غزل

یہ عطا بھی ہے ساقی واہ کیا نرالی ہے
ایک جام چھلکا ہے ایک جام خالی ہے

زخم پتہ پتہ ہے درد ڈالی ڈالی ہے
اے مرے چمن آخر کون تیرا مالی ہے

پھر ترے حسیں وعدے یاد آ گئے شاید
میں نے آرزوؤں کی بھیڑ پھر لگا لی ہے

کیا مری وفاؤں کا اب لہو نہیں ملتا
تم نے اپنے ہاتھوں میں کیوں حنا لگا لی ہے

اے مری غزل تیرے ناز کون اٹھائے گا
اب نہ کوئی غالبؔ ہے اب نہ کوئی حالیؔ ہے

حرف حرف ہیرا ہے لفظ لفظ موتی ہے
ان حسین لوگوں کی بات ہی نرالی ہے

پاک باز رندوں کو اور ہم کہاں ڈھونڈھیں
مسجدیں بھی سونی ہیں مے کدہ بھی خالی ہے

رازؔ یہ غزل اپنی اک حسیں کا صدقہ ہے
شعر بھی انوکھے ہیں ہیں طرز بھی نرالی ہے

Post a Comment

Previous Post Next Post