شمیم انجم وارثی کا شعری کینوس

خاور چودھری(پاکستان)



شمیم انجم وارثی کا شعری کینوس

شعری کا ئنات ِ ذات کا بہترین اظہاریہ ہے۔جذبات و احساسات کی ترسیل وتفہیم جس خوش سلیقگی کے ساتھ اس ذریعے سے ممکن ہے کوئی دوسرا وسیلہ اس مقام تک نہیں پہنچ پاتا ۔شاعری طویل زمانے تک مذہب میں داخل رہی اور اسے شیوۂ پیغمبری کہا گیا۔یوں اس کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ شاعری فی نفسہٖ ایک بلند ترین شے ہے ‘جس کے ذریعے سے معاشروں میں انقلاب برپا کیا گیا‘اس کے ذریعے قوموں کو اپنے پیمانے اور سانچے میں ڈھالاجا سکتا ہے اور اس سے وہ کام لیا جاسکتا ہے جو بالعموم مشکل سمجھا جاتاہے۔ تاریخِ عالم میں شعر کی اس طاقت کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔افلاطون شعر کی اس طاقت کے ادراک کے بعد ہی اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کے ’’عالمِ مثال‘‘میں شاعر کا وجود خطرناک ہے۔ وہ شاعر کی الہامی قوت کا معترف ہو کر ہی گویا ہوا تھا۔ شاعر ایک لطیف الجبلت‘پرواز کی طاقت رکھنے والی اور مقدس ہستی ہوتا ہے اور وہ کوئی چیز تخلیق نہیں کر سکتا جب تک کہ اس پر ایک الہامی قوت کا قبضہ نہ ہو جائے اور اس کے حواس یکسر زائل نہ ہوجائیں ۔خدا شاعروں کے دماغ معطل کر دیتا ہے اور پھر انھیں اپنے پیغمبروں کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ شیلے نے شاعرانہ مقام کی یوں تفہیم کی ’’شاعری فی الحقیقت ایک ملکوتی و جبروتی چیز ہے اور شاعر ایک بالاتر از فہم الہام کے وہ مفسر اور نوعِ انسانی کے وہ معلم ہوتے ہیں جو غیر مرئی دنیا کی قوتوں کے ایک کشفی ادراک کو حقیقت و جمال کے احساس سے وابستہ کر کے مذاہب کی داغ بیل ڈالتے ہیں۔ان مثالوں سے شعر اور شاعر کا مقام واضح ہوجاتا ہے۔ 
شعر کیا ہے؟ یہ سوال مختصر ہے لیکن اس کا جواب بہت طویل ہے اور یہاں اس تفصیل میں جانا بھی غیر ضروری معلوم ہوتاہے‘البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شعر خیالات کا لطیف پیکر ہے ‘جسے سالم وجود کے ساتھ دیکھا‘پرکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس کی داخلی اور خارجی صورت ایک منظم نظام کے تحت ظاہر ہوتی ہے۔چنانچہ اس کے وجود کا الگ الگ تجزیہ اس لطافت کو گہنا دیتا ہے۔جس طرح صبح کی کرنوں سے جھلملاتا بلوریں شبنمی قطرہ ایک جھلک میں کئی رنگ نمایاں کرتا ہے اور اس کا ہر رنگ حسن بکھیرتا ہے ‘یوں ہی شعر کا عالم ہے۔اگر اُس شبنمی قطرے کو چیر کر پرکھنے کی کوشش کی جائے تو یقینا اس کا حسن ماند پڑ جائے گا اور اس کا بکھرا ہوا وجود رعنائی سے محروم رہ جائے گا۔

جہاں تک شعری ہئیتوں اور اصناف کا تعلق ہے تو انھیں طبیعتوں کے 
