’’پنگھٹ پنگھٹ پیاس‘‘

’’پنگھٹ پنگھٹ پیاس‘‘
اردو دوہے۔۔۔۔۔۔ایک جائزہ



ڈاکٹر محفوظ الحسن
Hyder Manzil-Road Np.2
New  krim Ganj(Bihar)

اردو شاعری میں دوہے کی روایت قدیم ہے۔جس طرح اردو زبان کے ارتقاء میں صوفیائے کرام کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اسی طرح اردو ادب کے ارتقاء میں بھی ان کی خدمات سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔دوہا اردو شاعری کی ایک ایسی صنف ہے جس کے ابتدائی نشانات بھی صوفیا کے کلام میں ملتے ہیں۔اردو دوہا کی تاریخ کے مرتبین نے اس ضمن میں جن دوچار دوہوں کا تذکرہ کیا ہے ان سب کا تعلق بزرگان دین سے ہے۔ مگر نہ جانے کیوں دوہا ایک عرصے تک اردو شعراء اور ناقدین دونوں کی توجہ کا محتاج رہا جب کہ ہندی ادب میں اس کو خاص اہمیت دی گئی۔ بیسویں صدی میں دوہا نگاری کی جانب اردو شعراء نے نہ صرف توجہ دی بلکہ صنف دوہا کے فنی تعین کی جانب پیش قدمی کرتے ہویے خاص اوزان مقرر کئے اور مختلف تجرباتی کوششوں کو راہ دیتے ہویے معریٰ دوہے‘مردف دوہے‘ دوہا غزل‘ دوہا نظم‘ دوہا گیت‘دوہاحمد‘دوہا نعت وغیرہ پر طبع آزمائی کی۔ اس قسم کے تجربات کی ابتدااردو میں فراز حامدی نے کی اور ان کی پیروی کرتے ہویے دیگر شعراء نے بھی اس قسم کے تجرباتی میدان میں خود کو اتار لیا۔
شمیم انجم وارثی بھی فراز حامدی کے نقش قدم کی پیروی کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا مجموعہ’’پنگھٹ پنگھٹ پیاس‘‘ ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس میں جو دوہے یا دوہوں کی صنف تجرباتی طور پر کہی گئی اصناف شامل ہیں وہ ہیں حمدیہ و نعتیہ دوہے۔ اردو دوہے‘کرجاں دوہے‘ معریٰ دوہے‘ دوہا حمد‘دوہانعت‘ دوہا غزل ‘دوہا گیت‘ دوہا قطعات‘ حمدیہ و نعتیہ دوہا‘ شخصیاتی دوہا‘ دوہا دو بیتیاں‘ دوہا مثلث‘ دوہا غزل نما حمدیہ‘ دوہا غزل نما نعتیہ‘ ان تجربات کی مجموعی تعداد سولہ ہے۔     میں آئندہ سطور میں شمیم انجم وارثی کے صرف اردووہوں پر گفتگو کروں گا۔       دوہا کیا ہے؟دوہا کی صنفی حیثیت و نوعیت کیا ہے؟ دوہا کا وزن‘ بحر کیا ہے۔ دوہا کی زبان کیسی ہونی چاہئے؟ دوہا کے موضوعات کیا ہیں؟ اور کیا ہو سکتے ہیں؟ ان تمام امور پر اس قدر گفتگو کی جاچکی ہے کہ اب اس سلسلے میں مزید کوئی گفتگو لاحاصل ہوگی۔
لہٰذا صرف فراز حامدی کے مندرجہ ذیل دوہا کی روشنی میں شمیم انجم وارثی
کے دوہوں پر گفتگو کروں گا۔فراز حامدی کا دوہا ملاحظہ ہو:
تیرہ گیارہ ماترا بیچ بیچ وشرام۔دو مصرعوں کی شاعری دوہا جس کا نام
میں چونکہ فن عروض سے اچھی طرح واقف نہیں ہوں اس لیے دوہا کے تعلق سے کوئی عروضی گفتگو نہ کرتے ہویے صرف فراز حامدی کی مانیتا پراپت تعریف تک ہی اپنی گفتگو کو محدود رکھوں گا۔یعنی یہ کہ دوہا اس صنف شاعری کو کہا جائے گا جودو مصرعوں میں مکمل ہو گئی ہو اور جس کے دونوں مصرعوں میں ۲۴؍ ماترائیں یا حرف ہوں۔تیرہ ماترا کے بعد تھوڑا وقفہ اور پھر گیارہ ماترا یا حرف کا استعمال ہوا ہو ۔ہندی ادب کی تاریخ میں ان تمام حصص کے مختلف نام ہیں فی الوقت ان کی تفصیل سے احتراز کرتے ہوئے صرف دوہوں میں بیان کیے گئے موضوعات و زبان تک ہی محدود رکھوں گا۔
