فکاہیہ وَزَل

ڈاکٹر قمر الزماں 

SBI, MTPS. DVC   Colony
Bankura-722183(W.B)

       فکاہیہ  

  وَزَل

ہمارے عنوان سے ظاہر ہے کہ کسی کو بھی واقفیت نہیں ہو گی ‘ہو بھی کیسے؟ یہ خود ہماری ہی اختراع ہے!اور اس کو ہم پہلی مرتبہ منصۂ شہود پر لا رہے ہیں۔در اصل اس اصطلاح کو ہم نے وضع کیا ہے ایک صنفِ شاعری کے لیے جیسے غزل،ہزل،نظم،رباعیات وغیرہ۔ ویسے تو کہا جا سکتا ہے کہ غزل کی تصغیر ہے جسے کہا جاتا ہے غزل وزل مگر ہمیں اس کو دوسری شکل میں پیش کرنا ہے جس کی روداد اس طرح ہے۔
ہم پر جب شاعری کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر سنجیدہ موڈ ہو تو سنجیدہ اشعار تو نکلتے ہیں لیکن دریں اثنا کچھ مزاحیہ‘ طنزیہ‘ ہزلیہ‘زٹلیہ اشعار بھی بے ساختہ آنے لگتے ہیں۔ مکمل ہونے کے بعد پھر قباحت ہوتی ہے کہ سبھی اشعار ایک ہی پیرائے کے نہیں ہوتے تو کس خانے میں ان کو ڈالا جائے؟غزل ‘ہزل یا زٹل ۔تو پھر سمجھ میں آتا ہے کہ کچھ کو حذف کردیا جائے لیکن طبیعت آمادہ نہیں ہوتی،تو یہ ترکیب نظر آتی ہے کہ سبھی کو چھانٹ کر الگ الگ پیرائے میں ڈال دیا جائے۔ اگر ایسا کرتے ہیں تو کسی کی تعداد مناسب ہوتی ہے تو کسی کی نہیں۔ تو پھر ان میں اضافہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ایسا کرنے سے آورد کی صورت ہو جاتی ہے اور اشعار بھرتی کے لگنے لگتے ہیں۔اسی طرح ظرافت کا موڈ ہو تو اکثر بیچ میں سنجیدہ اشعار بھی سر اٹھانے لگتے ہیں۔
اس بنا پر ہمیں احساس ہوا کہ در اصل انسان کا موڈ پل پل بدلتا رہتا ہے اس لیے اشعار کی ماہیت بھی بدلتی رہتی ہے۔یہی کشمکش ایک زمانے میں ڈرامے کے اصناف میں بھی تھی۔ یونان(جہاں ڈرامے کی ابتدا ہوئی)میں ڈرامے عموماً المیہ(Tragedy)ہی ہوتے تھے اور ان کو ہی مستند مانا جاتا تھا۔ طربیہ(Comedy)کم ہی ہوتے تھے اور ان کو کمتر درجے کا مانا جاتا تھا۔ان کا خیال تھا کہ زندگی سرتا سر ایک المیہ ہے اور ڈراما چونکہ زندگی کا آئینہ دار ہے اس لیے اس کو المیہ ہی ہونا چاہئے۔یہ خیال رومن اور فرانسیسی عہد تک رہا۔ انگریزی میں شیکسپئر نے اس کا دھڑا بدل دیا۔اس نے المیہ کے ساتھ طربیہ کو بھی اہم بتایا۔بلکہ ایک نئی طرزنکالی المیہ طربیہ(Tragedy-Comedy)جو بہت مقبول ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ  
زندگی نہ صرف المیہ ہے اور نہ طربیہ بلکہ ان دونوں کا امتزاج ہے۔زندگی  

