دیوان رباعی’’ورق ورق شمیم‘‘

فاروق جائسی

404. Snageeta Apartment
14/59, Civil Lines.Kanpur-208001
موبائل۔9839375197

  دیوان رباعی’’ورق ورق شمیم‘‘


شمیم انجم وارثی کی دسویں تصنیف ’’ورق ورق شمیم‘‘ مجموعۂ رباعیات سے آگے بڑھ کر رباعیات کی شکل میں اہل ادب کے سامنے آئی ہے۔مجھ ناچیز کو اس مضمون پر لکھنے کا حکم میرے دیرینہ دوست عظیم انصاری مقیم کلکتہ نے صادر فرمایا۔ بھائی شمیم انجم وارثی کے بھی فرمائشی فون اس سلسلے میں آئے۔میرا ان سے یہ عرض کرنا تھا کہ محترم ناوک حمزہ پوری کے مضمون کے بعد جو اس دیوان کی زینت ہے میرے مضمون کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے۔ مگر شمیم صاحب کے اصرار پر یہ مضمون سپرد قلم کرنا پڑا۔
اہل ادب جانتے ہیں کہ جس طرح اردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی اسی طرح صنف رباعی نے فارس میں جنم لیا۔ اس کی پیدائش کی ساری روایتیں ابھی تک حقیقت آشنا نہیں ہو سکی ہیں۔اس سلسلے میں فرمان فتح پوری (کراچی) اپنی مشہور کتاب’’اردو رباعی‘‘اور علامہ ناوک حمزہ پوری ’’گلبن کے رباعی نمبر‘‘میں سیر گفتگو حاصل کرچکے ہیں۔اسے دہرانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔
جب ماہئے‘ترائلے‘ہائیکو‘ رینکو اور ٹینگو جیسی اصنافِ سخن کو اردو کی نزاکت نے مسترد کر دیا تو ۱۹۴۰ء؁ کے بعد شعراء پھر سے رباعی کی طرف مائل ہو نے لگے۔نتیجہ کے طور پر خالص رباعیات کے مجموعے منصۂ شہود پر نظر آنے لگے ۔اب تو ایک قدم اور آگے بڑھ کر اس شاندار صنف کا دیوان بھی منظر عام پر آگیا ہے جس کے لئے شمیم انجم وارثی قابلِ مبارک باداور علامہ ناوک حمزہ پوری کی کاوشیںقابل ستائش ہیں۔رباعی بغیر کسی اختلاف کے جملہ اصنافِ سخن سے بہت بالا تر مانی جاتی ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اپنی تصنیف’’ اردو رباعی‘‘ میں رقم طراز ہیں؛۔
’’ممکن ہے رباعی نے زندگی کے آفاقی اور عالمگیر حقائق کی عکاسی کا حق  نہ ادا کیا ہو ‘لیکن تاریخِ ادب شاہد ہے کہ اس نے رکاکت‘ ابتذال‘ فحاشی ‘بیہودہ گوئی‘ مبالغہ اور ہجو سے اپنے دامن کو کبھی آلودہ نہیں کیا۔حالی نے شعر و قصائد کے جس ناپاک دفتر کو عفونت میں سنڈاس سے بد تر بتایا ہے ‘اس میں رباعی کو کھینچ تان کر بھی شامل نہیں کیا جا سکتا اور رباعی کی یہی ایک معنوی خصوصیت دوسرے اصنافِ شعرکے مقابلہ میں ممتازو موقر بنا نے کے لئے کافی ہے۔(اردو رباعی از ڈاکٹر فرمان فتح پوری)     
رباعی چہارمصرعی اور چہار رکنی نظم ہے‘جس میں صرف دس ارکان کا 

استعمال اس طور پر کیا جاتا ہے سبب پر ختم ہونے والے رکن کے بعد سبب سے شروع 
