ڈاکٹر ماجد دیوبندی
وائس چیئر مین ،اردو اکادمی،دہلی
نئی تخلیقی اُڑان کے شاعر:شمیم انجم وارثی
شاعر کو ایک ماہر مصور تسلیم کیا گیا ہے‘ اس لیے کہ وہ جمالیاتی محسوسات کو رنگ و آہنگ کے ساتھ ایسے دلنشیں انداز میں بیان کرتا ہے کہ وہ مجسم شعر بن جائے۔مشرقی شعریات کے ماہر علامہ شبلی نعمانی نے کہا تھا کہ جو جذبات الفاظ کے ذریعہ ادا ہوں وہ شعر ہیں…غزل کو اردو شاعری کی مہذب ترین صنف کا اعتبار حاصل ہے‘ اس لئے غزل کی تمام شاعری نیم خوابی اور نیم بیداری کا ایک حسین گلدستہ ہے جو قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کئے بغیر نہیں رہتا۔
شاعر جب راحت ‘خوشبو اور زندگی کی تلخ و ترش سچائیوں کو الفاظ میں ڈھال کر پیش کرتا ہے تو وہ ایک معتبر آواز بن جاتی ہے۔ وہ معتبر آواز جب شاعری میں نت نئے تجربے بھی کرے تو اس آواز کو بلا شبہ شمیم انجم وارثی ہی کہا جانا چاہئے۔ شمیم انجم وارثی ہمارے عہد کے ان شعرا میں ہیں جنھوں نے شاعری کے نپے تلے اوزان میں نئی تبدیلی میں نئی بندشیں تلاش کی ہیں اور انھیں اس طرح برتا ہے کہ ان کا نیا لہجہ نت نئے صنفی تجربوں کی شکل میں آتا ہے۔
’’خواب خواب چنگاری‘‘ان کا ایسا مجموعۂ منظومات ہے جس میں ۲۷؍ اصنافِ شعری کو مختلف النوع تجربوں کے ساتھ پیش کیا ہے ۔اس میں ترائلہ(حمد) ہے تو غزل نما(گیت) بھی ہے ۔ غزل نما کے ساتھ ساتھ دوہا غزل نما اور دوہا غزل بھی ہے۔ دوہا قطعہ ہو یا دو بیتی‘ دوہا مثلث ہو یا گیت ہر جگہ ان کا نرالا انداز متوجہ کرتا ہے۔ مختلف بحور و اوزان کا سہارا لے کر اپنی اختراعیت کے ساتھ ان کیفیات کو پیش کرنا جو شاعر کے دل پر گزرتی ہیں‘ یہ شمیم انجم وارثی کا ہی کام ہوسکتا ہے۔شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے ‘لیکن اس سمندر سے اپنے لئے مخصوص موتی تلاش کرنا اور پھر انھیں نئی رعنائیوں کے ساتھ پیش کرنا شمیم انجم وارثی کا ایسا کارنامہ ہے جو جنوں خیز کیفیات ‘ محسوسات اور لفظیات سے شاعری کو نئی لذتوں کے جہان آباد کی سمت محو پرواز کر دیتا ہے۔
شمیم انجم وارثی کثیر التصانیف شاعر ہیں۔اس سے قبل ان کی ایک درجن سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں‘جو مختلف صنفِ سخن پر مبنی ہے۔ ان میں روپ روپ تیری تجّلی(نعتیہ مجموعہ)‘،’مغربی بنگال میں ماہیا نگاری(تذکرہ)‘،’عرق عرق چہرے(غزلیں)‘،’حرف حرف خوشبو(نعتیہ کلام)،‘’جنگل جنگل مور(بچوں کی نظمیں) ،‘’مغربی بنگال میں دوہا غزل کا سفر(تذکرہ)،‘’چاہت چاہت مسکان
(جاپانی اصناف سخن)،‘’بھیگا بھیگا پیرہن (اردو گیت)،‘’ورق ورق شمیم(رباعیوں کا
دیوان) ، اور’ لفظ لفظ نغمگی(غزلیں)‘شائع ہو کر مقبول ہوچکی ہیں۔
شمیم انجم وارثی نے نعت‘ حمد اور گیت کو نئے پیراہن کے ساتھ پیش کرکے جو اہم کارنامہ انجام دیا ہے اس کے لئے کسی سندِ جواز کی ضرورت نہیں کہ اردو شاعری کا دامن اس طرح و سیع ہوا ہے جس طرح سے اردو زبان میں دیگر زبانوں کے الفاظ نے اردو کا جامہ پہن کر اردو کو مالامال کیا ہے۔مجھے لگتا ہے شمیم انجم وارثی اسی طرح اردو شاعری کے دامن کو وسیع کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔ان کی یہ کوششیں ثمر بار بھی ہو رہی ہیں اور ثمر آور بھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جس طرح اردو ایک مخلوط زبان ہے اسی طرح اس کی شاعری بھی مختلف اصناف سخن کے با وصف بڑی وسعت رکھتی ہے۔