سلمان ندوی صاحب کے بعد سمیع اللہ خان کی امام کعبہ کو للکار.ااس سنیوں کا کام بھی دیوبندی حضرات ہی انجام دے رہے ہین.
#سرخیل_علمائے_سُو_عبدالرحمن_السدیس
" الڪعبة قبلتنا و ليست السعودية ولا العلماء السوء "
اب وقت آگیاہے کہ عالم اسلام تحفظ حرمین شریفین کے لیے ایک جان ایک زبان ہوجائے،
ایک طرف جری و بے باک علماء عرب کال کوٹھڑیوں میں ڈالے جارہےہیں دوسری طرف رابطہ عالم اسلامی کے نام پر آل سعود کو تقدس فراہم کرنے کی مذموم حرکتیں ہورہی ہیں، سعودیہ کے شاہی مہمان بناکر دنیا بھر سے علما کا ان کی قومی نمائندگی پر استحصال ہورہاہے، اور اس درمیان دنیا کی سب سے مقدس اور پاکیزہ ترین جگہ کا درباری ملاؤں سے استحصال کروایا جارہا ہے، جس کے سرخیل نام نہاد ضمیر فروش عبدالرحمن السدیس ہیں، کل تک عبدالرحمن السدیس کے لیے ہمارے دلوں میں احترام کا آخری درجہ تھا لیکن کل کعبۃ الله میں منبر رسولﷺ سے عالم اسلام کے بدترین قاتل مجرم سعودیہ کے ولی عہد محمد بن سلمان کے متعلق نبویﷺ ارشادات ادا کرکے انہوں نے پوری ملت کو شرمندہ و شرمسار کردیاہے، عبدالرحمن السدیس اتنے بے غیرت، اتنے بے شرم نکلے کہ انہوں نے خانۂ کعبہ کا لحاظ نہیں کیا، انہوں نے منبر رسولﷺ کا پاس نہیں رکھا، خدا کی قسم تاریخ اسلامی کا یہ سیاہ ترین دن رہے گا، ایک امام حرم، خانۂ کعبہ سے پہلے تو جھوٹ بولتاہے کہ صحافی جمال خشوگی کو سعودیہ نے نہیں مارا کچھ لوگ مملکت کو بدنام کرنے کی سازش کررہےہیں، لیکن سدیس کا یہ سفید جھوٹ پوری دنیا کے سامنے آگیا کیونکہ سعودیہ نے بالآخر اعتراف جرم کرلیاہے! اس کے بعد یہ بے غیرت درباری عالم یہیں پر نہیں رکا، اس نے کمال چاپلوسی اور تاریخ کی گھٹیا ترین بے ضمیری کا ثبوت دیتے ہوئے عالم اسلام کو توڑنے والے اور بے شمار علماء و صلحاء کے قاتل، معتدل اسلام کے نام پر فقہ اسلامی اور تعلیمات قرآنی میں تطہیر کا ناپاک عزم رکھنے والے، سرزمین مقدس کو پہلی بار کھلے عام فحاشی کے لیے آزاد کرنے والے سعودی حکمران محمد بن سلمان کو ۔ نعوذ بالله، ثم نعوذ بالله ۔ سیدنا عمر فاروق اعظم ؓ سے تشبیہ دے دی، وہ الفاظ جو دربار نبوتﷺ سے حضرت فاروق اعظم ؓ کو عطا ہوئے تھے اس درباری مولوی عبدالرحمن السدیس نے وہی الفاظ مغرور و ظالم محمد بن سلمان کے لیے کہتے ہوئے محمد بن سلمان کو صاحب القاء و الہام قرار دے دیا، یہ شانِ نبوت، شانِ فاروقی میں کھلی ہوئی گستاخی ہے، یہ حدیث نبویﷺ میں کھلی تحریف و تلبیس ہے، اور اس منحوس جرم کے لیے خانۂ کعبہ کا استعمال، نعوذ بالله! اور مجرم کوئی اور نہیں امامِ حرم !!! میری نظر میں یہ دن اور حجر اسود کو ٹکڑے کرنے کا دن، دونوں برابر ہیں، یہ دن اور کعبۃ الله پر بمباری کا دن دونوں برابر ہیں، کوئی فرق نہیں، بلکہ اس دن کی سنگینی اٌن تمام ایام سے کئی گنا زیادہ اور حساس ہے، کیونکہ یہاں پوری دنیا کے مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لیے، جھوٹ بولنے کے لیے، دشمنان اسلام کو بچانے اور صاف ستھرا رکھنے کے لیے حرمین شریفین کا استحصال ہورہاہے، اور جھوٹ و تلبیس کو منبر رسولﷺ سے عام کیا جارہاہے! عبدالرحمن السدیس کی درباری چاپلوسی تبھی سامنے آگئی تھی جب اس نے " اخوان " کے خلاف منبر رسولﷺ کو استعمال کیا، پھر ملعون و مردود سیسی کے لیے استعمال کیا، اس کے بعد انتہائی بے شرمی سے " ڈونالڈ ٹرمپ " کو اور " امریکہ " کو دنیا کی امن و سلامتی کا ضامن قرار