میںدکھ کے لمحے آتے ہیں تو خوشی کے یا رونے کے مواقع بھی آتے ہیں تو ہنسنے کے بھی۔پھر مغربی ادبی افکار میں ایک تبدیلی اور آئی جو کہ حالیہ ہے۔ اس کے علاوہ ڈراما یا ناول میں کہانی‘پلاٹ(Plot)وغیرہ ہونا ضروری نہیں‘کوئی مربوط شکل ہونی ضروری نہیں‘کوئی ابتدا یا انتہا (Climax) اور اختتام ضروری نہیں۔ادب زندگی کا آئینہ دار ہے اور زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی مربوط شکل نہیں ہوتی‘صرف واقعات اور کردار ہوتے ہیں۔اس لیے ڈرامے اور ناول میں بھی یہی ہونا چاہئے یعنی یہ صرف کردار اور واقعات(Episode)پر مبنی ہو نا چاہئے۔یہ شکل اس دور میں جاری ہے۔ 
اس کا نام دیا گیا ہے:مہمل ڈرامہ(Absurd drama)‘مہمل ناول(Absurd Novel)اس کی ایک معروف مثال ہے ریڈیاڑ کلیپینگ(Rudyard Kliping)کا ناول Kim(کِم)۔ پھر فکشن میں نئی اصطلاح در آئی۔شعورکی رو(Stream of Consciousness) جس کے نامور لوگوں میں ہیں:ورجینا اولف(VirginiaWolf)‘جیمس جوائس(James Joyce)موخرالذکر کی کتاب یولیسیس(Ulysses)اس طرز کی شاہکار تسلیم کی جاتی ہے۔اکثر ان میں ماجرا ایک بیٹھک ہی میں ختم ہوجاتا ہے۔ ایک ہی رَو میں خیالات تابڑ توڑ آتے جاتے ہیں اور کہانی کے تانے بانے بنتے رہتے ہیں۔اردو میں ناول’’آگ کا دریا‘‘کو اس زمرے میں ڈالا گیا  ہے۔حالانکہ ہم اس طرز کی تردید میں کہہ سکتے ہیں کہ عملی زندگی میں یہ مشکل ہے کہ شعور کی رَو بغیر بہکے ہوئے ایک ہی طرف ایک لمبے عرصے تک رواں رہے۔ لیکن یہ ارادتاً کہا جا سکتا ہے جیسے شاعری کی تعریف اس طرح بھی کی جاتی ہے کہ یہ ارادی فعل ہے جو ضابطے کے تحت کیا جا تا ہے ۔مگر یہ کہنا کہ یہ غیر ارادی بالکل نہیں ہوتے غلط ہو گا کیونکہ بے ساختہ فی البدیہہ بھی اشعارنکلتے ہیں۔اسی لیے آمد اور آورداصطلاحیں ہیں۔اور بے ساختگی کے پہلو کو لیا جائے تو اس میں مختلف اقسام کے خیالات کا اظہار کوئی تعجب کی بات نہیں ۔   ؎ 
ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجیے؟
اردو کے مزاج میں سجیلا پن اور کشادگی ہے ۔یہ نیا پن اور بیرونی اثرات کو بخوبی قبول کر لیتا ہے۔ اس میں اس کے پھلتے پھولتے رہنے کا راز ہے۔ ’’جو جھک نہیں سکتا وہ ٹوٹ جاتا ہے‘‘۔مندرجہ بالا وجوہات سے ہمیں یہ خیال آتا ہے کہ 
شاعری جوزندگی کا آئینہ ہے تو اس کی بھی وہی کیفیت ہے تو پھر اس کو بھی کیوں اسی طرز پر برتا جائے؟کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیفیت ہمیں تک محدود نہیں ہوگی بلکہ اوروں کے ساتھ بھی ہوتی ہوگی۔ چناچہ مستند شعراء میں اس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے ۔جیسے غالبؔ جن کی شاعری میں جابجا سنجیدہ اشعار کی جھلک ملتی ہے۔
اسد اللہ ؔخاں تمام ہوا۔اے دریغا وہ رندِ شاہد باز !
