فرشتے

ایم۔ اے ۔احد

۷۳؍ستیہ نگر بھوبنیشور


             فرشتے


سراج نے کسی طرح میٹرک امتحا ن پاس کر لیا ۔اس کا پاس کر لینا بھی ایک معجزہ تھا۔ جس ماحول میں وہ پروان چڑھا وہاں پڑھنا لکھنا‘پاس کرنایا فیل ہونا وغیرہ کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔غریبی‘ مفلسی‘بے کاری کے ساتھ اس کے خاندان میں  جہالت کا راج تھا۔ سراج کا باپ محلّے کی مسجد میں جھاڑو لگاتا ‘جا نماز صاف کرتا‘صفیں بچھاتا اور کبھی کبھی اذان بھی کہہ دیتا اور اجرت کی صورت میں ایک قلیل رقم ملتی تھی جو اس کی کل آمدنی تھی ۔اس پس منظر میں سراج کے عزائم بالکل الگ تھے ۔کافی محنت کرے گا‘دل لگا کر پڑھے گا‘اچھی نوکری کرے گا اور گھر کی حالت اور اپنی زندگی کو بہتر اور خوش گوار بنائے گا ۔ماں باپ کو آرام پہنچائے گا اور اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دے کر اچھا انسان بنائے گا وغیرہ وغیرہ۔
لیکن تھرڈ ڈیویژن میں میٹرک پاس کرنے کے بعد سراج کو اپنا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔کہیں کوئی نوکری نہیں ملی۔دوڑ دھوپ کر کے ہار گیا۔ آخر باپ کی قلیل آمدنی سے کچھ نکال کر اپنی ہی گلی میں ایک چھوٹی سی پان کی دکان کھول لی ۔محنت کر کے پان کے مختلف مصالحے کے ردوبدل سے اس کے بنائے ہوئے پان کا ذائقہ بہت اچھا ہوگیا جس کی بنا پر اس کے پان کی شہرت بڑھنے لگی۔ وقت کی رفتار کے ساتھ سراج کی دکان بھی بڑھتی گئی۔اب اس کی دکان میں پان کے ساتھ سگریٹ بیڑی بھی ملنے لگی۔ پھر بسکٹ‘بریڈ چاکلیٹ وغیرہ بھی رکھنے لگا۔مزید توسیع کی تو کچھ اخبار اور رسالے بیچنے کا اہتمام کیا ‘اب دکان چل نکلی۔کاروبار کی توسیع کے ساتھ گاہکوں کی تعداد اور جان پہچان بھی بڑھنے لگی۔ چند دوستوں کے مشورے سے سراج نے لاٹری کا ٹکٹ بھی بیچنا شروع کر دیا ۔سو ٹکٹ اگر بیچتا تو اسے دس ٹکٹ کے پیسے کمیشن ملتے۔اس سے اس کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔
سراج کا دوست حیدبھی کچھ کر گزرنے کی دُھن میں تھا۔ حیدر کے والد کلکتہ میں ایک صابن کارخانے میں ملازم تھے۔مالی اعتبار سے حیدرکی حالت سراج سے بہتر تھی۔وہ میٹرک کے بعد کالج گیا مگر پلس ٹو پاس کر نہیں پایا۔ اسے بھی مایوسی اور بے کاری منہ چڑھانے لگی۔ کسی طرح کوشش کر کے بینک سے قرضہ لے کر اس نے ایک آٹو رکشہ خریدا۔آٹو سے اسے خاطر خواہ فائدہ ہونے لگا ۔بینک کی قسط ادا کرنے کے بعدبھی اس کی آمدنی اچھی خاصی رہی۔دن بھر آٹو چلاتا اور شام کو سراج کی دُکان پر بیٹھ کر دونوں دوست دکھ سکھ بانٹتے رہتے۔ جب 