یہاں ابتدا ہی میں یہ بات واضح کردوں کہ اردو ایک ہندوستانی زبان ہے اور اس میں ۶۰؍فیصد الفاظ ہندوستانی ہیں ‘اس لیے شاعری ہو یا نثر ہندوستانی الفاظ سے دامن چھڑا کر اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اردو شاعری/نثر نگاری کر رہا ہے تو یہ بات میرا ذہن قبول کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی عقل اس کا کوئی جواز فراہم کر سکتی ہے ‘ ہاں اردو کو معرب اور مفرس ہونے سے ضرور بچایا جا سکتا ہے۔ مگر ہندوستانیت سے دامن نہیں چھڑایا جاسکتا۔لہٰذا دوہا کو اردو دوہا کا نام دینا بھی میرے خیال میں مناسب نہیں ۔یہ رویہ علیحدگی پسندذہنیت کی غمازی کرتا ہے۔دوہا دوہا ہے اوریہ دوہا ہی رہے گا۔اردو رسم الخط میں ہے اور اس میں کسی بھی زبان کے الفاظ اردو رسم الخط میں استعمال کیے گئے ہیں تو اردو دوہا ہی ہوگا ہندی نہیں۔اور اگر ہندی زبان کا شاعر دوہا لکھتا ہے اور اس میں عربی و فارسی ‘بنگالی اور انگریزی کے الفاظ استعمال کرتا ہے تو وہ ہندی دوہا ہوگا‘بشرطیکہ شاعر ہندی زبان کاہو اور رسم الخط بھی دیوناگری ہو۔
دشینت کمار کی غزلیں آپ پڑھ لیں۔کیا ان غزلوں کو اردو غزل کہیں گے؟حالانکہ اس غزل میں استعمال ہونے والے الفاظ اردو کے ہیں ‘ہندی الفاظ بہت کم ہیں۔ مگر وہ دیوناگری رسم الخط میں ہی تو ہندی غزل ہیں۔بالکل اسی طرح شمیم انجم وارثی ہوں یا ودیا ساگر آنند‘فراز حامدی ہوں یاساحر شیوی‘ بیکل اُتساہی ہوں یا بھگوان داس اعجاز‘ان کے دوہے اردو دوہے ہی کہے جائیں گے خواہ ان کے نام کے ساتھ اردو کا سابقہ لگایا جائے یا نہیں لگایا جائے۔بہر کیف یہ تو ایک جملہ 
معترضہ تھا جو بیچ میں آگیا۔مگر اس سلسلے میں میری جو رائے ہے اس کا اظہار بھی ضروری تھا۔
اب آئیے شمیم انجم وارثی کے دوہوں کے موضوعات کی پرکھ‘ان کے دوہوں کے حوالے سے کی جائے۔نیز ان کی زبان ان کے انداز بیان اور ان کے لب ولہجے پر کچھ گفتگو ہو جائے تاکہ یہ پتہ چلے کہ شمیم انجم وارثی کے دوہوں میں کیا کچھ نیا ہے جو انھیں دوسرے دوہا نگاروں سے ممتاز بناتا ہے۔
شمیم انجم وارثی کے دوہوں کے موضوعات متنوع ہیں ان میں ہجر کی کسک بھی ہے ‘وصال کی لپک بھی‘ عشق کی داستان بھی‘ حُسن کا ستم بھی ‘زمانے کیء حالات بھی اورسماج کی ناہمواریاں بھی۔
         شمیم انجم وارثی ایک صالح فکر اور مثبت رویے کے شاعر ہیں۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے اس مجموعے کی ابتدا حمدیہ و نعتیہ دوہوں سے کی ہے ۔ حمد میں خدائے بزرگ و برتر کی صفات کو شعری پیکر میں ڈھالا گیا ہے۔انھوں نے قرآنی آیات کے حوالے سے اللہ کی بزرگی اور برتری کا احساس کرا یا ہے۔مثلاً کل من علیہا فان، الحمد للہ رب العالمین وغیرہ وغیرہ۔ وہ اللہ سے بھی دعا کرتے ہیں کہ دمِ واپسیں اُن کے لب پر درود و سلام کا ورد جاری رہے۔
