چلتّر

شیخ بشیر احمد

Tengapora,Nawab Bazar
Srinagar

چلتّر

پچھلے کئی دنوں سے وہ نیند میں عجیب و غریب خواب دیکھ رہی تھی۔جیسے راستے میں چلتے چلتے اپنی چرتی گایوں اور بھینسوں کو اپنے ساتھ ہانکتے ہو ئے وہ گھر چلی آتی کہ اچانک دور کہیں سے ایک آوارہ بادل کا ٹکڑا فلک پر نمودار ہو کر اس کے سامنے حائل ہوتا ہے اور ایک مہیب اندھیرا سا پھیل جاتا جو اسے آگے بڑھنے سے روکتاہوا لگ رہا ہے۔
پھر جو نہی اس کی آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جاتا تو خون میں لت پت ایک چھوٹا سا پرندہ پھڑ پھڑاتا ہوا دکھائی دیتا جسے اس کوکوؤں نے چونچیں مار مار کر ادھ موا کر کے چھوڑا ہو۔یہ دیکھ کر وہ سہم جاتی اور اس کی آنکھ کھل جاتی تھی۔ خوف کے مارے وہ ماں کی چھاتی سے لپٹ جاتی پھر اسے یاد نہیں رہتا کہ کب وہ خود بخود نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ صبح اُٹھ کر لگ بھگ وہ اس واقعہ کو بھول چکی ہوتی اور اپنی ماں کے سامنے اس بارے میں کچھ کہنے سے گریز کرتی۔ البتہ اس کے ان مٹ نقوش ذہن پر چھائے رہتے۔
معمول کے مطابق جب بھی وہ اسکول سے آکر گھر کے احاطے میں داخل ہوتی تو اماں کو کسی نہ کسی کام میں مشغول پاتی۔کبھی اسے بھیڑ بکریوں کو چارہ کھلاتی‘کبھی اِدھر اُدھر جھاڑو پھیرتی یا پھر کبھی امرود کے پیڑ کی چھاؤں تلے سبزی کاٹتی ہوئی نظر آتی۔دیکھتے ہی اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ کھل اُٹھتی پھر وہ پوچھتی۔’’آگئی بٹیا! لگتا ہے کافی بھوک لگی ہے۔ اندر جاکر پہلے اپنی وردی اتارنا پھر کچن میں جا کر ہاتھ منہ دھو کر کھا پی لینا۔ ورنہ یہ تمھاری وردی گندی ہو جائے گی اور اس پر داغ لگ جائیں گے۔‘‘
’’اچھا اماں! ‘‘اس کے جواب میں اپنا سر اثبات میں ہلا تی ہوئی اندر جاتی اور دل ہی دل میں اس کی بات پر مسکرائے بغیر نہیں رہتی۔
یوں تو وہ ایک عام سی لڑکی ہے ‘عمر دس برس کی رہی ہوگی۔ چہرے پر وہی معصومیت جھلکتی نظر آتی تھی۔جو عام دنوں میں اس کی ماں کے چہرے پر کھلی رہتی۔قد کے لحاظ سے قدرے لمبی لیکن بالکل دبلی پتلی۔ نیلی آنکھیں جھیل سی گہری اور شانوں پر کسی ناگن کی طرح پھن پھیلائے سنہرے ریشمی بالوں کی لٹ ایک عام سے ربر بینڈ سے جوڑے میں بندھی ہوتی تھی۔ پھٹا پرانا کاٹن کا فراک اور ٹانگوں میں سفید رنگ کا ڈھیلا ڈھالاغرارہ اور پیروں میں گھٹیا قسم کی چپل اس کے پورے 
جسم کا اثاثہ تھا۔شام ہونے سے پہلے پہلے ہی مندر سے ملحقہ میدان میں چرتی اپنی بھیڑ بکریوں کواپنے گھر لانا‘اس کے معمولات میں شامل تھا۔ یہ میدان بستی سے تھوڑی مسافت پر پہاڑی کے مشرقی دامن میںتھا۔ جہاں سال بھر خودرو گھاس اور جنگلی جھاڑیاں اُگی رہتیں۔جو جانوروں کے کھانے کے کام آتیں۔اور اس میں بستی کے لوگ اپنے مویشیوں کو چرنے کے لئے چھوڑ دیتے تھے۔اس بہانے سے اسے اپنی ہم عمر سہلیوں سے میل ملاپ کا موقع بھی ملتا تھا۔ بچیاں ایک ساتھ کھیلا کرتیں‘کبھی مندر کے صحن میں گھروندے بناتیں۔ کبھی گڈے گڑیا کا بیاہ رچاتیں‘اس طرح ایک دوسرے کی قربت پاکر انھیں انجانا سکھ ملتا۔ جس کا ایک ایک لمحہ ان کی راہوں میں خوشیوں کا پھول کھلاتا تھا۔