ارتقا اور تغیر کی صورت میںدیکھاجاسکتاہے۔ہر مخترع اپنی اصل میں ایک نئے جہان کی تلاش میں نکلا اور اس کے تجربوں اور مشاہدوں سے ایک نئی دنیا تعمیر ہوئی۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور جب تک شعورِ ذات کا احساس سلامت رہے گا شعری پیکر میں تبدیلیاں رونما ہو تی رہیں گی ۔دوسری بات تہذیب و تمدن سے جُڑی ہے۔ہر معاشرہ اپنے الگ پیمانے رکھتا ہے۔چنانچہ ہمارے سامنے مغرب و مشرق کی شعری ہئیتوں کا واضح فرق نمایاں ہوتا ہے۔ اہل اردو نے عرب و فارس کے شعری قرینوں کو خاص نسبت کے با وصف اختیار کیا اور پھر ہندی سانچے بھی ہمارے مزاج سے ہم آہنگ اور پوری طرح اس میں رچے ہوئے تھے ۔ مغربی اصناف سمیت جاپانی ہئیتوں کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا گیا۔اور کئی لوگوں نے اس میں کامیابیاں بھی حاصل کیں۔خصوصاً ایک زمانے تک سانیٹ اورترائیلے کے علاوہ آزاد نظم اور نظم ِ معراکا جادو چمکا کیا ۔پھر ہائیکو نے خوب رنگ جمایا۔ آزاد نظم‘نظمِ معرا اور ہائیکو تو اب بھی مقبول ہیں۔ ان کے ساتھ جس صنف نے اپنا مقام بنایا وہ ’’دوہا‘‘ ہے ۔اس کی جڑیں پراکرت میں پیوست ہیں۔ اُردو میں بھاشا کے وسیلے سے آنے والی اس صنف نے ہر زمانے میں عوام و خواص کو متاثر کیا ۔بادشاہوں سے لے کر جوگیوں تک ہر مقام پر اس کا وجود چمکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ناموں کی ایک کہکشاں ہے جو آنکھوں کو منور کرتی ہے ۔سبدِ گل ہے جس سے شش جہت معطر ہے۔ انہی میں سے                                          ایک نام شمیم انجم وارثی کا ہے۔ان کی شاعرانہ حیثیت مسلم ہے۔انھوں نے بیک وقت کئی شعری اصناف میں اپنا مافی الضمیرکامیابی کے ساتھ بیان کیا اور خصوصیت کے ساتھ دوہا کو اپنے جذبات و احساسات کی ترسیل کا پیمانہ بنایا۔وہ شاعروں کی اُس لڑی میں سے ہیں جس نے فن کو زندگی سے جوڑ دیا ہے۔ زندگی اور اس کے متعلقات پوری فن کا رانہ مہارت کے ساتھ ان شاعروں کے کلام میں نمایاں ہیں۔
جہاں تک اُردو دَوہے کے نشاۃِ ثانیہ کا تعلق ہے خواجہ دل محمد کواس سلسلے میں اولیت حاصل ہے۔اُن کا مجموعہ’’پیت کی ریت‘‘چالیس کی دہائی میں سامنے آیا۔ اس کے بعد نئے شاعروں کی بو قلمونیاں ہیں ‘جنھوں نے ہمارے آج کو منور کر رکھا ہے۔ دوہے میں ہئیتی اور صنفی تجربوں کی بنیاد پر ڈاکٹر فراز حامدی کو ’’مجتہد العصر‘‘ کا مقام حاصل ہے اور ان کے ہم رکاب ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی ہیں۔ ان صاحبان کی مساعی جمیلہ کے صدقے میں ہی دوہا کو نیا آہنگ اور وقار ملا۔شمیم انجم وارثی اُن 
خوش نصیب شاعروں میں شامل ہیں۔ جو اس وقار میں اضافے اور ضوفشانی کا سبب بنے ہیں۔ان کا مجموعہ’’پنگھٹ پنگھٹ پیاس‘‘اس سلسلے کا ایک زندہ حوالہ ہے۔ 