سب ہیں فانی سائیاں باقی بس تو ایک۔کوئی کیا سمجھے تجھے تیرے روپ انیک
کرپا تیری سائیاں سب پر اپرم پار۔تو جگ کا کرتار ہے تو ہی پالن ہار
تجھ سے منت ہے مری اے میرے معبود۔ہونٹوں پر مرتے سمئے جاری رہے درود
حضور اکرم صلعم کی نعت لکھتے ہوئے بڑی احتیاط سے پہلے تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے انھیں ان کی امت میں پیدا کیا۔ اس کے بعد آپ کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ ساتھ واقعۂ معراج کا ذکر جس انداز میں کرتے ہیں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلامی تاریخ، سیرت طیبہ اور قرآن کی تعلیمات ان کی نظر میں ہے:۔
مولا ہم بندے ترے دل سے ہیں مشکور۔تونے بھیجا دہر میں ایک سراپا نور
روشن ہے معراج کی اب بھی وہ تصویر۔گرم رہا بستر اگر ہلتی تھی زنجیر
تیرے وِرد پاک سے خوش ہوگا معبود۔بھیج اسی عالی ذات پر صبح و مسا درود
بزرگوں کے قول  ؎  ’’با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار‘‘ بھی ان کی نگاہ میں ہے اس لئے وہ کہتے ہیں   ؎
گستاخی کے خوف سے تتر بتر ہے جان۔نبیوں کے سلطان کا کیسے کروں بکھان
شاعر فلسفی نہیں ہوتا مگر شعر میں فلسفیانہ نکات بیان کئے جاتے رہے ہیں۔ اردو کے بیشتر کلاسیکی اور جدید شعراء نے عموماً اور متقدمین نے خصوصاً زندگی ‘موت‘ دکھ‘ سکھ‘ فنا و بقا کے فلسفے کو شعر کا پیکر عطا کیا ہے۔ شمیم انجم وارثی نے اپنے دوہوں میں کچھ فلسفیانہ نکات با نداز شاعرانہ بیان کئے ہیں۔ داد دینی پڑتی ہے ان کی فن کاری کی کہ ایسے فلسفیانہ نکات بیان کرتے وقت وہ نہ تو فلسفی نظر آتے ہیں اور نہ ہی مبلغ و مصلح ‘بلکہ صرف اور صرف شاعر نظر آتے ہیں۔ دیکھیے زندگی اور دکھ سکھ کے فلسفے پر ان کی شاعرانہ نگاہ کس طرح اٹھتی ہے۔
جیون اک گہری ندی‘ سکھ دکھ دو پتوار۔ڈُوبے نیا آس کی یا لگ جائے پار
آنسو‘سپنے‘بے بسی‘ چاہت‘تتلی‘دھول۔جیون تیرے باغ کے رنگ برنگے پھول
سکھ ہو یا غم اگر دو دل یک جان ہوتے ہیں تو ان کو سہارنا آسان ہوجاتا ہے مگر تنہائی خوشی اور غم دونوں کی دشمن ہے۔نہ تو غم اکیلے قابل برداشت ہے ‘اور نہ خوشی تنہا کاٹنے کی چیز ہے۔
ہر غم ہنس کر جھیلتی تم ہوتے گرساتھ
کاٹے تو کٹتی نہیں تنہا خوشی کی رات
 کہا جاتا ہے انتظار موت سے بد تر ہوتاہے۔انتظار کی گھڑیاں جان لیوا ہوتی ہیں۔
سمجھاؤں تو رو پڑے دل ایسا نادان۔ساجن گھر کب آؤگے پاکن لگ گئے دھان
حسن کا جادو جب چلتا ہے اچھے اچھوں کی پالکی دھری رہ جاتی ہے ۔ سندرتا اس طرح منتر مگدھ کر دیتی ہے کہ زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ایک بار جب حسن کی جلوہ ریزی سرشار کر دیتی ہے تو اس کا اثر زندگی بھر رہتا ہے ۔اس لئے کہ حسن کا روپ انوپ اورانیک ہوتا ہے ۔نہ جانے کس روپ میں جلوہ فگن ہو جائے۔
میں نے سندرتا دیکھی تھی اک بار۔روشن ہے اب تک مرے سپنوں کا سنسار
موتی‘جگنو‘ کہکشاں‘ خوشبو‘ تتلی‘ پھول۔تو ساگر اک روپ کا باقی سب کچھ دھول