سے سراج نے لاٹری کا دھنداشروع کیا حیدر کا معمول ہو گیا تھا کہ لاٹری کے ڈرا کے دن اپنے نام سے کم از کم پانچ ٹکٹ خرید لیتا۔ انعام ملے یا نہ ملے اس کا مقصد تھا سراج کی مدد کرنا۔
ایک دن حیدر نے موبائل پر سراج کو مطلع کیا کہ اسے کچھ ٹورسٹ مل گئے ہیں جنھیں لے کر وہ کونارک جارہا ہے۔سراج سے ملاقات کر نہیں پائے گا۔اس لئے اس کے نام سے پانچ ٹکٹ الگ سے رکھ دے وہ لوٹ کر پیسے دے دے گا۔دوست کی درخواست کے مطابق سراج نے پانچ ٹکٹ ایک لفافے میں رکھ دیے۔
حیدر دن بھر اپنے گاہکوں کو لے کر گھومتا رہا ۔کونارک سے پوری چلا گیا‘شام ہوگئی ‘چھ بجے لاٹری کا ڈرا کا نتیجہ نکل گیا۔ چیک کرنے پر سراج کو پتہ چلا کہ حیدر کے لئے رکھے گئے ٹکٹوں میں سے ایک ٹکٹ کو ایک کروڑ روپے کا انعام ملا ہے۔ سراج خوش ہو گیا اسے بھی کمیشن کی صورت میںاچھی رقم مل جائے گی۔مگر اسی لمحہ بجلی کوندنے کی طرح ایک خیال اس کے دماغ میں لہرایا۔حیدر کو کیوں بتاؤں؟ اس نے پیسہ بھی نہیں دیا تھا۔ٹکٹ تو میرے پاس ہے ‘میں ٹکٹ بدل سکتا ہوں۔انعام اور کمیشن دونوں میرے ہو جائیں گے۔اور۔۔۔۔۔اور بہت بڑا آدمی بن جاؤں گا۔زمین ‘مکان‘ گاڑی دُکان سب شاندار اور اعلیٰ درجہ کا حاصل کر لوں گا۔سراج کی سوچ تخیل کی بلندی کو چھونے لگی۔ مگر ہمیشہ کی طرح سراج نے اپنے ابّا سے مشورہ کرنا چاہا۔ 
سیدھا سادہ خدا ترس انسان سراج کا باپ اپنے بیٹے کی تجویز سنتے ہی سناٹے میں آگیا ‘حیرت سے کہنے لگا ’’سراج تجھے کیا ہو گیا ہے بیٹا ؟اس طرح کی گھٹیا سوچ تیرے دماغ میں آئی کیسے؟خدا کا کرم ہے ہم لوگوں کی نصیب میں جو لکھا ہے وہی غنیمت ہے۔اللہ کا شکر ادا کر۔دوسروںکو دھوکہ دے کر بے ایمانی کر کے تو بڑا آدمی بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔چھی‘ توبہ۔ہائے میری تربیت اور پرورش کا یہ نتیجہ۔فوراً حیدر کو فون کر وہ آکر اس کا ٹکٹ لے جائے‘‘۔
باپ کی تنبیہہ سے سراج کو ہوش آگیا اور امیر بننے کا نشہ اُتر گیا۔اس نے فوراً حیدر کو خبر دی ‘حیدر شہر لوٹ چکا تھا۔خبر ملتے ہی وہ دوڑا ہوا سراج کی دُکان پہنچ گیا۔ اس کے لئے لفافے میں رکھے ہوئے ٹکٹ سراج نے اسے دیتے ہوئے جس ٹکٹ کی لاٹری لگی تھی بتلا دیا۔ٹکٹ لے کر مارے خوشی کے حیدر ناچنے لگا اور دوست سے ہاتھ 
ملاتے ہوئے کہا’’یار سراج میں تیرا شکر گزار ہوں ‘تونے میرے لئے یہ سب کیا ‘‘۔ کچھ لمحہ بھر بعد پھر گویا ہوا’’بھائی یہ تو بتا کہ سارے ٹکٹ تیرے پاس تھے ‘نہ میں نے ٹکٹ لیا تھا نہ اس کی قیمت ادا کی تھی ‘تو بہ آسانی یہ ٹکٹ اپنے نام سے لے کر انعام حاصل کر سکتا تھا۔ ایسا کیوں نہیں کیا ؟کیا تیرے دل میں ایسا خیال نہیں آیا ؟‘‘
         ’’ہاں یار میں ایسا کر سکتا تھا۔درحقیقت یہ بات میرے ذہن میں آئی بھی تھی ‘مگر جب میں نے اس کا تذکرہ ابّا سے کیا تو وہ بہت ناراض ہوئے اور تاکید کی کہ  تیری امانت تیرے حوالے کردوں ‘یہ تیرا حق ہے میرے بھائی ‘تجھے مبارک ہو ‘‘۔ 
’’واہ۔واہ کتنی عظیم بات ہے ‘تُو تو فرشتہ ہے یار۔مجھے ایک کروڑ روپے مل جائیں گے میں تو بڑا آدمی بن جاؤں گا۔مگر بھائی سراج تُو تو میراجگری یار ہے تو کیوں پیچھے رہ جائے گا۔تجھ کو میں آدھی رقم یعنی پچاس لاکھ روپے دے دوں گا۔ ‘‘ 
’’کیا کہا ؟تو مذاق کر رہا ہے‘‘۔
’’مذاق نہیں بھائی ‘آدھی رقم تیری ہے‘‘۔
’’واقعی تُو تو مجھ سے بھی بڑا فرشتہ ہے‘‘۔یہ کہتے ہوئے سراج حیدر سے لپٹ گیا اور دونوں کی آنکھیں خوشیوں سے ڈبڈبا گئیں۔٭٭٭

Post a Comment

Previous Post Next Post