دیا ہے خلق کو بھی تااُسے نظر نہ لگے۔بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لئے
پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے 
اسی طرح میرؔ کی شاعری میں بھی جیسے:
گہے زیر برقع گہے گیسوؤں میں۔غرض خوب وہ منہ چُھپا جانتا ہے
ظالم یہ کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ۔اس چال پہ چلے گی تلوار رفتہ رفتہ
بر سبیلِ تذکرہ غالبؔ داستانِ امیر حمزہ کے دل دادہ تھے ،یہاں تک کہ انھوں نے اپنا نام بھی اسی سے منتخب کیا۔مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ ۔۔۔۔۔۔۔اس میں صرف مرزا اور خان کے اضافے ہیں جو کہ داستان میں نہیں ہیں۔وہاں ہے ’اسد اللہ غالب‘ان کے اس مصرع میں بھی اس کی جھلک ہے ۔    ؎
حمزہ کا قصہ ہوا ۔عشق کا چرچا نہ ہوا
اسی طرح میر ؔکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ لکھنؤ گئے تو نواب نے ان کو رہائش گاہ دی۔میرؔ صاحب جس کمرے میں رہے اس سے باہر جھانک کر بھی نہیں دیکھا ،کھڑکیاں بند ہی بند رہیں۔بس شعروشاعری ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔
ان وجوہات سے ہمیں یہ خیال آتا ہے کہ شاعری بھی زندگی کا آئینہ ہے تو پھر اس کو بھی کیوں نہیں اس طرز پر برتا جاسکتا ہے ؟اس طرح وَزَل اور غزل کے پیرائے میں کہے گئے اشعار ہوں گے ،جن میں سنجیدہ، نیم سنجیدہ اور غیر سنجیدہ تینوں کا اختلاط ہوتا ہے۔گویا یہ غزل،ہزل اور زٹل کی مخلوط شکل ہو گی۔ ہاں! غزل،ہزل اور زٹل جب کہ مسلسل ہو سکتے ہیں تو وزل میں اس کی گنجائش نہیں ہوگی۔اب ہم نمونۂ کلام ِ وزل پیش کرنا چاہیں گے۔ 
سنجیدہ: پسِ پردہ دل آزاری کی سازش خوب ہوتی ہے
مگر جو روبرو ہوں تو ستائش خوب ہوتی ہے
ایضاً: کبھی ان سے جو ملتا ہوں نوازش خوب ہوتی ہے
مگر جو سرگرانی ہو تو یورش خوب ہوتی ہے
نیم سنجیدہ: ظرافت بھی اگر ہوتو مزہ دوبالا ہوتا ہے
غزل کی ہو ادا ایسی تو شورش خوب ہوتی ہے
ایضاً: مقیّد ہوں تو رہتے مبتلا ہیں فکر میں اپنے
اگر آزاد ہوتے ہیں تو بندش خوب ہوتی ہے
سنجیدہ: ہے کیسی زندگی یہ آج کل ایمان والوں کی
بدن ہے روح سے خالی‘نمائش خوب ہوتی ہے
ایضاً: معمّا ہے مگر آشفتگاں کی شاد فطرت بھی
نظر سے پھول گرتا ہے جو آتش خوب ہوتی ہے
نیم سنجیدہ: یہی قدرت کی ضد شاید ہے میری زود فطرت سے
نکلنے کا ارداہ ہوتو بارش خوب ہوتی ہے
غیر سنجیدہ: یہ حتماً کہہ نہیں سکتا کہ ہے یہ اختراع میری
اگر ہو ضعف معدے میں تو کشمش خوب ہوتی ہے
ایضاً: غذامرغوب ہو مجھ کو مجھے ایسا نہیں لگتا
مگر بیماری میں کھانے کی خواہش خوب ہوتی ہے
ایضاً: جو گرمی حد سے بڑھ جائے کلیجہ پھنکنے لگتا ہے
مگر ٹھنڈک جو بڑھ جائے تو خارش خوب ہوتی ہے
نیم سنجیدہ: کسی کو یوں تو مرنے کا خیال آتا نہیں لیکن
