غزل
سعید رحمانی
بچت کی کوئی بھی صورت نہیں ہے گوشوارے میں
چلا کرتی ہے گاڑی زندگی کی اب خسارے میں
عنایت دوستوں کی تول کر دیکھی نہیں میں نے
حساب اس کا مگر محفوظ ہے دل کے سپارے میں
ایڈیٹر نے لکھا ہے خط میں سالانہ رقم بھردیں
غزل آجائے گی پھر آپ کی اگلے شمارے میں
غزل میں ہے دھنک کے سات رنگوں کا حسیں منظر
انوکھی دلکشی ہے کار فرما استعارے میں
کہاں تک ہم بچائیں سعیدؔ اپنے سفینے کو
نہیں ہے فرق جب کوئی بھنور میں اور کنارے
Post a Comment