مکھڑا تیرا چاند سا اجیارا پھیلائے۔آنکھیں تیری جھیل سے جو ڈوبے کھو جائے
کسی شاعر نے کہا ہے    ؎   میں گلستاں میں گیا گویا دبستاں کھل گیا
مگر شمیم انجم کا خیال ہے   ؎
کون آیا تھا جھیل پر کرنے کو اشنان۔تٹ کو بخشا مرتبہ پانی کو سمّان
شمیم انجم وارثی کی سوچ دنیا سے نرالی ہے ان کی اپنی ہے    ؎
 پنچھی‘پودے‘پھول‘پھل پت جھڑ‘ پون بہار۔ماٹی اس جگ میں تیرے کتنے رشتے دار
تنہائی کی کلفت کیا ہوتی ہے ‘ہجر کے جذبات و احساسات کیا ہوتے ہیں‘ایک تنہا ذات کس طرح خوف و ہراس اور کرب میں جیتی ہے اس کا اندازہ کرنا ہوتو شمیم انجم وارثی کے یہ دوہے دیکھیے:
تجھ کو لکھوں ساجنا کیا کیا من کی بات۔کمرے کی تنہائیاں یا برہا کی رات
ساجن تم سے کیا کہوں پیاسے من کی بات۔میں پیاسی ہی رہ گئی بیت گئی برسات
بن ساجن کے ری سکھی کچھ نا ہم کو بھائے۔پپیہا کی بولی مرے من میں آگ لگائے
کاگا چھت پر بیٹھ کر دیتا ہے پیغام۔پی نہیں آئے ڈھل گئی آشاؤں کی شام

میں گُھٹ کر مرجاؤں گی ساون بیت نہ جائے۔ساجن تیری آس میں نین گئے پتھرائے 
حالانکہ محبوب یہ چاہتا ہے کہ :اپنے رنگ میں ساجنا مجھ کو ایسا رنگ۔انت سمئے تک چھوٹے نہ تیرا میرا رنگ 
        ساجن کی اہمیت ہے اور ساجن کے بغیر سجنی کی کیا حیثیت ہے یہ دیکھیے:
ساجن سونی مانگ میں تو سندور کا رنگ۔تجھ بن میری زندگی جیسے کٹی پتنگ
       لیکن جب ساجن کے گھر سے بلاوا آتا ہے تو پھر اس وقت کا حال مت پوچھیے: 
 جلدی جلدی ری سکھی کر سولہ سنگار۔دروازے پر ہیں کھڑے ڈولی لئے کہار
تہذیبی ترقی کے سارے دعوے کھوکھلے ہیں کیونکہ گاؤں ہو یا شہر آج بھی ناری ابلا ہے اور پگ پگ پر راون اس کی تاک میں ہے :
جگ میں رکھنا سائیاں مجھ ابلا کی لاج۔ہر بستی ہر گاؤں میں ہے راکشش کا راج 
اگر ایک طرف عصمت کی حفاظت مشکل ہے تو دوسری طرف جہیز کا دانو منہ پھاڑے کھڑا ہے   ؎
میکے سے لے آئی تھی مٹھی بھر کرساتھ۔لیکن اب میںجاؤں گی خالی واپس ہاتھ
           سماج میں کتنی گراوٹ آگئی ہے اس کا اندازہ آپ اس طرح کرسکتے ہیں  ؎
ڈورے ڈالیں پیار کے‘ ٹیچر نا معقول۔کیسے جاؤں چھوڑنے بچوں کو اسکول
بچہ مزدوری سے نجات‘ہر ہاتھ کو کام اور ہر کھیت کو پانی کا سرکاری دعویٰ کتنا کھوکھلا ہے‘ملاحظہ ہو:
مزدوری کرنے گئے بچے خالی ہاتھ۔بھوک تھکاوٹ بے بسی لے کر لوٹے ساتھ 
       غربت نے اس موڑ پر لاکر چھوڑ دیا ہے کہ اسے بیان بھی نہیں کیا جا سکتاہے:
تجھ کو لکھوں ساجنا کے گھر کے حالات۔بچوں پر پڑنے لگے غربت کے اثرات
         شمیم انجم وارثی کی نظروں میں مندر و مسجد کا کھیل سیاست کا ہے‘ملاحظہ ہو:
مندر‘ مسجد توڑ کر تم کیا لیو بنائے ۔دھرتی بولی چیخ کر بند کرو انیائے