ہونے والا رکن آئے اورو تد پر ختم ہونے والے رکن کے بعدو تد سے شروع ہونے والا رکن لایا جائے ۔(سبب پئے سبب است و تد پئے وتد است)ارکانِ رباعی بحر ہزج  کے سالم رکن ’’مفاعیلن‘‘سے مختص ہے۔ اس رکن پر نو مختلف زحافات کے عمل سے نو مزاحف ارکان اور بر آمد ہوتے ہیں۔اس طرح سے یہ دس ارکان ہوجاتے ہیں اور ارکانِ عشرہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ رکن اول‘دوم‘سوم اور چہارم اپنے اپنے مقام کے لئے مختص ہیں جن کو مندرجہ ذیل طریقہ پر لکھا جا سکتا ہے ۔سبب اورو تد کو پنوں کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے راقم الحروف نے یہ جدول بنایا ہے ۔جس سے صاف ظاہر ہے کہ رکن سوم کے طور پر فاعلن اور مفاعلن نہیں لائے جاتے۔ دو اور تین’’ڈاٹ‘‘سبب اورو تد کو ظاہر کرتے ہیں۔(دیکھئے’’ مطمحِ نظر ‘‘از فاروق جائسی) دو ڈاٹ کو دو ڈاٹ سے اور تین ڈاٹ کو تین ڈاٹ سے ملانے پر چوبیسوں اوزان بر آمد کئے جاسکتے ہیں۔
  رکن اول          رکن دوم   رکن سوم            رکن چہارم    
 ۔۔مفعول۔۔    ۔۔مفعول۔۔ ۔۔مفعول۔۔ ۔۔فع
 ۔۔مفعولن۔۔    ۔۔مفعولن۔۔       ۔۔مفعولن۔۔        ۔۔فاع       ۔۔مفاعیل۔۔      ۔۔مفاعیل۔۔       ۔۔فعل
      ۔۔مفاعیلن۔۔     ۔۔مفاعیلن۔۔     ۔۔فعول
      ۔۔فاعلن۔۔
      ۔۔مفاعلن۔۔
ان ارکان کے استخراج کا عروضی عمل نوز حافات یعنی خرم‘قبض‘کف‘ خرب‘ خرم‘قبض‘کف‘خرب‘شتر‘جبّ‘ہتم‘بتر‘اور زلل کے رہین منت ہیں جسے اس مضمون میں زیر بحث لانا مناسب نہیں ہے۔ اسے کسی بھی عروض کی کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ہاں یہ بتا دینا  ضروری سمجھتا ہوں کہ آہنگ اور اوزانِ رباعی ۲۴؍ سے زیادہ ہوسکتے ہیں مگر اساتذہ نے صرف ۲۴؍اوزان ِآہنگ کو مستعمل رکھا ہے کہ دیگر اوزان آہنگ میں وہ روانی نہیں ہے جو رباعی کی ضرورت ہے۔
محمد بن قیس رازی،جس کی وفات ۶۳۰ء؁ میں ہوئی ،اپنی 
تصنیف  ’’المعجم فی شعائر الاشعار‘‘ میں تحریر کیا ہے :۔
’’رباعی کو قوافی کی موزونیت‘الفاظ کی شیرینی ‘معانی کی لطافت‘ تشبیہ و استعارات کی ندرت اور لفظی محاسن سے مالا مال اور الفاظ کی بے جا تقدیم و تاخیر و ابتذال و فحش گوئی سے بالکل پاک ہونا چاہئے‘‘۔
آئیے شمیم انجم وارثی کا دیوان رباعی ’’ورق ورق شمیم‘‘ پر نظر ڈالی جائے کہ موصوف نے اس پر وقار صنف ِ سخن کو کس طرح سجایا سنوارا ہے۔سب سے قبل جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی رباعیات کو حروف تہجی پر ختم ہونے کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے۔حرف الف سے لے کر حرف یے تک پر ختم ہونے والی رباعیات اس کتاب میں موجود ہیں ۔اس لئے بغیر کسی تردد کے اسے دیوان کہا جا سکتا ہے۔مرے خیال میں یہ اردو رباعی کا شاید پہلا دیوان ہے۔
شمیم انجم وارثی اللہ کی وحدانیت ‘عظمت‘قدرت اور ربوبیت کے قائل ہیں۔ اس سلسلہ میں ان کی رباعیات ایمان کو تازہ کرتی ہیں اور بندے کو اس کے سامنے عاجزی‘انکساری اور استعانت کی ترغیب دیتی ہیں۔
مسلمان ہونے کی وجہ سے اللہ کے بعد شمیم انجم وارثی کی نظر میں سب سے محترم اور بزرگ شخصیت جناب محمدالرسولﷺ ہیں جن کی تعریف و توصیف وہ اپنی رباعیات میں بیان کرتے ہیں۔ تعریف و توصیفِ محمدی کے ضمن میں ان کی رباعیات کو نعتیہ رباعی کا درجہ عطا کرتی ہے۔ میرا بھی عقیدہ ہے کہ ان کی یہ رباعیات میدان حشر میں ان شا اللہ ان کی نیکی میں بے پناہ اضافہ کریں گی اور جنت کی طرف کھینچ کر لے جائیں گی۔