شمیمؔ کہنہ مشق شاعر ہیں۔اُن کے یہاں فن پوری آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہوتا ہے۔ ہئیت اور صنف کے تناظر میں ان کی شمولیت محض نام وَری کے لئے نہیں بلکہ انھوں نے اپنے شعری جذبوں کو مختلف سانچوں میں اپنی طبیعت کے بہاؤ کے مطابق ڈھالا ہے۔ چنانچہ کسی بھی مقام پر اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ ’’دوہا چھند‘‘ کی شرط بجائے خود اپنی جگہ ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔کیونکہ اس مخصوص پیمانے اور اس کی خاص فضا کے اندر رہ کر بڑا مضمون پیش کرنا مشکل ترین کام ہے۔ یہی سبب ہے کہ اکثر دوہا نگاروں کے یہاں ایک سی فضا اور تکرار کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ اس کے بر عکس شمیمؔ کے یہاں تنوع اور تہداری کے رنگ جھلملاتے ہیں۔ انھوں نے محض خانہ پُری کے لئے ان تجربوں میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ انھیں ثروت مند بنانے کے لئے شاعرانہ ہنر کو برتا۔ فن اُن کے پوروں پر چمکتا اور ناخنوں میں دھڑکتا ہے۔ایک ایک مصرع ایک ایک بندش اور ایک ایک دوہا ان کی مہارتوں کا داستان گو ہے۔ان کے نزدیک شعر زندگی کی بہترین قدر ہے‘ اور اس کی حیثیت جسم میں دل کے مانند ہے۔چنانچہ وہ دل کی صفائی اور اس کی صحت کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں۔ جذبوں کی تہداری اور احساس کی بو قلمونی ان کے یہاں ایک خاص سلیقے اور آہنگ کے ساتھ نمایاں ہوتی ہیں اور دوہا چھند کی مخصوص پابندیوں کے با وجود کہنگی اور گہنگی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا ہے۔ روایت اور جدت سے جو فضا انھوں نے تشکیل دی‘وہ جدا بھی ہے اور خوش نما بھی۔اُن کا شعری کینوس وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ جذب و احساس کی رعنائیوں سے مملو بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ موجودہ منظر نامے میں الگ شناخت کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ 
شمیمؔ صالح و سلامت دل و دماغ کے مالک ہیں۔ان کے یہاں اقدار‘ اخلاقیات ‘مذہب اور تعلق باہم مربوط ہیں۔ زمین و آسمان کے باہمی رشتوں کی توقیر ان کے فن کابنیادی حوالہ ہے۔وہ کسی بھی مرحلے پر اس رشتے سے انکار نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ زمین کی کھیتی آسمان کے بیج سے بار آور ہوتی ہے۔ یوں ان کے یہاں مذہب و ملت ایک بنیادی حیثیت میں نمایاں ہوتے ہیں۔ ان کا حمدیہ ا ور نعتیہ کلام شہادت گزار ہے کہ وہ محض لفاظی کے قائل نہیں بلکہ پورے دھیان گیان کے ساتھ اس میدان میں اُترتے ہیں اور فن کارانہ مہارتوں کے ساتھ مودّت و عقیدت کی قندیلیں روشن کرتے چلے جاتے ہیں۔وہ معانی کی ترسیل کے لئے احتیاط کے ساتھ لفظوں کا انتخاب کرتے ہیں۔وہ پیش کردہ افکار کو اپنے دل و دماغ میں اُتار لینے کے بعد صفحۂ قرطاس پر بکھیرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں کوئی فکری ابہام دکھائی نہیں دیتا۔یہ مثالیں دیکھیے:
پھولوں کے لب کی صدا یارب تیری حمد۔پڑھتی رہتی ہے ہوایارب تیری حمد
میرا سونا جاگنا یارب تیری حمد۔لب پہ رہتی ہے سدا یارب تیری حمد