شمیم انجم وارثی نے اپنی اختراعیت سے جو نئی صنفیات کی جانب قدم رکھا ہے وہ یقینا اس عہد میں ایک ممتاز شاعر کی حیثیت سے متعارف کرانے کے لئے کافی ہے۔ ان کے ’’غزل نما‘‘(نعتیہ گیت) میں نغموں کے درج ذیل اشعار جہاں گنگنانے پر ہمیں مجبور کرتے ہیں وہیں روح کے اندر کیف و سرور کی ایسی لہر دوڑا دیتے ہیں کہ بس جی ہی جانتا ہے۔ان کا یہ انداز دیکھیے:
کوئی جھونکا ہوا کا نعت جس دم گنگناتا ہے
مدینہ یاد آتا ہے
بیاں کرتا ہے جب اوصاف کوئی شہر طیبہ کا
قسم اللہ کی اس دم جمالِ گنبدِ خضریٰ
نظر میں جگمگاتا ہے
دوہا اگر چہ سنسکرت کا لفظ ہے اور ہندی شاعری کی مقبول ترین صنف ہے ‘لیکن اردو میں قدیم عہد سے ہی دوہا کو اپنا یا گیا ہے اور اس صنف میں ہمارے اساتذہ نے طبع آزمائی کی ہے۔اردووالوں نے جس طرح دوہا کواختیار کیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا کینوس بہت وسیع ہے۔موجودہ شکل میں بر صغیر ہندوپا ک میں قدیم کلاسیکی ادب سے لی گئی صنفِ سخن میں گیت کے بعد دوہا نے بھی کافی ترقی کی ہے اور اب شمیم انجم وارثی نے دوہا غزل کے عنوان سے اس صنف کو نئی جہت دی ہے۔ جس سے شمیم انجم وارثی کی وسعتِ سخن کا اندازہ ہوتا ہے ۔
دوہا غزل کا یہ انداز دیکھیے:
دولہا بن کر رات میں جب آتا ہے چاند ۔ظلمت تیری مانگ کو بھر جاتا ہے چاند
بادل کی جب اوٹ میں چھپ جاتا ہے چاند۔دل کو میرے بے سبب تڑپاتا ہے چاند
اسی طرح جب ان کے حمدیہ دوہا قطعات پڑھتے ہیں تو وجدان جھوم اُٹھتا ہے۔:
گل غنچے برگ و ثمر اللہ تیرا نام۔لیتے ہیں شام و سحر اللہ تیرا نام
لہروں نے بوسہ لیا جانے کتنی بار۔پڑھ کر سطح آب پر اللہ تیرا نام
شمیم انجم وارثی کے یہاں انسانی جذبوں ‘تجربوں اور تنوع کے نئے اسالیب کے ساتھ ذخیرۂ الفاظ وسیع اور مشاہدہ بہت گہرا نظر آتا ہے۔شعر گوئی کی ایک نئی تخلیقی حسیت ان کے رگ و پے میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور ان کی تخلیق کے آئینہ خانہ میں ایسے نئے انداز میں نظر آتی ہے کہ وہ ایک مجسم پیکر بن کر روح کی گہرائیوں میں اتر کر ذہن ودل میں ایک ارتعاش پیدا کر دیتی ہے۔ان کے نئے شعری تجربے نئے تلازموں کے ساتھ جب قاری کی سماعتوں سے ٹکراتے ہیں تو اسے ایک جداگانہ احساس سے روشناس کرا تے ہیں۔
دوہا گیت کا مذکورہ بند یقینا نئی تخلیقی اُڑان کے مصداق قرار پائے گا:
لہروں سے باتیں کروں پوچھوں ترا پیغام
ساحل ساحل میں لکھوںپریتم تیرا نام
دل کو تڑپائے مرے کو ئل کی یہ کوک
پریتم تیری چاہ میں پیاس لگے نہ بھوک
راہ تری تکتی رہوں میں تو صبح وشام
لہروں سے باتیں کروںپوچھوں ترا پیغام
ساحل ساحل میں لکھوں پریتم تیرا نام
ساتھ ہی ماہیا گیت بھی ملاحظہ کرتے چلیں:
حوروں سے ملا ساقی؍خلد جلد پہنچ جاؤں؍وہ جام پلا ساقی
حوروں سے ملا ساقی