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ شمیم انجم وارثی کی نظروں میں پورا معاشرہ اور اس کا سماجی و سیاسی نظام ہے۔ حالاتِ حاضرہ سے وہ پوری طرح آگاہ ہیں اور ان سے ہی انھوں نے اپنے دوہے کے مضامین و موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔شمیم انجم وارثی نے اپنے دوہوں کو کامیاب بنا نے کے لئے دوہوں کا مقبول آہنگ روا رکھا ہے اور ان کے دوہوں کا لب و لہجہ خالص ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا اشاریہ ہے۔ وہ چاہیں بھی تو اس سے نجات حاصل نہیں کرسکتے کہ دوہوں میں دلکشی اور نغمگی شیرینیت اور اثر آفرینی کے لئے اس لہجے اور زبان کو اپنانا بے حد ضروری ہے کہ اس زبان میں اپنا پن ہے اور خلوص اور یگانگت کا جذبہ ہے اور قربت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے دوہوں کی زبان کو ہم نہ تو سنسکرت آمیز ہندی کا نام دے سکتے ہیں اور نہ ہی خالص اردو کا۔ان کی زبان وہی ہندوستانی زبان ہے جس میں گنگا جمنی کلچر لہراتا ہے جو ہندوستان کی لنگوا فرینکا ہے۔ دوہوں کی لفظیات سے اس کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ دوہوں میں مستعمل الفاظ کی ایک جھلک دیکھ لیں۔
روپ‘انیک‘کرپا‘اپرم پار‘جگ‘کرتار ‘پالن ہار‘انگن‘ تتر بتر‘ بکھان‘ اوتار‘جیوں‘ سکھ‘دکھ‘پتوار‘سندرتا‘ سپنوں ‘سنسار‘پاکن‘ دیہاتی ‘مور‘پریتم‘ شبدوں‘ دیپ‘ بھیڑ‘من‘ برہا‘ اشنان‘تٹ‘ساگر ‘دھول‘ پنچھی‘پودے‘پت جھڑ‘پون‘ماٹی‘جگ‘انت‘سمئے‘ سنگ‘ راج پاٹ‘تیاگ‘سکھی‘ابلا‘لاج‘راکشش‘راجہ‘ دھوپ‘چھاؤں‘ بھاگ‘سنجوگ‘ کاگا‘آشا‘ گوری‘گاؤں‘ لیو‘انیائے‘سنگھار‘ ڈولی‘کہار‘مسکان‘مکھڑا ‘اجیارا‘ چندا‘ دیپک‘نین ‘پردیش‘درپن‘باجے ‘بالم،دالان‘پگ پگ‘پل ۔ 
ان الفاظ کی جگہ اگر خالص اردو الفاظ کا استعمال کیا جاتا تو دوہے کے آہنگ اور لہجے کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا تھا اور نہ ہی اثر آفرینی کی جاسکتی تھی۔ اس کے علاوہ ان الفاظ کے استعمال نے دوہے کو زمینی بنادیا ہے۔اور ہندوستانی دیہی مٹی کی بو باس اور قربت کا احساس پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ان کے استعمال سے موسیقیت بھی پیدا ہوئی ہے اور مناظر کی تصویر کشی میں ان الفاظ نے جو رنگ آمیزی کی ہے اس کا بدل دوسرے الفاظ کے ذریعہ ممکن نہیں تھا۔بعض اوقات بولی ٹھولی کو بھی شعریت میں ڈھالنے میں کامیابی سے ہم کنار ہوئے ہیں۔ انگریزی اور بعض عربی و فارسی الفاظ کے استعمال سے چوکے بھی نہیں ہیں بلکہ ان کو بڑے سلیقے سے اپنے دوہوں میں کھپا یا ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شمیم انجم وارثی کی دوہا نگاری یعنی برج بھاشا اور اودھی کی روایت کے قریب نظر آتی ہے اور ہونا بھی چاہئے کہ دوہا کی یہی انفرادی شناخت ہے۔
اس لحاظ سے ان کے دوہے فراز حامدی کے دوہوں سے الگ ایک نئی راہ بناتے ہیں۔ البتہ تیرہ گیارہ ماترااور وشرام کے تعلق سے دوہا کے فن کے جو تقاضے ہیں اس میں فراز حامدی کے اثرات سے انکار کی گنجائش نظر نہیں آتی۔
شمیم انجم وارثی کے دوہے خیال‘زبان اور انداز بیان کے لحاظ سے ان کے اپنے ذہن کی اُپج معلوم ہوتے ہیں اور یہی دوہا نگاری میں ان کا انفراد ہے۔
٭٭٭


Post a Comment

Previous Post Next Post