سورج‘چندا‘کہکشاں سب تیری توفیق۔اور تاروں کی ہے ضیا یارب تیری حمد
ٍ ان حمدیہ دوہوں میں بیان کی تازگی کے ساتھ احسا س کی ندرت بھی جلوہ نمائی کے ساتھ وارد ہے۔ یہاں قدرتِ کاملہ کی تسلیمات کا سلسلہ بھی ہے اور اُس سے اُبھرنے والے منظروں کی لطافت سے سرشاری کا احساس بھی۔پھر دوہا چھند کا اہتمام بجائے خود باعثِ لطف ہے ۔ان نعتیہ دوہوں کو دیکھیے جن میں خود سپردگی اور خود سپاری کے ساتھ ایقان و ایمان کی کیفتیں ٹھاٹیں مارتی ہیں:
مجھے اُڑا کر اے صبا‘لے چل تو اک بار۔جس نگری میں ہیں بسے ‘نبیوں کے سردار
ڈوبی کشتی پھر مری لگ جائے گی پار۔ ایک اشارہ آپ کا ہو جائے سرکار
سورج‘ چندا‘کہکشاں ‘حور و ملک سو بار۔صدقے جائیں دیکھ کر ‘حسنِ رُخِ سرکار
یہاں مودّت کے جگنو چمکتے ہیں تو چمکتے ہی چلے جاتے ہیں۔شمیم ؔ کے نعتیہ دوہے اُ ن کی مذہبی تربیت اور شخصی عقیدت کا آئینہ دار ہیں۔انھوں نے جی جان سے اس مضمون کو پیش کیا اور نعت کی فنی روایات کی پاسداری کے ساتھ ساتھ اس میں تازگی اور رعنائی کا بھی اہتمام کیا۔
شمیمؔ ڈاکٹر فرازحامدی کے تجربوں میں جی جان سے شامل ہوئے ہیں۔ انھوں نے دوہا غزل‘ دوہا غزل نما‘ دوہا گیت‘ دوہا مثلث‘ دوہا قطعات‘دو ہا دو بیتیاں‘ دوہا معرا‘ شخصیاتی دوہے اورکُرجاں دوہے میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انھوں نے ہئیتوں اور مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہونے کے بعد اپنی تخلیقات پیش کیں۔ان کے گیتوں میں گیت کا رس جس پوری طرح سے چھلکتا ہے ‘بے ساختگی اور شگفتگی نے ان کے گیتوں کو جہاں روایت سے جوڑا ہے‘ وہاں انھوں نے ندرت کی شمع بھی روشن کردی ہے۔جو مسلسل روشنی بکھیرتی چلی جاتی ہے۔سادگی و تاثیران کے دوہا گیتوں کا خاص اشاریہ ہے ۔یہ مثال دیکھیے:
ہر ناری کا دھرم یہ ہر ناری کی ریت
پی ہاریں تو ہار ہے پی جیتیں تو جیت

تُو میرا اک آئینہ‘میں تیری تصویر
تو چندا میں چاندنی تو رانجھاؔ میں ہیر ؔ
تجھ سے ہو کر دور میں رہتی ہوں دل گیر

تو ہی من موہن مرا‘تو ہی من کا میت
ہر ناری کا دھرم ‘یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نندیا روٹھی نین سے ‘دل سے روٹھا چین
کاٹے اب کٹتے نہیںبرہا کے دن رین

سکھیاں پوچھیں جب تجھے ‘بھر بھر آویں نین
ہر ناری کا دھرم‘یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیرے آنے کا سنوں جب جب گھر میں شور
خوشیوں کے بادل گھرے‘ناچے من کا مور
سورج جب ڈھلنے لگے ہو جائے من تھور
بن آتی ہے جان پر بالم تیری پریت
