غزل
سعید رحمانی
قلم جب کھینچتا ہے آپ کی تصویر کاغذ پر
نظرآتی ہے جلتے خواب کی تعبیر کاغذ پر
سمولیتا ہوں لفظوں میں جو اس کے چاند چہرے کو
بکھر جاتی ہے اس کے حسن کی تصویر کاغذ پر
بصیرت کی حویلی کے چمک اٹھتے ہیںبام و در
اجالا کر رہی ہے نور کی تحریر کاغذ پر
قلم انصاف کا اس وقت ہے قاتل کے ہاتھوں میں
رقم ہو جائے گی معصوم کی تقدیر کاغذ پر
یہی دو چار غزلیں ہی فقط میراث ہیں اپنی
چلو ہم سینت رکھیں شعر کی جاگیر کاغذ پر
سعیدؔ اپنی غزل جب سے ہوئی لفظوں کا آئینہ
ابھر آئی ہے دل کے درد کی تاثیر کا غذ پر
Post a Comment