غزل
سعید رحمانی
ابھرکر آگیا ہے دل کا ہر اک درد چہرے پر
دکھائی دے گا کیسے سبز موسم زرد چہرے پر
تقاضہ عمر کا میرے قدم کو روک لیتا ہے
پڑاؤ ڈال دیتی ہے تھکن کی گرد چہرے پر
لطافت کی کوئی عمدہ نشانی اب کہاں ڈھونڈیں
خراشیں موسموں کی پڑ گئیں ہمدرد چہرے پر
کوئی آتش فشاں اس نے چھپا رکھا ہے سینے میں
تمازت کا گماں ہونے لگا ہے سرد چہرے پر
سعیدؔ اب ہو گئی ہے خاکساری کی ادا عنقا
رعونت آگئی ہے وقت کے بے درد چہرے پر
Post a Comment