عمران اسلمؔ بنارسی(بنگلور)
لفظ لفظ نغمگی کا شاعرشمیم انجم وارثی
جناب شمیم انجم وارثی کی غزلوں کا مجموعہ ’’لفظ لفظ نغمگی‘‘کے مسودہ کی سیر آفرینی کے لئے نکلاتو ان کے اشعار قرطاس پر اس طرح نظر آئے جس طرح دھلی دھلی ریت کے اوپر گردوں میں کوئی مہ تاباں روشن ہواور اس کی تمام تر تابانیوں سے ریت کے ذرات مثل کہکشاں چمکتے دمکتے نظر آئیں۔ جہاں تک ان کی شاعری کے مزاج کا سوال ہے تو وہ انتہائی سادہ اور انتہائی پر لطف نظر آتا ہے۔ وہ ثقیل اور دقیق لفظوں سے اجتناب برتتا ہوا ہی نظر آتا ہے۔ان کی زبان میں زبان و بیان کی پختگی نظر آتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ غزل جس کمسن حسینہ کا نام ہے اس کی عمر غالباً سات آٹھ سو سال ہے اور اب سے تقریباً تین سو برس پہلے جو اس نے اردو کا دیدہ زیب پیرہن زیب تن کیا تو دنیا اس کی کمسنی پر فدا ہو گئی۔دنیا کو اس کی دھانی چنر کے بیل بوٹوں میں غالبؔ‘میرؔ‘ ذوقؔ‘ داغؔ‘مومنؔ‘ سوداؔ‘ دردؔ‘فیضؔ‘ ظفرؔ‘ حالی ؔ اور اقبال ؔسے لے کر عہد حاضر تک کے لاکھوں لاکھ شعراء نظر آنے لگے۔ اردو دنیا اس بات پہ ششدر ہو گئی کہ جب کمسنی میں یہ حالت ہے تو اس کے اوپر شباب آیا تو کیا ہو گا۔اور اسی جستجوئے شوق و شباب میں جناب شمیمؔ انجم وارثی کہہ اٹھتے ہیں کہ:
کہاں سے آیا ہے پھر شوق جستجو مجھ میں۔اک آرزو ہے ابھی تک لہو لہو مجھ میں
میں چومتا ہوں عقیدت سے اپنا سرتاپا۔کہ اک خیال اُترتا ہے با وضو مجھ میں
بس ایک دن اسے غزلوں میںڈھلتے دیکھا تھا۔اسی کا عکس جھلکتا ہے ہو بہ ہو مجھ میں
یہ غزل وہی عکسِ جمال ہے جو کبھی غالبؔ کے معنی خیز احساسات کی پیکر تراشی کرتا تھا‘ جو کبھی میرؔ کے رخِ تاباں کی رعنائی و دلکشی ہوا کرتا تھا۔ یہ رعنائی و دلکشی وہ ہے جو بنام زندگی لمحوں سے گلے ملتے ملتے صدیوں کی صورت میں ڈھل کر ہر عصر کے ہر شاعر کے چہرے سے تابانیاں بٹورتا ہوا آج جناب شمیم انجم وارثی تک آ پہنچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں بھی اشعار میں ایک زندگی اور نغمگی ‘شگفتگی‘ شائستگی ‘آمادگی‘شوریدگی‘ رخشندگی‘ تابندگی‘ فرزانگی اور نظارگی جا بجا تاباں و درخشاں ہے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ:
کیسے چھو لے صحیفۂ رُخ کو
چشم ِمشتاق با وضو بھی نہیں
بکھرتی ٹوٹتی یادوں کا منظر چھوڑ آیا ہوں۔بھروسے پر میںساحل کے سمندر چھوڑ آیا ہوں
نظر مبذول کرنا چاہتا ہوں۔غزل کو پھول کرنا چاہتا ہوں
کبھی اترو کہ اے تارو !زمیں پر