بزرگوں سے سنا تھا کہ ’’جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان‘‘۔شمیم انجم وارثی حاجی وارث علی شاہ کے سلسلہ میں شامل ہیں۔ اسی لحاظ سے اپنے کو وارثی لکھتے ہیں ۔اس کی برکت اور اللہ کی مہربانی سے شیطان لعین کا کوئی حربہ ان پر کار گر نہیں ہوااور انھوں نے اپنی رباعیات میں پاکیزگی اور طہارت کا التزام بنائے رکھا ہے۔انھوں نے اپنے پیر طرِیقت حاجی وارث علیؒ کی شان میںعقیدت سے بھری ہوئی رباعیات تشکیل کی ہیں جن میں جوشِ عقیدت کی گرمی محسوس کی جاسکتی ہے۔میں ان کی یہ رباعیات قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں جن میں محاسنِ رباعی کے ساتھ ساتھ جوشِ عقیدت کی کار فرمائی ہے مگر ہوش کا دامن کہیں نہیں چھوڑا ہے:۔
حمدیہ رباعیات:۔
ہر گوشۂ عالم میں دھمک تیری ہے۔ہر پھول کی سانسوں میں مہک تیری ہے
ہر سو ہے ضیا باری ترے جلووں کی ۔مہر ومہ وانجم میں چمک تیری ہے 
٭
تقدیر غریبوں کی جگا دے اللہ۔اب بھوک کی شدت کو مٹا دے اللہ
ہم مفلس و نادار کے آنگن میں کبھی۔روٹی کا کوئی پیڑ لگا دے اللہ
نعتیہ رباعیات:۔
یا شاہِ عرب عظمتِ دارین ہیں آبﷺ۔محبوبِ خدا رحمتِ کونین ہیں آپﷺ
ایمان کی خوشبو ہے بسی سانسوں میں۔جب سے جگر وقلب کے مابین ہیں آپﷺ
٭
بگڑی ہوئی تقدیر سنور جاتی ہے۔آشومئی تقدیر کدھر جاتی ہے 
آرحمتِ عالم کے درِ اقدس پر۔جھولی یہاں ہر ایک کی بھرجاتی ہے
مدحیہ رباعیات:۔
ناموسِ رسالت کو علی ؓکہتے ہیں۔سلطانِ ولایت کو علیؓ کہتے ہیں
جس نام سے تھراتا ہے خیبر کا جگر ۔اس نامِ شجاعت کو علیؓ کہتے ہیں
٭
امت کو مصیبت سے رہا کرتے ہیں۔نانا کے کئے وعدے وفا کرتے ہیں
نرغے میں لعینوں کے حسین ابنِ علیؓ ۔سر معرکۂ کرب و بلا کرتے ہیں
 منقبتی رباعیات:۔
ولیوں میں اونچا ہے تراسر خواجہؒ۔اولادِ علی نسلِ پیمبر خواجہ ؒ
مشہور ہے دنیا میں کرامت تیری۔کوزے میں کیا بند سمندر خواجہؒ
شمیم انجم وارثی چونکہ حضرت وارث علی شاہؒ کے سلسلۂ بیعت میں ہیں اس لئے جب وہ وارث پاک ؒکی شان میںرقم طراز ہوتے ہیں تو ان کے کیف و سرمستی کا عجب عالم ہوتا ہے۔مندرجہ ذیل رباعیات اسی کیف و سرمستی اور عقیدت کا اظہار کرتی ہیں۔جن احباب کو دیوہ شریف میں وارث پاکؒ کے آستانے پر حاضری کا شرف حاصل ہوا ہے ان کے لئے ان رباعیات میں بہت کچھ ہے جو دائرۂ قلم میں نہیں بلکہ عالمِ محسوسات سے تعلق رکھتا ہے۔صحیح العقیدہ علماء اس بات سے متفق ہیں کہ اللہ کے برگزیدہ بندوں اور شعار اللہ کے آس پاس دعا مانگنے سے دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔اسی لئے شمیم انجم وارثی ہمیشہ دیوہ شریف میں رہنے کی تمنا دل میں بسائے ہوئے ہیں:۔
حسرت ہے یہی دل کی جناب ِوارثؒ۔رخ سے کبھی اٹھ جائے نقابِ وارثؒ