مندر کے احاطے میں برگد کاایک درخت اِستادہ تھا۔ جس کے سائے میں ایک جوگی منش بیٹھا کرتا تھا‘جو دن بھر منتروں کا جاپ کرتا نظر آتا۔کیا ہندو‘ کیا سکھ‘ کیا مسلمان جس کا وہاں سے گزر ہوجاتا اس کی جکھولی میں کچھ نہ کچھ ضرور ڈالتا۔ اہل ہنود اسے ایک اعلیٰ پا یے کا گیانی اور مسلمان با کمال فقیر سمجھ کر قدرومنزلت کی نگاہوں سے دیکھتے۔ایسے میں بستی کے لوگ اپنے اپنے گھر میں عقیدت و احترام کے جذبے میں چھوٹی چھوٹی بچیوں کو سمجھاتے رہتے کہ ملنگ بابا کو کبھی تنگ نہ کرنا۔ہو سکے تو اس کے لئے مٹکے میں ندی سے پانی بھر کر لانا اور اس کے بیٹھنے کی آس پاس جگہ پر جھاڑو پھیرنا۔ 
یہ سن کر چھوٹی چھوٹی کم سن بچیاں مل بیٹھ کر ملنگ بابا کی سیوا کرنے میں لگ جاتیں۔ جس کے عوض میں وہ بھی انھیں خوش کردیتا۔ کبھی کبھی طرح طرح کے میوے کبھی پرشاد میں آئے لڈودیتا تھا۔ لیکن نیلی آنکھوں اور سنہری بالوں والی پر زیادہ مہربان نظر آتا تھا‘نہ جانے وہ کون سی مجبوری تھی؟کیا اسباب تھے؟ جس کی بناء پر وہ اسے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ دیتا تھا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ 
بستی میں ملی جلی آبادی تھی اور بھائی چارے کی فضا میں سکھ و اطمینان کے ساتھ ہر ذات و فرقے کے لوگ وہاں برسوں سے ساتھ ساتھ رہتے چلے آرہے تھے۔جب کہ ان ہی میں سے ایک طبقہ پہاڑی کی اونچی نیچی ڈھلوانوں پر گزر بسر کر رہا تھا اور وہ لڑکی بھی اسی طبقہ سے تعلق رکھتی تھی۔غربت ومفلسی اس کے ماں باپ کو ورثہ میں ملی تھی۔چند بکریاں ان کے گھر کاکل سرمایہ تھا۔جن کا دودھ فروخت کرتے تھے اور اس طرح گھر کا گزارہ چلتا تھا۔
حسب معمول جب وہ ہرنی کی سی چال چلتی ہوئی اونچی نیچی ڈھلوانوں کو عبور کر کے اسکول جو اس کے گھر سے ہی ایک آدھ کلومیٹر کی دوری پر تھا۔جانے لگی تو اچانک نہ جانے اس کے من میں کون سا خیال درآیا کہ اس کچی ناہموار سڑک کی بجائے پگڈنڈی جیسے درمیانی راستے کو ترجیح دی اور مٹکتے مٹکتے اسکول پریئر میں گایا جانے والا ترانہ   ؎
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا
   مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ۔ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا 
 گا رہی تھی۔کہ اچانک ایک سنسان جگہ پر چند نا معلوم آدمی ایک بڑے پتھر کی اوٹ سے باہر نکلے ‘تعداد میں وہ چار تھے اور جھٹ سے آگے بڑھ کر اس کا چہرہ ڈھانپ لیا‘ کپڑے کے ایک ٹکڑے سے اس کا منہ بند کر کے دونوں ہاتھ پاؤں کو بھی باندھ دیا۔ یہ سب اتنی ہوشیاری اور برق رفتاری سے ہوا کہ وہ اُف تک نہ کرپائی اور نہ وہاں سے بھاگ سکی۔پھر وہ اسے ایک بوری میں بند کرکے اپنے ساتھ لے گئے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
شام اُتر رہی تھی اور سورج درخت کی اوٹ میں چلے جانے کو بے تاب تھا۔ جب دیر تک وہ گھر واپس لوٹ نہ آئی تو اس کے ماں باپ کے جسموں پر جیسے چونٹیاں رینگنے لگیں۔ ان کی نگاہیں سامنے دور تک پھیلی کچی سڑک پر اس گمان میں لگی ہوئی تھیں کہ شاید ابھی وہ اسکول سے لوٹ آئے گی۔ لیکن کافی دیر تک وہ نہ لوٹی تو بدحواسی کے عالم میں دونوں میاں بیوی نے پہاڑ کا چپہ چپہ چھان مارا اور بستی میں جاکر اس کی سہیلیوں سے دریافت کیاکہ شاید انھیں کچھ پتہ ہو اور اس طرح اس کا کوئی سراغ مل جائے لیکن معاملہ ڈھاک کے تین پات ثابت ہوا۔