ہر ناری کا دھرم ‘یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں گیت کی لطافت کے ساتھ ساتھ گیت نگاری کے جملہ لوازم کا برتاؤ واضح ہے۔شمیمؔ کے گیتوں میں خوش رنگی بھی ہے اور ہمہ جہتی بھی۔ان کے گیت جذب واحساس کی بھٹی میں سلگ کر چمکے ہیں۔ ان گیتوںمیں برہن کا بین بھی ہے اور سنجوگ کا نغمہ بھی۔ جو اس بات کا مظہر ہے کہ شاعر نے فنی مہارتوں کو پوری دیانت داری کے ساتھ برتا اور قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ ان کے گیتوں میں ایک دھیمی آنچ ہے جو مسلسل سلگتی ہے اور قاری کے دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔شمیمؔ کے گیت جذبوں کی صداقت اور احساس کی رعنائی سے مملو ہیں۔شمیم ؔنے’’دوہا غزل‘‘ کہہ کر بھی خوب داد سمیٹی ہے ۔ان کی دوہا غزلیں ‘غزل کی روایت کی امین ہیں۔ کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے:
عشق کہوں الفت کہوں یا پھر اس کو پیار۔تو میرا کردار ہے‘ میں تیرا کردار
تجھ کو پسند ہے دل لگی‘مجھ کو عشق کی بات۔تو مجھ سے بیزار ہے‘ میں تجھ سے بیزار
تو ساگر ایک پریم کا ‘میں اُمید کی ناؤ۔ہم دونوں کے بیچ ہے سچائی۔۔۔۔۔۔پتوار
ڈھیلے آئیں پیار کے یا نفرت کی اینٹ۔جس کے آنگن پیڑ ہو جب کوئی پھل دار
شمیمؔ ’’غزل نما‘‘ کے تجربے میں بھی شامل ہوئے۔تجربے کا مقام اپنی جگہ لیکن عمومی فضا سے ہٹ کر تغزل کا ہلکا رنگ بھی دکھائی دیتا ہے ۔ورنہ ایسے تجربوں سے غزلیت بالعموم ماند ہوئی۔ 
بادل برسا ٹوٹ کر آنکھیں ہوئیں چناب
بکھرا من کا خواب
آنے کو تم کہہ گئے لیکن صد افسوس
آئے نہیں جناب
دستک دے کرتھک گیا دروازے پر یار
آیا نہیں جواب
تو بھی میرے پاس ہے میںبھی میرے پاس
سہما رہا گلاب
یوں بن آئی جان پر ‘تشنہ لبی شمیمؔ
پینا پڑی شراب
اس ’’دوہا غزل نما ‘‘سے اگر غزل کی سی تاثیر کی توقع رکھی جائے تو یہ عبث ہوگا۔ کیونکہ غزل میں کئی تجربوں کے بعد غزل اپنی پوری شان کے ساتھ موجود ہے۔البتہ کچھ ذائقہ بہ ہر حال غزل کا موجود ہے۔شمیمؔ کی ’’دوہا دو بیتیاں ‘‘بھی پُر لطف ہیں۔انھوں نے اس ہئیت میں بھی اپنی مہارتوں کا ثبوت پیش کیا ہے‘ایک نمونہ دیکھیے:
میں اپنے پی سے ملی‘سپنے میں کل رات
لیکن پی خاموش تھے‘ہو نہ سکی بات
میں جب لوٹی نیند سے ہو گئی تھی بیدار
کاش کہ میں ہوتی سدا،’’کرجاں‘‘پی کے ساتھ
’’کرجاں‘‘راجستھان کا ایک پرندہ ہے۔جسے ہجر کے موسم میں پیغام رسانی کا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔جس طرح کاگ کے بارے میں خیال ہے کہ وہ پی کا سندیسہ لے کر آتا ہے۔یہی حیثیت کرجاں کو حاصل ہے۔ دو بیتی متروک ہیئت ہے۔ اب دوہا چھند کے تجربوں کے باعث اسے بھی دھو منجھ کر ادب کے نئے قاری کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ایک طرح سے یہ بھی اہمیت کی بات ہے۔اسی طرح ’’مثلث ‘‘بھی ماضی کے خزینوں کا حصہ تھی۔حمایت علی شاعر کے علاوہ کچھ شاعروں نے اس جانب توجہ دی اور نئے منظر نامے میں دوہا چھند کے ساتھ اس کاظہور بھی ادب کے طالب علموں کے لئے اہم ہے۔ شمیمؔ نے دوہا مثلث میں خوب رنگ جمایا ہے۔ایک مثال دیکھیے:
سُکھ دُکھ دونوں ایک ہی جیون کے دو رنگ 
دُکھ بھی اپنے ساتھ ہے سُکھ بھی اپنے سنگ
لیلا اُس کی دیکھ کر سب کے سب ہیں دنگ