دیا، اور ان کے لیے دعائیں کیں، ظاہر ہے ایسے بے شرم اور بے غیرت درباری ملّا کا انجام یہی ہونا تھا، بے غیرتی نے اس سے نبوت و رسالت کی حساسیت کو چھین لیا اور اسی بے حسی نے عبدالرحمن السدیس سے منبر رسولﷺ کی توہین کروائی، کلمات نبویﷺ اور شان صحابی ؓ کی توہین کروائی، یوں عبدالرحمن سدیس رہتی دنیا کے لیے سرخیل علماء سو قرار پایا، اس انتہائی درجہ کی ذلت کے بعد عبدالرحمن السدیس ملت اسلامیہ میں کسی بھی توقیر و احترام کے مستحق نہیں رہےہیں، ان کی گندگی پر عالم اسلام اور تاریخ اسلام ہمیشہ تھوکتے رہے گی، دوسری طرف یہ بھی واضح اور صاف ہوچکاہے کہ انسان. بظاہر کتنا ہی بلند مقام ہو، کیسی ہی سریلی اور مسحور کن تلاوت کرتا ہو، جبہ و داڑھی اور ڈیلکس نورانیت سے معمور چہرہ رکھتا ہو اور اتنا ہی نہیں اس کے بعد وہ پوری دنیا کے سب سے مقدس مقام پر پیشوا ہوجائے لیکن انسان بہرحال انسان ہی ہوگا وہ مقام نبوت اور ملائک پر نہیں پہنچ سکتا، یہ وہی دور ہے جس میں فتنوں کے مراکز اور اصل اسلام پر آرے چلانے والے اہل جبہ و دستار ہوں گے، عبدالرحمن السدیس کی ذلت انگیز حقیقت کا سامنے آنا بھولے بھالے مؤمنین اور ظاہر پرست عقیدت مندوں کے لیے پوری دنیا میں تازیانہ عبرت ہے، ضروری ہیکہ شخصیات، مقامات اور بیک گراؤنڈ کی بجائے ملت اسلامیہ قرآن و سنت اور اجماع صحابہ کو اپنا رہبر بنائے، لازم ہیکہ امت بیدار ہوجائے اور قابض درباری امام حرم عبدالرحمن السدیس کو مسترد کرکے دوٹوک پیغام دے دے کہ
" الڪعبة قبلتنا و ليست السعودية و لا العلماء السوء "
آلِ سعود نے ملت اسلامیہ کے مقامات مقدسہ کو سبوتاژ کرنے کی جو سازش رچی ہے وہ پوری طرح طشت ازبام ہوچکی ہے، جزیرۃ العرب میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام، کھنڈرات اور ویرانیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں، علماء حق پر چیرہ دستیاں، صلحاء و دعاۃ پر تعذیب و تشدد، اسلامی تعلیمات کا مغربی کرن، فلسطینی کاز کو نقصان پہنچانا،اسلامی عساکر کو کمزور کرنا، اہل قلم کو قتل کروانا، یہ سب آلِ سعود کے گندے اور گھٹیا جرائم ہیں جو یہ لوگ حرمین کی گدی پر بیٹھ کر اور غلاف کعبہ کی اوٹ میں چھپ کر انجام دیتے رہےہیں، کیا اس سے بھیانک اور منحوس عمل کوئی اور ہوسکتاہے ؟ ان تمام پر محیط دستاویزات اور چشم کشا تحریریں پوری دنیا میں عام ہوچکی ہیں، اس بابت ہمارے تفصیلی مضامین بھی موجود ہیں ۔
دو دو چار کی طرح واضح سچائیوں کے درمیان الله تعالٰی دیکھ رہےہیں کہ کون واضح اہل حق کے ساتھ کھڑا ہے اور کون باطل کے ٹولے میں ہے؟ ماتم کرنے کو جی چاہتاہے ان عقلوں پر جو ان اسلام فروشوں کا دفاع کرنے کے لیے خدمت حرمین اور تقدس حرمین کی دلیل لنگ پیش کررہےہیں ورنہ دنیا جانتی ہے کہ زائرین، معتمرین و حجاج کی آمدورفت نہ ہو تو سعوديه کے کاروبار ٹھپ پڑنے لگ جائیں، کتنی بھولی بھالی بات ہے کہ ایک انسان ایک ہوٹل میں کرایہ ادا کرکے رہے اور پھر اس ہوٹل کا زندگی بھر ایسا احسان مند ہوجائے کہ اسے آئینہ بھی نہ دکھلا سکے یقینًا ایسی فہم صرف اور صرف عقل بندی کی نشانی ہے! ضرورت تو ہے کہ آگے بڑھکر حرمین کو لاحق خطرات پر امت ایک ساتھ ہوجائے، اگر سرحد بندیوں نے اور طرح طرح کے سیکولرائزیشن نے ہمیں امت پنے کے عالمی اجتماعی خمیر سے بھی منقطع کردیاہے تو یہ تسلیم کرلیجیے کہ ہم بحیثیت امت مر چکے ہیں، ہماری عالمی رسوائی کے لیے یہی کافی ہے!
