"تمنائے حضوری"
( بیسویں صدی کی آخری طویل ترین نعتیہ نظم)
150 سے زائد قطعات پر مشتمل اس نعتیہ نظم میں ریاض حسین چودھری نے حضور کے عہدِ مبارک میں ہونے کی آرزو کو لفظوں کے پیرہن میں ڈھال دیا ہے. چند اقتباسات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں.
مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
بو لہب کی میں وہ اک لونڈی ثویبہ ہوتا
جشنِ میلاد کے صدقے میں رہائی ملتی
جشنِ میلاد کی تاریخ کا حصّہ ہوتا
مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
میں حلیمہ کے مقدر کا ستارا ہوتا
اپنی آغوش میں جس وقت وہ اُن کو لیتی
میں نے اُس لمحے کو آنکھوں میں اتارا ہوتا
مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
میں حلیمہ کی وہ تاریک سی کٹیا ہوتا
جس میں سرکار کو اکثر وہ لٹایا کرتی
جس میں سرکار کے آنے سے اجالا ہوتا
مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
چاند بن کر سرِ افلاک میں روشن ہوتا
رقص کرتا میں اشاروں پہ بلائیں لے کر
پیش منظر مرے آقا کا لڑکپن ہوتا
مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
خوشبوئے خلدِ تمّنا کی میں بانہیں ہوتا
ننھے آقا کہ میں تلووں سے مسلتا ان کو
شہرِ مکہ کے دریچوں کی میں آنکھیں ہوتا
مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
اُن کے بچپن میں قدمبوسی کا حیلہ ہوتا
پاؤں رکھ رکھ کے گھروندے وہ بنایا کرتے
میں خنک ریت کا بے نام سا ٹیلا ہوتا
مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
پرفشاں سعد کی وادی میں مَیں ہرسو ہوتا
مسکراکر جسے مٹھی میں چھپا لیتے حضور
جھاڑیوں میں وہ چمکتا ہوا جگنو ہوتا
مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے ربِ کریم
میں ابوبکر کے سائے کا بھی سایہ ہوتا
ایک اِک لمحہ رفاقت میں گزرتا میرا
کیف و مستی کی میں مضراب کا نغمہ ہوتا
سلطان نعت : ریاض حسین چودھری
Post a Comment