تمھیں مقبول کرنا چاہتا ہوں
ہوا کو زور شمع وصل کو معدوم کردے گا
گماں کب تھا کہ ملنے سے مجبور کر دے گا
خدا لفظوں کا ہے افکار وفن ہیں مقتدی اس کے
وہ ہر نقطے سے پیداگوشۂ مفہوم کردے گا
پلکوں پہ خیالات کے آنسو نہیں رکھتے
ہم دن کے مسافر کبھی جگنو نہیں رکھتے
مٹی کے کھلونوں کی طرح ٹوٹ گئے ہیں
وہ لوگ جو جذبات پہ قابو نہیں رکھتے
ہم اس کے واسطے ہر آفت و بلا سے لڑے
چراغ جیسے کوئی تیز تر ہوا سے لڑے اُڑا اُڑاکے محبت کی خوشبوئیں لے جائے
ہوائے شام و سحر جب تری قبا سے لڑے
خیال و فکر کی خوشبوئیں جناب شمیمؔ انجم وارثی کے یہاں ہیں‘اسے ہوائے شام و سحر اُڑا اُڑا کے وجود میں آنے والے چمنستان اردو ادب تک پہنچانے میں معاون ضرور ہو گی کیوں کہ گزرتے لمحات کو صدیوں میں تبدیل ہونا اور غزل پر شباب آنا اور اسے زندہ رہنا ہے۔ حالانکہ میری ان باتوں سے ہر خاص و عام کے ذہن میں یہ سوالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ سات آٹھ سوسال کا طویل عرصہ اور غزل ابھی کمسنی کے عالم میں ‘ابھی شباب کی امیدیں‘پھر عہد شباب کا ڈھلنا‘پھر غزل کا دورِ بے حسی‘پھر حالت ِ علالت اور پھر غزل کی موت اور جب کہ ممات صرف اور صرف نقاشِ ازل کے قبضۂ قدرت میں ہے۔خداہی جانے غزل کو موت کب آیے گی۔ایسے سوالات قاری کے ذہن میں پیدا ہونے لازمی ہیں۔ اسی لئے میرا ایک مختصر سا جواب یہ ہے کہ شاعر صحرا نورد ہوتا ہے۔شاعر گلگشت ہوتا ہے اور یہی صحرانوردی و گلگشتگی در اصل غزل کی نفسِ حیات ہیں۔
شاعر دنیا میں پیدا ہوتے رہیں گے اور مرتے رہیں گے لیکن غزل کو موت تب آئے گی جب ان شعرا کی روح صحرا نوردی اور گلگشتی و فکرواحساسات و خیالات کے جسم سے اس شاہین پرندے کی طرح اُڑ جائے گی جو شاہین خلا میں اُڑتے اُڑتے اپنے بیٹھنے کے لئے بھی کسی کہسارکی سب سے اونچی چوٹی کا انتخاب کرتا
ہے ۔تب اس غزل کا زوال پذیر ہونا لازمی ہوگا جب خود غزل کا شاہین اپنے مزاج کے مطابق کسی کہسار کی تلاش کرنے لگ جائے اور یہ سوچنے لگ جائے کہ مجھے اب آفاقی خلا سے پستی کے اور بڑھنا ہے۔ تب میں سمجھتا ہوں کہ غزل زوال پذیر بھی ہو گی‘ بوڑھی بھی ہوگی اور اسے موت بھی آئے گی ‘لیکن جب فطری طور سے شمیم ؔانجم وارثی جیسے شعرا یہ کہتے پھریں گے کہ:
تمھاری یاد سے خود کو کبھی تنہا نہیں کرتے ۔کہ زخموں کو ہرا رکھتے ہیں افسردہ نہیں کرتے
ستاروں سے چمک پھولوں سے ہم خوشبو چراتے ہیں۔غزل تو ہی بتا تیرے لئے کیاکیا نہیں کرتے