جنہیں اس فتنے اور عذاب سے باہر ہونا ہے، ضروری ہیکہ کھل کر برات کریں، تلبیس زدہ چمک کی تاریکی سے واشگاف الفاظ میں مؤمنوں کو واقف کرائیں، اب کوئی رعایت کوئی مصلحت جائز نہیں ہے ۔
ہم ایک بار پھر برصغیر کے علما اور مفتیان سے، پورے عالم اسلام سے پوچھتے ہیں کہ
کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں کہ جزیرۃ العرب میں سیکولر (لادینی) حکومت قائم رہے٬ لادینی نظام چلے؟
کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں کہ معذب قوموں کے مقامات کو عریاں سیاحتی ریزارٹ کے لیے منتخب کیا جائے؟
کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں کہ امریکہ اور آل سعود مل کر نصاب کی اسلامی عناصر سے تطہیر کریں؟
کیا آپ اس کو درست سمجھتے ہیں کہ جزیرۃ العرب کے جید سربرآوردہ اور خاموش اصلاحی کام کرنے والے علماء سلمان العودہ، عوض القرنی، اور دیگر حضرات کو جیل کے حوالہ کیا جائے؟
کیا آپ کے نزدیک قطر کی ناکہ بندی، اس پر فوجی حملہ کی منصوبہ بندی، اور وہاں کے لوگوں کو بھوکا پیاسا مارنے کی ناکام کوشش جائز ہے؟
کیا آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم ڈاکٹر قرضاوی کے ساتھ ہیں، اور پوری دنیا کی تنظیم علماء کے ساتھ ہیں، مرسی اور مرشد اخوان کے ساتھ ہیں، سعودی جیلوں میں قید علماء کے ساتھ ہیں !!!
کیا آپ کے کانوں تک سعودی جیلوں میں قید ہزاروں نوجوانوں کی تکلیفیں، اذیتیں، ان کی ماؤں بہنوں اور بھائیوں کی چیخیں نہیں پہنچتیں؟
کیا آپ کی ظلم پر خاموشی ظالم حکمرانوں کے لیے سند نہیں بن رہی ہے؟ کیا عوام کو اس سے مغالطہ نہیں ہو رہا ہے؟
کیا منبر رسولﷺ کی توہین آپ کو نظر نہیں آتیں؟ کیا رابطہ عالم اسلامی کے پلیٹ فارم سے شریعت میں صریح مداخلت اور تحریف آپکے سامنے نہیں؟ کیا، کوئی حکمت و مصلحت حرمین شریفین کے استحصال سے بڑھ کر ہوسکتی ہے؟ کیا خانۂ کعبہ سے فواحش پر سکوتی تائید اور ظالموں منافقوں کی علانیہ تائید اور ان کے حق میں کلمات رسولﷺ کی تطبیق کے بعد آپکو چین و سکون کی نیند آجاتی ہے؟ کیا ہماری خاموشی ہماری ایمانی موت پر مہر نہیں لگا رہی؟
کیا حق کی بات صرف غیر مسلموں کے بارے میں کہی جاتی ہے، نام نہاد مسلمان، ظالم اور مسلم حکمرانوں پر تنقید، شرعی مصلحتوں کے خلاف ہے؟
یہ سوالات صرف میرے نہیں ہیں، ہر مسلمان نوجوان کے سینہ میں مچل رہے ہیں، اور وہ بے تابی سے ان کا جواب چاہتا ہے، تاکہ اس کا ضمیر مطمئن ہو سکے اور وہ عنداللہ بری ہوسکے۔
*سمیع اللّٰہ خان*
ksamikhann@gmail.com
Post a Comment