جو رنجیدہ طبیعت ہوتو گردش خوب ہوتی ہے
ایضاً: رقیبوں سے مجھے ملنے میں وحشت تو نہیں ہوتی
مگر ہے المیہ یہ بھی کہ سوزش خوب ہوتی ہے
سنجیدہ: اسی میں کامیابی ہے‘یہی فطرت ہے انساں کی
ارادہ ہو اگر پکا تو کوشش خوب ہوتی ہے
ایضاً: سنا ہم نے زماں ؔہے جو‘مکرّر اس کو کہتا ہوں
محبت ہو اگر دل میں تو رنجش خوب ہوتی ہے
 نوٹ:سنجیدہ شعر غزل کا‘نیم سنجیدہ شعرہزل کا‘غیر سنجیدہ شعر زٹل کامخفّفات کی تشریحات بہ طرز ابجد‘ہوّز‘کلمن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سَن…سنجیدہ شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل کا شعر
نَس…نیم سنجیدہ شعر…ہزل کا شعر
غَس۔۔۔۔۔۔۔غیر سنجیدہ شعر…زٹل کا شعر
مندرجہ بالا نمونۂ کلام پر غور کریں توسَن کی تعد چھ آتی ہے ،نس کی تعداد پانچ اور غس کی تعدادصرف تین۔کلّیے کے مطابق غزل میں اشعار کی تعداد کم ازکم پانچ ہو نی چاہئے،اس طرح یہاں یہ ٹھیک ہے،ہال کے لیے بھی ٹھیک ہے، لیکن زٹل میں یہ کم پڑجاتے ہیں تو اس میں بھرتی کے اشعار لانے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔تو اس کی کیا ضرورت ہے؟ اسی طرح رہنے دیا جائے۔وزل بنا دیا جائے۔اس صنف کے لیے کچھ اور نام بھی تجویز کرنا چاہوں گا غزلل(بر وزن مدلل)یا غزل مدلل بھی ہو سکتا ہے ’’ سرِتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے‘ ‘
جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ مندرجہ بالا نمونۂ کلام میں کس طرح کی سنجیدگی، نیم سنجیدگی اور غیر سنجیدگی کے پہلو یکجا ہیں ۔اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ شاعری ایک ذہنی رو کے تحت ہوتی ہے اور ذہنی رَو ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ 
اسی طرح ہزلیہ شاعری یاور زٹلیات میں بھی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں سنجیدہ عناصر بھی آجاتے ہیں جیسے جعفر زٹلی،چرکین کے اشعار :جعفر زٹلی کہتا ہے:
غم مخور‘صبر کن کہ میدانی ۔کس کجا می کندتواضع لنڈ
چرکیں نے شاید کچھ اس طرح کہا ہے:
جنگ میں جب تیغ کھینچی   حیدرِ کرّار نے
بھڑ بھڑا کے ہگ دیاتھا لشکر کفار نے 
  پہلے شعر میں پہلا مصرع سنجیدہ ہے تو دوسرا بے ہودہ ،دوسرے شعر میں پہلا مصرع بلیغ ہے تو دوسرا مصرع غلیظ۔ 
ہم کہتے ہیں کہـــــــــــ۔۔۔۔۔۔جہاں اتنے سارے اصناف اردو شاعری میں آگئے اور لوگوں نے ان کو طو ہاً و کرہاً قبول بھی کیا جیسے:آزاد غزل‘غزل نما‘ آزاد نظم‘نثری نظم‘ہائیکو ‘ ترائیلے‘ماہیے وغیرہ وغیرہ ہیں وہاں ایک اور صنف کی گنجائش کیوں نہیں نکل سکتی؟بس دل میں کچھ وسعت اور کشادگی چاہئے۔ 
ادائے خاص سے قمرُل ‘ہوا ہے نکتہ سرا
صدائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
٭٭٭

Post a Comment

Previous Post Next Post