حضرت داؤد علیہ السلام کا ذریعہ معاش:۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے باوجودیکہ ایک عظیم سلطنت کے بادشاہ تھے مگر ساری عمر وہ اپنے ہاتھ کی دستکاری کی کمائی سے اپنے خورد و نوش کا سامان کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ لوہے کو ہاتھ میں لیتے تو وہ موم کی طرح نرم ہوجایا کرتا تھا اور آپ اس سے زرہیں بنایا کرتے تھے اور ان کو فروخت کر کے اس رقم کو اپنا ذریعہ معاش بنائے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پرندوں کی بولی سکھا دی تھی۔ (روح البیان،ج۱،ص۳۹۱،پ۲،البقرۃ:۲۵۱)
درس ہدایت:۔
(۱)حضرت طالوت کی سرگزشت کی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کی مقدس زندگی سے یہی سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنا فضل و کرم فرماتا ہے تو ایک لمحہ میں رائی پہاڑ اور ذرہ کو آفتاب بنا دیتا ہے۔ غور کرو کہ حضرت داؤد علیہ السلام ایک کمسن لڑکے تھے اور خود نہایت ہی مفلس اور ایک غریب باپ کے بیٹے تھے۔ مگر اچانک اللہ تعالیٰ نے ان کو کتنے عظیم اور بڑے بڑے مراتب ودر جات کے اعزاز سے سرفراز فرما دیا کہ ان کے سر پر تاجِ شاہی رکھ کر اُنہیں بادشاہ بنا دیا۔ اور ایک بادشاہ کی شہزادی اُن کے نکاح میں آئی .
اور پھر نبوت کا مرتبہ بلند اُنہیں عطا فرما دیا کہ اس سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی بلند مرتبہ ہو سکتا ہی نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ قاہرہ کا جلوہ دیکھو کہ جالوت جیسے جابر اور طاقتور بادشاہ کا قاتل حضرت داؤد علیہ السلام کو بنادیا جو ایک کمسن لڑکے اور بیمار تھے اور وہ بھی ان کے تین پتھروں سے قتل ہوا۔ حالانکہ جالوت کے سامنے ان چھوٹے چھوٹے تین پتھروں کی کیا حقیقت تھی؟ جب کہ وہ تین سو رطل وزن کی فولادی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ایک چیونٹی کو ہاتھی پر غالب کردے اور اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ہاتھی ایک چیونٹی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔
(۲)واقعہ مذکورہ بالا میں آپ نے پڑھ لیا کہ طالوت دبگری یعنی چمڑا پکانے کا پیشہ کرتے تھے یا بکریاں چراتے تھے اور حضرت داؤد علیہ السلام بھی پہلے بکریاں چرایا کرتے تھے اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بنادیا اور نبوت کے شرف سے بھی سرفراز فرما دیا تو انہوں نے اپنا ذریعہ معاش زرہیں بنانے کے پیشے کو بنالیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رزق حلال
طلب کرنے کے لئے
کوئی پیشہ اختیار کرنا خواہ وہ دبگری ہو یا چرواہی ہو یا لوہاری ہو یا کپڑا بننا ہو، الغرض کوئی پیشہ ہرگز ہرگز نہ ذلیل ہے نہ ان پیشوں کے ذریعہ روزی حاصل کرنے والوں کے لئے کوئی ذلت ہے۔ جو لوگ بنکروں اور دوسرے پیشہ وروں کو محض ان کے پیشہ کی بناء پر ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں وہ انتہائی جہالت و گمراہی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں۔ رزق حلال طلب کرنے کے لئے کوئی جائز پیشہ اختیار کرنا یہ انبیاء و مرسلین اور صالحین کا مقدس طریقہ ہے۔ لہٰذا ہرگز ہرگز پیشہ ور مسلمان کوحقیر ذلیل شمار نہیں کرنا چاہیے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پیشہ ور مسلمان ان لوگوں سے ہزاروں درجہ بہتر ہے جو سرکاری نوکریوں اور رشوتوں اور دھوکہ دہی کے ذریعہ رقمیں حاصل کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور اپنے شریف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ شرعاً اس سے زیادہ ذلیل کون ہو گا جس کی کمائی حلال نہ ہو یا مشتبہ ہو۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
طلب کرنے کے لئے
کوئی پیشہ اختیار کرنا خواہ وہ دبگری ہو یا چرواہی ہو یا لوہاری ہو یا کپڑا بننا ہو، الغرض کوئی پیشہ ہرگز ہرگز نہ ذلیل ہے نہ ان پیشوں کے ذریعہ روزی حاصل کرنے والوں کے لئے کوئی ذلت ہے۔ جو لوگ بنکروں اور دوسرے پیشہ وروں کو محض ان کے پیشہ کی بناء پر ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں وہ انتہائی جہالت و گمراہی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں۔ رزق حلال طلب کرنے کے لئے کوئی جائز پیشہ اختیار کرنا یہ انبیاء و مرسلین اور صالحین کا مقدس طریقہ ہے۔ لہٰذا ہرگز ہرگز پیشہ ور مسلمان کوحقیر ذلیل شمار نہیں کرنا چاہیے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پیشہ ور مسلمان ان لوگوں سے ہزاروں درجہ بہتر ہے جو سرکاری نوکریوں اور رشوتوں اور دھوکہ دہی کے ذریعہ رقمیں حاصل کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور اپنے شریف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ شرعاً اس سے زیادہ ذلیل کون ہو گا جس کی کمائی حلال نہ ہو یا مشتبہ ہو۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
Post a Comment