آج ہمارا جماعتی مزاج یہ بنتا جا رہا ہے کہ ہم کسی بھی شخصیت سے عقیدت رکھتے ہیں تو ہمیں اول و آخر ایک ہی فکر ستاتی ہے کہ ہم کسی طرح ان کی شخصیت پرنمبرشائع کردیں جس میں عام طور پر علمی مواد کم تعریف و توصیف کے بے حوالے جملوں کو زیادہ سے زیادہ جگہ ملتی ہے ،جب کہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہم اپنی جماعت کی علمی شخصیتوں کا تعارف فرسودہ اور غیر مفید طریق کار سے ہٹ کر کرواتے۔ کتنی اچھی بات ہوتی کہ اپنے بزرگوں کے افکارونظریات اور ان کے علمی خزانے سے دنیا کو متعارف کرواتے تاکہ جہاں دنیا ہمارے ممدوح سے متعارف ہوتی وہیں ان کے علوم و فنون سے استفادہ بھی کرتی اور ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان سے جماعت اہل سنت کی نمائندگی بھی ہوجاتی۔
کتنے افسوس کے ساتھ میں یہ جملے لکھ رہا ہوں کہ آج پورے عالم عرب بلکہ عالم اسلام کے کونے کونے میں الیاس کاندھلوسی ، مودودی اورابو الحسن علی ندوی کے چرچے ہورہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے دنیا کے سامنے سوانحیات پر مشتمل تحریریں کم بلکہ اپنا علمی سرمایہ زیادہ سے زیادہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ ہم سوانحیات کے حدود پار نہیں کرسکے ۔
مثال کے طور پر حضرت مدنی میاں مدظلہ النورانی کی ہی ذات گرامی کو لے لیجئے ، آپ نے مودودیت کا تعاقب آج سے ۵۰سال پہلے ہی کیا تھا ،آج پچاس سال گزرنےکے بعدعلمائے عرب ببانگ دہل یہ کہہ رہے ہیں کہ داعش جیسی خونخوار دہشت گرد تنظمیں در حقیقت مودودی اور سید قطب وغیرھما کی انتہا پسندانہ تحریروں کا نتیجہ ہیں جیسا کہ شیخ اسامہ سیدازہری مدظلہ نے اپنی کتاب" الحق المبین فی الردعلی من تلاعب بالدین" میں بڑی جرات و بے باکی کے ساتھ اس بات کا انکشاف کیا ہے ۔
ایسی خطرناک تحریروں کا تعاقب ہندوستان کی اس عظیم شخصیت نے اسی وقت کرلیا تھا کہ جب یہ تحریریں منصہ شہود پر آنا شروع ہوئیں تھیں چنانچہ حضرت مدنی میاں مدظلہ النورانی1964 ہی میں "اسلام کا تصور الہ اور مودودی صاحب" لکھ کر اپنا فرض ادا کردیا تھا ۔کاش ان تحریروں کا عربی ترجمہ اسی وقت ہوجاتا اور عالم عرب ان تحریروں سے واقف ہوجاتا تو جہاں تشدد ودہشت گردی سے بچایا جاسکتا وہیں مودودیت کی مقبولیت پر روک بھی بآسانی لگائی جاسکیح تھی ۔مودودیت کے رد میں آپ کی تحریروں کو سنجیدگی سے مطالعہ کرنے والامودودیت کے دام فریب میں قطعا نہیں آتااور جہاں لوگ مودودی کا نام لیتے وہیں سرکار مدنی میاں کا بھی تذکرہ جمیل ضرور ہوتا مگر یہاں تو تصویر کا ایک ہی رخ پہونچ پایا جس کا نتیجہ یہ ہواہے کہ آج ہم اپنی شناخت کھوتے جا رہے ہیں ، جب کہ بد مذہبیت سنیت کا لبادہ اوڑھ کر اپنا تعارف کروارہی ہے اور ایسے لوگ ہی عالم ، محدث ، اور متکلم کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جا رہے ہیں جن کا علم ہمارے اکابر کے عشر عشیر بھی نہیں ہے ۔
اس لئے میں جماعت اہل سنت کے کاز کے حوالے سے سنجیدہ ارباب حل وعقد اور اصحاب فکر ونظر سے اپیل کرتا ہوں کہ لا یعنی اور اختلافی مسائل میں الجھنے کے بجائے بزگوں کی تحریروں ان کے افکارو نظریات اور ان کے علوم وفنون کو پوری دنیا میں عام کریں ،یہ وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔
واضح رہے کہ وقت کے اسی تقاضا کو محسوس کرتے ہوئےمودودیت کے رد میں حضرت مدنی میاں کی تینوں کتابوں (۱)"اسلام کا تصورالہ اورمودودی صاحب"۔ (۲) "اسلام کا نظریہ عبادت اور مودودی صاحب"۔ (۳) "دین اور اقامت دین اور مودودی صاحب"۔ کاعربی ترجمہ قطے وارماہنامہ "المشاہد"میں شائع کرنے کا عزم کیا گیا ہے جس کی پہلی قسط آئندہ ماہ قارئین کے نذرہوگی ان شاء اللہ العظیم۔ اللہ ہمیں اخلاص بخشے اور شرف قبولیت سے نوازے ۔
ڈاکٹرانواراحمدبغدادی جمداشاہی بستی
Post a Comment