ڈاکٹر فراز حامدی(جے پور)
مادر گیتی کا مکمل شاعر:شمیمؔ انجم وارثی
’’خواب خواب چنگاری ‘‘ایک ایسی مادرکتاب ہے کہ نثر نگار اس کتاب پہ دل سے لکھنے پر آمادہ ہو جائیں تو اس کے بطن سے بشکل ِ کتاب ۲۷؍ اولادِ ذکور ۔و۔اولادِ اناث (بطناً بعد بطنٍ)تولُّد پاسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ کتاب ۲۷؍ اصناف ِ شعری پرمشتمل ہے اور کم از کم ہر صنف پر ایک کتاب تو ترتیب دی ہی جاسکتی ہے۔اس لئے اس کتاب پر لکھنا مجھ ناچیز کے لئے کسی بڑے معرکہ کو سر کرنے یا کوزے میں سمندر کو سمونے کے مترادف ہے۔ شعر گوئی کے اصول شعراء حضرات کے ایجاد کردہ نہیں ہیں۔ اگر مؤجد بحور واوزان (حضرت خلیل بن احمد بصری ) نے دنیاکو یہ پلیٹ فارم نہ دیا ہوتا تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس دارفانی میں یہ چیزیں صرف اور صرف الہامی کیفیات تک سمٹ کر رہ جاتیں اور اس کا کینوس اتنا وسیع و عریض نہ ہوتا ۔ہاں ! کیسا ہوتا یہ کہنے سے قاصر ہوں اس لئے کہ دنیا میں ہر جاننے اور سمجھنے والے سے بہتر جاننے اورسمجھنے والا صرف پروردگارہی ہے۔وہ جیسا چاہتا ہے بیشک ویسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن یہ (خلیل بن احمد بصری) کا احسان عظیم ہے ہم انھیں کے اصول و ضوابط کے اسیر و مقید ہو کر آزادانہ طورشعر کہہ رہے ہیں۔جہاں تک کسی شئے کی ایجاد کا سوال ہے اور اس کی لذت کرب کا سوال ہے تو وہی شخص محسوس کر سکتا ہے جسے درد ہو رہا ہو‘نہ کہ وہ شخصجو درد دیکھ رہا ہو۔ اور اختراع وہ شئے ہے گویا آتش اور شمع کا میل۔اور جیسے ہی دونوں کا میل ہوتا ہے روشنی کا ظہور ہوتا ہے اور گزرتے اوقات کے ساتھ ساتھ شمع برنگِ دیگر جلتی رہتی ہے۔ روشنی سے ہر کوئی محظوظ ہوتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کوئی آگ میں جلتا بھی رہتا ہے۔ اور یہی آگ کو متواتر برنگِ دیگر ہو کر جلتے رہنا ہی اختراعا ت ہیں اور جناب شمیم ؔانجم وارثی نے بھی ظہور کے کرب سے لذت آشنا ہو کر اختراعات کی دہلیز پر قدم رکھا ۔کیونکہ اس کتاب میں ان کی اختراعات بھی شامل ہیں جیسے(غزل نما نعتیہ گیت)۔
کوئی جھونکا ہوا کا نعت جس دم گنگناتا ہے
مدینہ یاد آتا ہے
بیاں کرتا ہے جب اوصاف کوئی شہر طیبہ کا
قسم اللہ کی اُس دم جمالِ گنبد خضریٰ
نظر میں جگمگا تا ہے
حقیقت میں کرم کرتے نہیں جس پر شہ بطحا
شمیمؔ انجم غم و آلام کے منجدھار میں اس کا
سفینہ ڈگمگا تا ہے