زاہد کو مبارک ہو بہارِ جنت۔ہم رندوں کو مل جائے شرابِ وارثؒ
٭
حق بات میں کہتا نہیں جبراً وارث۔قربان ہے تجھ پر مرا تن من وارثؒ
مر کر بھی نہ چھوٹے یہ مرے ہاتھوں سے ۔قسمت سے ملا ہے ترا دامن وارثؒ
٭
ہے دل کی تمنا یہی مولا وارثؒ۔تا عمر نہ چھوٹے ترا’’دیوہ ‘‘وارثؒ
جنت بھی خدا دے تو اسے ٹھکرادوں۔آنکھوں میں بسا ہے ترا روضہ وارثؒ
محفلِ سماع ،وارثی سلسلہ کے بزرگوں کی مرغوب روحانی غذا رہی ہے۔  محفلِ سماع کا تعلق بھی قلبی اور روحانی معاملات سے ہے ۔ہم روز وشب مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ سارے برقی(الکٹرانک)یا مقناطیسی (میگنیٹ) سگنل ہی ایک آلہ (ڈووائس) سے نہیں موصول کئے جا سکتے۔ اسی طرح صرف وہی ذہن و قلب و جگر‘سماع سے متاثر ہوتے ہیں جن میں خدا نے ان کیفیات کوموصول (رسیو) کرنے اور جذب کرنے کی قوت فطری طور پر عطا فرمائی ہے۔یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ محفلِ سماع میں حمد‘نعت‘ منقبت اور معرفت ہی کے اشعار پر انحصار ازبس ضروری ہے ۔شمیم انجم وارثی نے جو اس سلسلے میں محسوس کیا اسے اپنی رباعی کے ساغر میں ڈھال دیا۔ اب اسے دوسرا کوئی محسوس نہیں کرپاتا تو صاف ظاہر ہے کہ خدا نے اسے سماع سے حظ اٹھانے کی صلاحیت سے محرو م رکھا ہے۔ان کی صرف ایک رباعی حاضر ہے‘جس میں انھوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
ہاں شاملِ آداب ِ طریقت ہے سماع۔مرشد سے اظہار ِ عقیدت ہے سماع
صوفی کے لئے ہے یہ روحانی غذا۔ہر دل کے لئے باعثِ راحت ہے سماع
مذہبی شاعری سے قطع نظر’’ورق ورق شمیم‘‘ میں شامل دیگر رباعیات بھی دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ان رباعیات کو عمدہ رباعیات کی صف میں شامل کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان میں عمدہ رباعیوں کے وہ جملہ لوازمات موجود ہیں جن کی طرف محمد بن قیس رازی نے اپنی کتاب’’  المعجم فی شعائر الاشعار‘‘میں اشارہ کیا تھا۔
شمیم انجم وارثی نے تغزل سے بھرپور رباعیات بھی کہی ہیں۔ عصری آگہی اور ذاتی مشاہدہ کو بھی اپنی رباعیات کا موضوع بنایا ہے ‘چند رباعیات اس ضمن میں بھی حاضر کرنا چاہتا ہوںجن کی گہرائی و گیرائی پر ورق ورق سیاہ کئے جا سکتے ہیں:
تغزل
سانسوں میں وہ بس جاتا ہے صندل کی طرح۔آنکھوں میں سماجاتا ہے کاجل کی طرح
آتا ہے وہ ہر رات مرے خوابوں میں۔چھا جاتا ہے احساس پہ بادل کی طرح
قاصد نے دیا جو مجھ کو لاکر کاغذ۔تحریر کی بو سے تھا معطر کاغذ
خوشبو مری سانسوں میں اتر آئی ہے۔محسوس کیا میں نے بھی پڑھ کر کاغذ
عصری آگہی
سنتے ہیں دنیا سے بڑا ہے مریخ۔بے جان خلا میں جو کھڑا ہے مریخ
اب اس کی بھی جانب ہے رواں امریکہ۔صدیوں سے جو ویران پڑا ہے مریخ
احباب ملے ابنِ شریف ابنِ شریف ۔فطرت سے مگر ابنِ حریف ابنِ حریف
چہرے پہ نظر آئے نمائش کے خلوص۔دل ان کا مگر بغضِ دریا سے ہے کثیف 
متفرق مضامین
کیوں اہل جفا سے ہو وفا کی امید۔خاموش فضاؤں سے صدا کی امید
