فکر ووجدان کا شاعر نفیسؔ دسنوی

اوج ؔاکبر پوری

اکبر پور‘رہتاس(بہار)


فکر ووجدان کا شاعر نفیسؔ دسنوی 

کٹک(اڑیسہ) کی سرزمین قابل فخر ہے کہ وہاں اردو زبان و ادب کی آبیاری کے لیے متعدد مایہ ناز ہستیاں موجود ہیں جو اپنی جنبشِ قلم سے گیسوئے اردو کو سنوارنے میں اپنا خون جگر جلا کر اس میں چار چاند لگا رہی ہیں۔ان حضرات میں ڈاکٹر کرامت علی کرامت‘ؔجناب سعید رحمانی مدیر اعلیٰ’’ ادبی محاذ‘‘ کٹک‘عبد المتین جامیؔ اور نور الٰہی ناطقؔ جیسی نابغۂ روزگار شخصیتیں شامل ہیں۔اسی صف میں سید نفیس ؔ دسنوی مدیر ’’ادبی محاذکٹک‘‘ بھی ہیںجو گلشن اِدب کے مہکتے ہوئے گلاب کی طرح اپنی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔ آپ جوائنٹ ڈایئرکٹر جیو لوجی محکمہ ارضیات و معدنیات حکومت اڑیسہ سے موظف ہو کر سہ ماہی ’ادبی محاذ‘ کٹک سے وابستہ ہیں۔جیولوجی جو سائنس سے تعلق رکھتی ہے اس کے اعلیٰ سند یافتہ ہیں۔عموماً سائنس کے طالب علم کو ادب سے بہت کم رغبت ہوتی ہے ۔لیکن جس ادبی ماحول میں پرورش پائی اسی کا اثر ہے کہ الفاظ کے موتی بکھیرتے ہوئے اپنی تیسری تصنیف ۱۴۴؍صفحات پر مشتمل غزلوں کا مجموعہ’’لفظ لفظ آئینہ‘‘لے کر حاضر ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کے والد پروفیسر منظر حسن دسنوی (مرحوم) اور برادر محترم جناب شکیل دسنوی (مرحوم) جو ان کی شاعری کے استاذ بھی تھے۔ اس لیے یہ کہا جائے کہ شاعری ان کو وراثت میں ملی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔کتاب کی طباعت و اشاعت صاف ستھری اور قابل دید نیز اردو ادب میں ایک یادگار اضافہ اور اسم با مسمّٰی ہے۔کیونکہ اس کا ہر شعر اور ہر نقطہ یقیناً آئینہ کی طرح چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔میں اس کے لیے صاحب کتاب کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔کتاب کا انتساب اپنے برادر مشفق اور استاذ اول جناب شکیل دسنوی مرحوم‘استاذ ذی وقار جناب پروفیسر کرامت علی کرامتؔ ‘استاذ محترم جناب سعید رحمانی مدیر اعلیٰ ادبی محاذ کٹک اور خانوادۂ پروفیسر منظر حسن( مرحوم )کی نو خیز کلی سیّدہ انایہ کاشف (نبیرہ سید نفیس دسنوی)کے نام ہے۔ابتدا میں برق تجلی کے عنوان سے حمد و نعت ‘بہار غزل کے عنوان سے ۸۰؍ غزلیں اور حرف و صوت کے تحت ۱۵؍ قطعات ہیں۔آخر میں سابقہ دو کتابوں (حرف جادواں اور نعتیہ مجموعہ نور ِحرا)پر مشاہیر ادب کی آراء شامل ہیں اور موصوف کا مفصل سوانحی خاکہ بھی ہے۔پروفیسر جناب کرامت علی کرامتؔ کا مبسوط مقدمہ اور سید نفیس ؔدسنوی شعری کائنات کے عنوان سے جناب سعیدؔ رحمانی کی تحریر نے کتاب کی اہمیت وافادیت بڑھا دی ہے۔ کرامت ؔصاحب نے موصوف کو شاعرِ عوام و خواص کا نام دیا ہے۔ وہ لکھتے 