حضرت حسّان بن ثابت ؓوہ مداحِ رسولؐتھے کہ جن کی نعت شریف خود سردارِانبیاء سماعت فرمایا کرتے تھے اور تحسین سے بھی نوازا کرتے تھے۔ جب یہ وصفِ نبی ہے اور قرآن بھی شاہد ہے کہ: انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں ۔اور جب وجہہ تخلیق کائنات کے کان لعل کرامات کی یہ شان ہے کہ وہ دور ونزدیک بھی سن لیا کرتے ہیں تو پھر کیسے دل مانے کہ شمیمؔ انجم وارثی نے اپنی اختراع (غزل نما نعتیہ گیت) گنگنایا ہو اور سید الانبیاء نے اسے نہ سماعت فرمایا ہو۔ یقینا یقینا شمیمؔ انجم وارثی کو فیضانِ بارگاہِ نبوی حاصل ہوا ہوگا۔ ان کی دوسری اختراع(غزالہ نما) میں کہتے ہیں:
کون سنتا مرے دردِ دل کی صدا اے خدا اے خدا
ایک تیرے سوا اے خدا اے خدا
ہے یہی آرزو ہے یہی مدعا لب پہ جاری رہے
بس ترا تذکرہ اے خدا اے خدا
دل شمیمؔ حزیں نے جلا کر ترے سامنے رکھ دیا
ہو سکے تو بجھا اے خدا اے خدا
اردو کے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ایک ہندوستانی مسماۃ جب سفیر اردو بن کر امریکہ گئیں تو وہاں کے ایک شہر کی مسماۃ میئر ان کی استقبال میں ائیر پورٹ لینے پہونچیں اور با عزت سفیر اردو کو اپنے آفس لے کر گئیں‘ تبادلۂ خیال ہوتے رہے۔ہندوستانی سفیر اردو نے پوچھاکہ آپ اپنی زندگی کا وہ باب بتائیں جو انتہائی اہم ہو تو امریکی لیڈی مئیر نے کہا کہ میرے پاس عیش و آرائش کی ہر چیز موجود ہے باوجود اس کے کہ میں اندر ہی اندر بہت بے چین اور بے قرار رہتی ہوں ۔ سفیر اردو نے پوچھا وجہ‘ لیڈی مئیر نے کہا کہ نام و نمودجدت و فیشن کی راہ پر اتنا آگے نکل چکی ہوں کہ دل میں خوفِ خدا پیچھے چھوٹ گیا۔یہی وجہ ہے کہ ہم کو سب میسر ہے لیکن دلی سکون میسر نہیں۔لیکن شمیمؔ انجم وارثی کی (غزالہ نما) کے اشعار اس بات کے شاہد ہیں کہ ان کے دل میں خوفِ خدا بھی ہے اور خدا پر ان کا یقین بھی ہے۔ ان کی تیسری اختراع (غزل نما گیت) ہے۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور رُت ہے جواں
تم مگر ہوکہاں
اپنی نظر وں سے کیسے اتاروں تمھیں
جب نہ دیکھوں تڑپ کر پکاروں تمھیں
اک تمنا ہے دل میں ابھی بھی جواں
اپنے ہاتھوں سے اک دن سنواروں تمھیں
آؤ بیٹھو یہاں
چشم دل میں چھپاکر تمھیں آج بھی
دھڑکنوں میں بسا کر تمھیں آج بھی
ساری دنیا سے محفوظ رکھا تمھیں
ہم نے اپنا بنا کر تمھیں آج بھی
اے مہِ ضوفشاں
اس غزل نما کو میں یہی کہوں گا کہ اک شمع جو کبھی موجد غزل نما جناب شاہد جمیلؔ نے جلائی تھی یہ اُسی روشنی کا ظہور ہے کیونکہ یہ شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک۔ بہت خوبصورت اختراع ہے۔ میں جناب شمیمؔ انجم وارثی کو اردو اصنافِ سخن میں اختراعات پر دلی مبارک باد دیتا ہوں اور اللہ سے دعا گو ہوں کہ ان کے قلم سے اور بھی اختراعات ظہور میں آئیں تاکہ صنفِ سخن میں مزید اضافہ ہو۔
بہت کچھ اور کہنا چاہتا تھا لیکن صحت کی وجہ سے لکھنے پڑھنے کا کام بالکل محدود ہو چلا ہے۔ اب عمر کے اس پڑاؤ میں ہوں کہ میرؔ کا وہ شعر یاد آتا ہے ؎
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
٭٭٭
Post a Comment