شمیم انجم وارثی کی شعروادب میں اختراعات اس بات کی متقاضی ہیں کہ ان کے کلام کی موزونیت کے ساتھ ساتھ ہر ہر صنفِ سخن کے تحت جائزہ لیا جائے اور ان کے مقام کا تعین کیا جائے۔شمیم انجم وارثی کے یہاں جمالیات کو بھی بڑا دخل ہے بلکہ میں یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ انھیں مشرقی اور مغربی شعریات کی جمالیات پر گفتگو کرنے میں مزہ آتا ہے اور وہ اپنے اختراعی ذہن سے جمالیات کو اس طرح برتتے ہیں کہ پڑھتے جائیے اور جھومتے جائیے۔ان کی ایک صنف’تکونی‘ بھی ہے جس میں انھوں نے زندگی اور موت‘موت(زندگی سے) اور مبصر کے تحت جمالیات کے ایسے نمونے پیش کئے ہیں کہ بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔زندگی کا نمونہ دیکھیے:
میں حسین و جمیل ہوں کتنی۔مجھ سے ہی لوگ پیار کرتے ہیں
میں کسی کی نہ منتظر ٹھہری۔سب مرا انتظار کر تے ہیں
آئینہ ہوں میں رنگ و نکہت کا۔لوگ مجھ میں سنگھار کرتے ہیں
اور آخری شعر میں دیکھیے موت کو انھوں نے کتنے خوبصورت الفاظ میں پیش کیا ہے:
تم علامت ہو ناگہانی ہو۔تم جہانِ عدم کی رانی ہو
اور آخر میں’ مبصر ‘کے تحت یہ تجزیہ بھی پڑھتے چلیے:
زندگی اور موت دونوں ہی ۔ہے عنایت خدائے برتر کی
موت وہ چیز با وفا ٹھہری۔جو دلاتی ہے یاد محشر کی
زندگی گر اُجال میں رکھنا
موت کو بھی خیال میں رکھنا
تکونی میں ہی’سورج اور چاند‘،’انسان اور جانور’‘،محبت اور نفرت،‘ ’آگ اور ہوا‘’،تتلی اور بچہ‘ کے تحت جمالیات کے ایسے نمونے پیش کئے ہیں کہ ان سب سے ذہن و دل کے اطراف میں پھولوں کی تازگی جیسی خوشبو ئیں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں ۔
یوں سمجھ لیجیے کہ شمیم انجم وارثی کی نئی تخلیقی اُڑان کا سفر ہو چکا ہے‘ پروان چڑھ رہا ہے اور اپنی نو خیزی سے اُبھر کر فکر و اسلوب کی نئی جولاںگا ہیں تلاش کر رہا ہے۔
شمیم انجم وارثی نے کہہ مکرنیوں میں بھی خوشگوار اور تازہ کار شاعری کے ایسے نمونے پیش کئے ہیں جو ہر اعتبار سے لائق ِ اعتبار ٹھہرتے ہیں ۔نمونہ دیکھئے:
اس کا چہرہ چاند ستارا ؍دیکھ کے بھاگے دور اندھیارا؍جیسے خزاں میں ہو ہریالی؍
اے سکھی! جگنو ؟؍نا سکھی! سالی
بھولے بسرے وہ جب آئے؍خوشبو سے کمرہ بھر جائے؍چال ہے پر اس کی متوالی
اے سکھی!ہرنی؟؍نا سکھی! سالی؟
شمیم انجم وارثی نے جاپانی صنف ِ سخن ہائیکو میں حمد یہ و نعتیہ ’ہائیکو پر‘ بھی طبع آزمائی کی ہے اور حمد و نعت سے بیش بہا موتی پرو کر ایسی تسبیح تیار کی ہے کہ جس کے ہر دانے کو پڑھ کر روح سرشار ہو جاتی ہے۔نمونہ دیکھیے:
کُل کا ربی ہے؍عزت دے یا ذلت دے؍تیری مرضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپؐ سراپا نور ہیں؍چاند ستارے کہکشاں؍آپؐ سے ہیں معمور
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ شمیم انجم وارثی نے اپنی اختراعی شعری اصناف سے ایسی نئی تخلیقی اُڑان بھری ہے کہ ان میں شاعری کی فضا کے ساتھ ساتھ شاعرانہ بصیرت اور بصارت دونوں لہو کی روانی کی طرح رگوں میں دوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
یہ مجموعۂ منظومات اپنے محاسن کے با وصف اور لطائف و غرائب کے سبب یقیناقبولِ عام کی سند حاصل کرے گا۔اس لئے کہ ان کے لہجے کی کاٹ نئی گلابی ساعتوں اور پُر کیف مناظر کی قربتوں میں ڈوب کر کیف و سرور کی ایسی سر مستی و سرشاری پیدا کرتی ہے کہ قاری خود بخود ان کیفیات و محسوسات میں شرابور ہوجاتا ہے اور اس کے قلب و نظر نئی لسانی تراکیب میں کھو جاتے ہیں۔
٭٭٭
Post a Comment