ہیں’’نفیس ؔ صاحب ایک ایسے مترنم شاعر ہیں جن کے یہاں عوام و خواص دونوں کو متاثر کرنے والی تخلیقات موجود ہیں‘‘۔اسی طرح جناب سعید ؔ رحمانی نے لکھا ہے کہ’’عصری منظر نامہ میں سید نفیسؔ دسنوی ایک ہمہ جہت قلم کار کی حیثیت سے مستحکم شناخت رکھتے ہیں‘‘۔کتاب کے ڈسٹ کور کے فلیپ پر ہر دو جانب بالترتیب ڈاکٹر مختار شمیمؔ (بھوپال)اور علیم صبا نویدی(چینئی ) کی تحریریں مختصر مگر جامع ہیں۔شمیم ؔ صاحب نے لکھا ہے کہ’’نفیسؔ دسنوی کی شاعری میں عصری حسّیت کی کار فرمائی ان کے درد مند دل کی رہینِ منت ہے‘‘۔ اور علیم صبا ؔ لکھتے ہیں کہ اردو غزل کی زلفوں کی مشاطگی میں اپنی بولتی انگلیوں کا لمس بخشنے والوں میں بہ نفس نفیس جناب نفیسؔ دسنوی بھی پیش پیش ہیں۔‘‘
نفیس دسنوی صاحب کا سیاسی اور سماجی شعور نہایت بیدار ہے۔ آج سیاست دانوں میں دروغ گوئی‘ خود غرضی‘ مذہبی تعصب اور فریب و نفرت کے عناصر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں ۔اسی بات کو شاعر موصوف نے مختلف مقامات پر مختلف انداز میں پیش کیا ہے۔  ؎
اس طرح چمکتی ہے اب دکاں سیاست کی
جھوٹ کی تجارت ہے راستی کے پردے میں
ہر اک سمت نفرت کے گل کھل رہے ہیں۔سیاست کی کیسی شجر کاریاں ہیں
ایک مقام پر آپ نے تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے حقیقت نگاری سے کام لیا ہے۔ملاحظہ ہو    ؎
جلا دیتے ہیں ساحل پہ سفینہ ۔روایت اپنی لاثانی بہت ہے
حق وباطل کی جاری کشمکش میں۔مرے پرکھوں کی قربانی بہت ہے
ماضی اور حال میں کتنا فرق پیدا ہو گیا ہے ‘اس پر شاعر نے اپنے مخصوص پیرایے میں خامہ فرسائی کی ہے    ؎
زمیں یہ مختصر ہو گی یہ کب امکان تھا پہلے
وہیں آباد ہے بستی جہاں شمشان تھا پہلے 
خدا کی سرزمیں کو بانٹ دی لوگوں نے ٹکڑوں میں 
جدا کب ہند سے بنگلہ و پاکستان تھا پہلے
محبت تھی رفاقت تھی رواداری کی رسمیںتھیں۔سنہرا دور تھا جب آدمی انسان تھا پہلے 
اس طرح آپ نے قطعات کے ہم مصرعو ں میں آپ بیتی کو جگ بیتی بنا کر ایک جہانِ معنی پیدا کر دیا ہے۔ملاحظہ ہو    ؎
گلوں کا حسن کلیوں کی لطافت چھین لیتی ہے
یہ ناداری تو انسانوں کی عظمت چھین لیتی ہے
وسائل زندگی کے گر نہ ہوں حاصل غریبی میں
تو اک دن بھوک مفلس سے شرافت چھین لیتی ہے
الغرض نفیس دسنوی کی شاعری نفاست پسند ہونے کے ساتھ تعمیری ادب کا بھی رجحان رکھتی ہے۔ جس میں جہاں احسا س کی شدّت نمایاں ہے وہیں جذبات کی شوخی بھی جلوہ گر ہے۔ زبان و بیان پر قدرت کے باوجود سہل پسندی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔
مجموعہ کے دوسرے ڈسٹ کور کی پشت پر آپ کی نہایت دلکش اور منہ بولتی تصویر ہے۔ جس سے کتاب کی تزئین و زیبائش میں رونق آجاتی ہے۔اس کی اشاعت مطبع روشن پرنٹرس دہلی۔۶؍سے زیر اہتمام سعید رحمانی مدیر اعلیٰ ادبی محاذ کٹک رواں سال میں ہوئی ہے۔ تزئین و تہذیب کی خدمت جناب سید نور الٰہی ناطق ؔ نائب مدیر نے انجام دی ہے۔آخر میں موصوف کے ایک قطعہ پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔    ؎
ہمیشہ دن کو دن اور رات کو ہم رات لکھیں گے
کریں گے جھوٹ کی تردید اچھی بات لکھیں گے
ہمیں کیا آزمائے گی امیرِ شہر کی دولت
ہم اپنی مفلسی کو وقت کی سوغات لکھیں گے
٭٭٭

Post a Comment

Previous Post Next Post