آناً فاناً جب یہ بات بستی میں پھیل گئی تو لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔پھر جس کسی نے سُنی اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔کسی کو اس بات پر یقین نہیں آرہا تھا ‘ کیونکہ آج تک بستی میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ لوگ گھر چھوڑ کر ننگے پیر اُسے ڈھونڈنے نکلے ‘جہاں جہاں اس کے ہونے کا امکان تھا وہاں وہاں دیکھ آئے مگر پھر بھی وہ کہیں نہ ملی۔ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگوں کی نگاہیں تھک گئیں اور آنکھیں دُکھنے لگیں ‘ ہائے رے قسمت! دکھ کی گھڑیاں گھر کی دہلیز پر آکر جم گئیں اور انتظار ان کا مقدر بن گیا۔
قسمت کے لکھے کا کوئی کیا کرے۔ادھر چھوٹی ننھی سی بچی کی گمشدگی سے جہاں بستی کے سب لوگ دکھی تھے وہیں اب سادھو بھی کہیں آس پاس دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات نے طرح طرح کی بد گمانیاں پیدا کر ڈالیں۔حسن اتفاق سے مندر کا یہ پجاری یہ واقعہ رونما ہونے سے پہلے ہی کسی شادی کی تقریب کے لئے شہر گیا ہوا تھا۔ ایسے ماحول میں فقیر کے اس طرح غائب ہونے سے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
وہ صبح بڑی قیامت خیز ثابت ہوئی جب ساری بستی خاموش تھی اور لوگ لحافوں میںدبکے پڑے تھے کہ اچانک یہ خبر پوری بستی میںجنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ کسی نے مندر کی سیڑھیوں پر فقیر بابا کی لاش پڑی دیکھی ہے اور اس کے سینے میں کسی نے خنجر پیوست کر کے اسے وہاں پھینک دیا ہے۔ اس کے چہرے پر بہت سی خراشیں پڑ چکی ہیں اور بدن کے کپڑے تار تار ہیں۔  
چنگاری کا ہوا میں اُٹھنا تھا کہ بستی میں ایک آگ سی لگ گئی ۔ہر طبقہ ہر فرقہ خود سے خیالات کا اظہار کرنے لگے۔ دن کے بے رنگ اُجالے میں اور رات کی تاریکی میں کسی خطرناک انہونی کی پرچھائیاں رقصاں لگ رہی تھیں۔کب کیا ہوجائے کوئی نہیں جانتا۔کل تک جو لوگ ننھی بچی کو تلاشتے رہے تھے وہی آج اس فرقے کے خلاف ہو گئے۔ابھی اس المناک واقعہ کوزیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ایک دوسری بری خبر آئی جس نے لوگوں کے ہوش اُڑادئے اور سوچنے کی قوت ختم ہوگئی۔
چند لوگوں نے اس مظلوم لڑکی کی خون میں لت پت لاش ندی کے کنارے پڑی دیکھی جو اپنی بے بسی اورمظلومیت کی سراپا داستان بنی ہوئی تھی۔اسے اس حالت میں نیم برہنہ چھوڑا گیا تھا کہ اس کے چہرے کی تازگی کھوئی آنکھوں کی چمک کافور ہو چکی تھی۔ اسے دیکھ کر انسانیت شرم سار ہوتی جارہی تھی۔
بات پھیلنے میں دیر نہ لگی ۔سب خالی نظروں سے ایک دوسرے کو تکتے رہے ‘جیسے انھیں سانپ سونگھ گیا ہو۔کل تک جو دین دھرم کی باتیں کررہے تھے‘وہی آج ایک دوسرے پر تن گئے‘ پھر کیا تھا‘دیکھتے دیکھتے بستی میں اس سانحہ نے فساد کی شکل اختیار کر لی۔لوگ آپس میں دست و گریباں ہو گئے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے۔
دُور سنسان سڑک کے بیچوں بیچ چند لوگ واویلا کررہے تھے۔انھوں نمے اس گمبھیر سانحے پر آسمان سر پر اُٹھائے رکھا تھا۔وہ اس گھناؤنے کام کے لئے ذمہ دار لوگوں کو پھانسی پر چڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے چیخ رہے تھے۔
ساری بستی اُمڈ پڑی ‘پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی ۔حقیقت کو لاکھ چھپاؤ نہیں چُھپتی۔آخر لوگوں نے مری ہوئی بے جان لڑکی کی ادھ کھلی مٹھی کھولی تو اس میں سے ایک لاکٹ بر آمد ہوا جس میں ان ہی بھیڑیا نما انسانوں میں سے ایک کی تصویر اوراس کا نام کندہ تھا۔٭٭٭

Post a Comment

Previous Post Next Post