تابوت میں آخری کیل

سید قمر عالم طلعتؔ

Kashana
PumpHouseRoad
GuruNanakChowk
Torwa.Bilaspur-495004(C.G)

             تابوت میں آخری کیل

’’ہوٹل فردوس‘‘ چاندنی چوک میں ایک مشہور ہوٹل تھا۔یہاں کے قیمے کے سموسے بہت کشش رکھتے تھے۔ شام کو جیسے ہی پہلا سموسہ تیل میں پڑتااس کی مہک ہوٹل سے باہر آتے ہی لوگ ہوٹل میں داخل ہونا شروع ہو جاتے۔
میں اس دن ہوٹل میں داخل ہوا تو ساری جگہیں بھر چکی تھیں۔ کچھ لوگ تو کاؤنٹر کے پاس ہی ہاتھوں میں پلیٹ لئے کھا رہے تھے ۔میں نے نگاہ چاروں طرف دوڑائی تو ایک گوشے میں ایک شخص چائے پی رہا تھا ۔ایک خالی کپ اس کے آگے رکھا تھا۔ میں اسی طرف بڑھا اور اجازت لے کر سامنے کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ بیرے سے سموسے اور بعد میں چائے لانے کو کہا۔
سموسے آتے ہی میں اس پر ٹوٹ پڑا اور کھانے میں کچھ ایسا محو ہوا کہ سامنے والا کب اٹھ کر چلا گیا خبر ہی نہیں ہوئی۔ہاں اس کے سامنے ٹیبل پر چابیاں پڑی تھیں میں نے اُٹھا کر دیکھا یہ بینک کے لاکر کی چابیاں تھیں۔میں اِدھراُدھر دیکھا وہ آدمی کہیں نظرنہیں آیا۔میں لپک کر باہر بھی نکلا لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ میں نے لوٹ کر چائے ختم کی اور کاؤنٹر پر جا کر بل ادا کیا اور ہوٹل سے باہر نکل گیا۔ سوچا اب کل ہی بینک جا کر پتہ کروں گا۔
دوسرے دن بینک گیا ۔میرے قدم بینک منیجر کے روم کی طرف بڑھ رہے تھے کہ خیال آیا کہ کیوں نہ تالا کھول کر دیکھا جائے ‘ لاکر میں ایک چابی لگائی جو نہ لگی‘ پھر دوسری چابی آزمائی جو گھوم گئی‘لیکن لاکر بند ہی تھا ‘پھر پہلی والی چابی لگائی لاکر کھل گیا۔دراز کھینچی تو لاکر میں نوٹوںگڈیاں بھری پڑی تھیں۔میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ میں نے خود کو سنبھالا۔اس میں ایک ڈائری بھی رکھی ہوئی تھی میں نے اسے اُٹھالیا ۔لاکر دونوں چابیوں کی مدد سے بند کر دیااور ڈائری لے کر باہر آگیا۔ویٹنگ روم میں لوگ بیٹھے ہوئے تھے میں بھی ایک طرف بیٹھ گیا اور ڈائری کی ورق گردانی کرنے لگا۔
لکھا تھا’’محترمی السلام علیکم !میرے خیال میں لاکر کی چابی غلط ہاتھوں میں نہیں پڑی۔اس میں ایک بڑی رقم ہے جو میری بیٹی ناہید پرویز کے لئے ہے ۔اسے اس کے حوالے کردیںجس کا پتہ نیچے درج کر رہا ہوں۔
در اصل ناہید نے اپنی زندگی کا ساتھی ایک غریب دوست کو بنا نے کی سوچی تھی جو ریلوے میں نوکر تھا‘مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن میری اہلیہ اس کے 
خلاف تھیں۔میں نے بہت کوشش کی لیکن وہ کسی طرح تیار نہیں ہوئیں۔اخیر میں 
انھوں نے ایک شرط رکھی کہ شادی آپ کردیں لیکن رخصتی کے بعد وہ میرے لئے مر چکی ہوگی اور کبھی میرے گھر نہیں آئے گی بلکہ میں بھی آپ کا گھر چھوڑ کر مائیکہ چلی جاؤں گی۔میں نے اس تبدیلی کو غنیمت سمجھا ‘بارات آئی ‘نکاح ہوااور رخصتی ہوگئی ۔رخصتی کے وقت ناہید کو ایک طرف سے میں اور دوسری طرف سے میرے لڑکے راشد نے پکڑا‘اہلیہ نے دور کھڑی خشک آنکھوں سے بیٹی کی طرف دیکھا اور دوڑ کر اندر چلی گئیں۔دوسری شرط کے مطابق اپنے لڑکے کو لے کر مائیکہ چلی گئیں ۔میرا بزنس ریاض میں تھا لہٰذا میں بھی چلا گیا۔سال میں ایک دو بار وطن آتا تو ناہید سے ملتا وہ لوگ اب ریلوے کوارٹر میں شفٹ ہو گئے تھے۔راشد بھی کبھی کبھی بہن سے ملنے جایا کرتا تھا۔ بڑی مشکل سے بیوی اور لڑکے کو گھر لے آیا اور۔پھر راشد کی شادی بھی ہوئی لیکن ناہید کو شریک نہ کیا گیا۔ ناہید کے دو لڑکے بھی ہوئے‘حسن پرویزاور حسین پرویز۔میں جب جاتا ناہید کو کچھ دینے کی کوشش کرتا لیکن وہ کبھی کچھ لینے کو رضامند نہیں ہوتی۔
چونکہ اب میری عمر زیادہ ہو گئی تھی اس لئے سوچا کہ ریاض سے بزنس سمیٹ کر وطن آجاؤں۔بہر کیف یہ میری آخری خواہش ہے کہ یہ رقم لے کر ناہید اپنے بچوں کے شب و روز سنوارنے لگے ۔کاش یہ کام خدا آپ کے ہاتھوں سے کرا دیتا‘‘۔
میں ڈائری اور چابیاں لے کر ناہید کے کوارٹر پر گیا ۔ناہید نے دروازہ کھولا اور ایک اجنبی کو سامنے دیکھ کر ہٹ گئی۔
میں نے پوچھا:’’تم ناہید ہو؟‘‘ ’’ہاں!آپ کون ہیںاورکس سے ملنا ہے؟‘‘
اس نے پرویز کو آواز دی‘پرویز آئے اور ہمیں اندر لے کر چلے گئے۔ناہید بھی سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔بچے اسکول گئے ہوئے تھے۔پھر میری روداد سن کر اور ڈائری کو دیکھ کر وہ میرے ساتھ بینک آگئے ۔لاکر کھول کر میں نے دکھا دیا‘وہ دونوں تذبذب میں پڑ گئے۔وہ دونوں مجھے چھوڑ کر ایک طرف چلے گئے ۔میں نے لاکر بند کر دیا ۔دونوں میں کچھ ہاں نہیں کی بحث چل رہی تھی ۔بعد میں میرے پاس آئے ‘ پرویز بولا !
’’آج بھی دنیا میںآپ جیسے لوگ ہیں‘‘۔ پھرناہید کی طرف دیکھ کر بولا ’’کیوں نہ ابو کی یہ خواہش ہم پوری کردیں اور ان پیسوں سے اپنے اور اپنے بچوں کے شب وروز سنواریں‘‘
ناہید نے پرویز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’آخر ابو نے تابوت میں آخری کیل ٹھونک ہی دی۔اور میرے ہاتھ سے چابی لے کر پرویزکودے دی۔  
٭٭٭

Post a Comment

Previous Post Next Post