غزل کے لئے کیا کیا اور کچھ بھی کرتے رہنے کا یہ احساس جب تک ان شعرا حضرات کے قلب میںزندہ رہے گا یقینا اس وقت تک غزل کوموت نہیں آسکتی اور میری نظر میں شعرا کے ان ہی احساسات کی بنیاد پر غزل کی عمر اتنی ہے جتنی اس دنیا کی عمر اور غزل کی بقا اس دن تک یقینی ہے۔وہ دن دنیا کے فنا کا دن ہوگا۔ یہ دنیا جب تک قائم رہے گی شعرا حضرات نئے مضمون کی تلاش کرتے رہیں گے‘ مصرعے کہنے میں اپنا لہو صرف کرتے رہیںگے اور اردو ادب کے گلزار کو سینچنے میں کوشاںرہیں گے اور ایک گل چیں کی طرح لفظوں کی مٹی کو زر خیز کر کے نئی کونپلیں‘ نئے برگ و ثمر‘نئے شاخ و گل‘نئی بادِ بہاراں‘ نئی نسیمِ صبح‘قطرۂ شبنم کے نمو کی خاطر خود کو قربان کرتے رہیں گے اور صلہ‘ قربانی‘نئے جہانِ اردو‘نئی شام و سحر‘ نئی شفق و اُفق‘ نئی قوس قزح‘ نئے خورشید و قمر‘ نئی کہکشاں‘نئی تیرگی و تیرہ شبی کے دائمی خیال کودرجۂ اتم کی اُور گامزن کر کے دارِ فانی سے کوچ کرتے رہیں گے اور غزل پُر شباب ہوتی رہے گی۔ اس لئے غزل کے شباب کی کاوش میں شمیمؔ انجم وارثی یہ کہتے ہیں کہ :
جستجو بھی ہے جستجو بھی نہیں
زندگی تیری آرزو بھی نہیں
گل وہ کس کام کے شمیمؔ انجم
جس میں محفوظ تیری بُو بھی نہیں
سلیقے سے ترے قدموں میں جانِ ناتواں رکھ دی
حقیقت میں جہاں کی چیز تھی ہم نے وہاں رکھ دی
وہی چڑھتا ہوا دریا وہی موجوں کی طغیانی
بنا کر ناؤ کاغذ کی انہی کے درمیاں رکھ دی
خدا جانے مری ہستی کا اب انجام کیا ہوگا
کہ پھر بہتے ہوئے پانی پہ بنیادِ مکاں رکھ دی
دئیے گھٹتے رہے بے نور ہو کر
ہوا چلتی رہی مغرور ہو کر
اسے اس بات کا احساس کب ہے
قریبِ جاں رہا وہ دور ہو کر
شمیم ؔ انجم غزل کہتا ہے اکثر
خیالِ یار میں مسرور ہو کر
اگر شمیمؔ انجم اکثر خیالِ یار میں مسرور ہو کر غزل کہنے کے بجائے ہمیشہ خیالِ یار میں مسرور ہو کر غزلیں کہیں تو مجھے امید ہے کہ غزل کے شباب کی کاوش میں اور اضافہ ہو گا اور اسی کے ساتھ ساتھ ان کو غمِ عشق کا احترام بھی کرنا چاہئے‘کیونکہ یہ غم وہ غم ہے جو دل کو خوشی سے ملتا ہے ۔جہاں تک جناب شمیمؔ انجم وارثی کا مسودہ ’’لفظ لفظ نغمگی‘‘ کا سوال ہے تو اس میں شامل تمام غزلیں انتہائی خوب صورت ہیں ۔اخیر میں اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ’’بندے کا ہے کلام کلامِ خدا نہیں‘‘۔
اللہ کرے جب اس کی کتابی شکل ہو تو اسے عالم ِ اردو ادب اور عالمی ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے ۔بہت کچھ اور کہہ سکتا ہوں لیکن تنگئی وقت کے باعث پھر کبھی انشاء اللہ۔٭٭٭
Post a Comment