے سب جھلملانے لگتے ہیں
شب وصال کی ہر بات یادآتی ہے
داستان عشق کی میری بھی لکھی جاتی اگر
چاہتے آپ مجھے چاہنے والوں کی طرح
میں چاہتاہوں تمہیں اپنی زندگی کی طرح
مرے وجود پہ چھا جاؤ چاندنی کی طرح
اشکوں کے آبگینے دیئے تو نے اے ندیم
ہے یہ ترا کرم جو بھلا نہ جائے گا۔
اس قدر ہنر مندی سے یہ شعر کہا گیا ہے کہ کہنے والے کے جوہری ہونے کا کوئی شبہ باقی نہیں رہتا، ایسا جوہری جس کے ہاتھ لگی ہوئی سونے کی کان سنہرے جڑاؤ زیورات کے لئے مواد اگلتی رہتی ہے، وہ حمد ہو یا نعت ،غزل ہو یا نظم،گیت ہو یا دوہا، قطعات ہوں یا رباعیات، کہہ مکرنیاں ہوں یا تکونیاں جدھر دیکھئے نوادرات کا ڈھیر جھلمل جھمل کر رہا ہے،اپنے تجربے اپنے مشاہدے بیش بہا الفاظ کی مالا میں پروکرخوبصورتی سے پیش کرنے والے ’ڈاکٹرداؤدمحسن‘ کی مادری زبان اردو نہیں لیکن اردو کی محبت میں سرشار اس زبان کے فروغ کے لیئے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں،ڈاکٹرداؤدمحسن کے نظریات پر اردو کی محبت کا رنگ خوب جما ہوا ہے۔۔۔