بے وجہ لگائے ہوئے بیٹھے ہو شمیمؔ۔ان دھوپ کے ٹکڑوں سے گھٹا کی امید 
رکھتا نہ کوئی تاج یہ تیرے سر پر۔جاتا نہ کوئی جھانکنے تیرے در پر 
اے سنگ! تجھ پر کس آزر کا کرم۔بھگوان بنا بیٹھا ہے جو تو گھر پر
اندرسے بہت ٹوٹ گیا ہوں میں بھی۔چھالوں کی طرح پھوٹ گیا ہوں میں بھی
اے زندگی! آ مجھ کو منا نے کے لئے۔بچوں کی طرح روٹھ گیا ہوں میں بھی
ہندوپاک کے بہت سے رباعی گو یوں نے بچوں کے لئے خوبصورت رباعیات تشکیل دی ہیں۔ہندوستان میں حافظ کرناٹکی‘طہور منصوری نگاہ اور دیگر شاعروں کے اسمائے گرامی سامنے کے نام ہیں۔شمیم انجم وارثی نے بھی بچوں کے اذہان کو صالح اقدار کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ عمل قابل تعریف بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔ہم سب شاعروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ آنے والی نسل کو صالح اقدار اور اپنے مذہب کی تعلیم دینے کی کوشش کریں تاکہ ایک صحت مند معاشرہ کی تشکیل ہو سکے۔
دولت نے شہرت سے خدا خوش ہوگا۔شکوہ سے نہ غیبت سے خدا خوش ہوگا
یہ بات کتابوں میں لکھی ہے بچو!۔ماں باپ کی خدمت سے خدا خوش ہو گا
٭
اللہ سے بندوں کو ملاتی ہے نماز،انسان کے رتبے کو بڑھاتی ہے نماز
بچو! یہ برائی سے بچاتی ہے ہمیں،حق راہ پہ چلنے کو بتاتی ہے نماز
شمیم انجم وارثی کی رباعیات میں مضامین کا تنوع صاف نظر آتا ہے۔ان کی رباعیات میں حمدیہ‘نعتیہ‘ منقبتی ‘عاشقانہ ‘صوفیانہ‘ اخلاقی‘سماجی‘فکری‘ فلسفیانہ‘ناصحانہ‘حکیمانہ اور اخلاقی مضامین کا گلشنِ صد رنگ نظر آتا ہے۔مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ شمیم انجم کی رباعیات اس صنف کے جملہ محاسن سے    لبریز ہیں یعنی ان کی رباعیات عروضی طور پر بحرہزج سے مختص ہیں۔۲۴؍واں اوزان کا آزادی سے استعمال ہوا ہے۔ صرف ارکانِ عشرہ ہی کوشامل رباعی رکھا گیا ہے۔ سبب بعد سب اور وتد بعد وتد کے اصول کی سختی سے پابندی کی گئی ہے۔ہر مصرع میں صرف چار ارکان ہی کا استعمال ہوا ہے۔پہلا دوسرا اور چوتھا مصرع مقفیٰ رکھا گیا ہے۔زیادہ تر مصاریع خود مکتفی ہیں۔و حدتِ خیال کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ اور چوتھا مصرع جامع اور جاندار ہے۔ یہ وہ محاسن ہیں جو مل جل کر عمدہ رباعی کو وجود میں لاتے ہیں اور یہ محاسن ِ رباعی شمیم انجم وارثی کے یہاں فروانی ہے سے موجود ہیں۔
اگر مستثنیات سے صرف نظر کیا جائے تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ’’ورق ورق شمیم‘‘ کی زبان صاف سلیس اورر وانی لئے ہوئے ہے ۔یہی روانی صنفِ رباعی کے لئے بہت اہم ہے۔ مندر جہ بالا تحریر سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ شمیم انجم وارثی کا دیوانِ رباعیات’’ورق ورق شمیم‘‘ اردو شاعری کے گلشن میں ایک نادر پھول کی مانند ہے جس کی خوشبو اہل ادب کے دلوں کو فرحت و انبساط سے ہم کنار کرتی ہے۔
٭٭٭ 

Post a Comment

Previous Post Next Post