اس مثلث میں دوہے کی مخصوص فضا پوری طرح رچی ہوئی ہے ۔وہی مضمون جو دوہے سے خاص ہے ‘وہی اندازِ بیاں جو دوہے کی پہچان ہے ۔شمیمؔ کے دوہا مثلث عمدگی اورتاثیر کا نمونہ ہیں۔انھوں نے روایت سے ایک جست آگے بڑھ کر اس میدان میں ہنر آزمایا ہے۔
’’پنگھٹ پنگھٹ پیاس‘‘کا اصل حصہ دوہوں پر مشتمل ہے۔شمیمؔ نے دوہے کے مزاج ‘منصب ‘تاثیر اور لطافت کو سربراہ کرتے ہوئے دوہے کہے ہیں۔ان کے یہاں دوہے کے تمام مروجہ مضامین اپنی پوری قوت اور رعنائی کے ساتھ نمایاں ہوتے ہیں۔ انھوں نے مذہب‘اخلاقیات‘علم و عمل‘ پند و نصائح‘عصری مصائب و مسائل سمیت انسانی زندگی کو در پیش اکثر مضامین کو اپنے دوہوں کا حصہ بنایا اور فن کارانہ سطحوں کا پورا لحاظ رکھا۔انھوں نے دوہے کے بحر‘اس کے لوازم اورماترائی ڈھانچے کی سلامتی کا احساس کیا۔ چوبیس ماتراؤں کے حامل ان کے 
دوہے ہنر مند ہاتھوں سے نکل کر سامنے آئے ہیں۔بالعموم وشرام مکمل ہے اور خال ہی شکستِ لفظی کی فضا ہوتی ہے۔ اسی طرح پنکتی کے شروع میں جگن(فعول) کا عیب بھی کم کم ہے اور دوہے کا ہرمصرع یک حرفی اختتام کا حامل ہے۔اس سے شمیم ؔ کی فن کارانہ قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔دوہے میں جہاں تیرہ گیارہ ماتراؤںکی ترتیب لازم ہے‘ وہاںجگن اور وشرام کے ضمن میں بھی احتیاط ضروری ہے۔ ’’پنگھٹ پنگھٹ پیاس ‘‘میںیہ تمام چیزیں بدرجۂ اُتم موجود ہیں اور شاعر کی کامل دست گاہ کا پتا دیتی ہیں۔کچھ مثالیں ملاحظہ کیجیے:
میں نے سندرتا تری‘ دیکھی تھی اک بار ۔روشن ہے اب تک مرے سپنوں کا سنسار 
میں دیہاتن گھومنے پہنچی سن کے شور۔کلکتے کی بھیڑ میں ساجن کھو گئے مور
میں تنہا کب تک لڑوں تنہائی کی جنگ۔تیری آس میں اُڑ گئے‘ہاتھوں سے مہندی رنگ
موتی جگنو کہکشاں‘خوشبو تتلی پھول۔ تُو ساگر اک رُوپ کا باقی سب کچھ دھول
دونوں جگ میں ہے وہی سب سے بڑا امیر۔راج پاٹ سب تیاگ کے جو بن جائے فقیر
شمیمؔ انجم وارثی دوہا نگاروں کے اُس قبیلے کے فرد ہیں‘جس کے                                               ہاتھ میں تیشۂ فرہاد ہے اور جوئے شیر لانے کی دھن ہے۔اس قبیلے میں دوہے جیسی متروک صنف کو سینے سے لگا کر نئی زندگی ہی نہیں عطا کی بلکہ اسے کئی زاویوں سے نکھارا اور سنوارا بھی ہے۔اسی قبیلے کی کوششوں اور کاوشوں سے دوہا مقبولِ عام ہے۔اس قبیلے کی یہ ادب دوستی تاریخِ ادب میں ایک خاص حوالے سے زندہ رہے گی  ’’پنگھٹ پنگھٹ پیاس‘‘دوہا کی سبدِ گل میں ایک خاص رنگ کے ساتھ موجود ہے‘جو پُرکشش بھی ہے اور عطر بار بھی۔ اس مجموعے میں شامل تجربے سے بھی ادب کے قاری کو عصری رجحانات کا اندازہ ہوتا ہے۔خصوصیت کے ساتھ دوہے میں ہیئتی اور صنفی تجربوں کے تناظر میں اس مجموعے کا خاص مقام ہے۔ اس پس منظر میں شمیمؔ انجم وارثی کی یہ کتاب لائقِ توجہ رہے گی۔ ٭٭٭

Post a Comment

Previous Post Next Post