ہمہ جہت فن کار علیم صبا نویدی

ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی

زبیدہ ڈگری کالج،جے نگر،شکاری پور
شیموگہ،کرناٹک۔۵۷۷۴۲۷
Mob:9945462187


ہمہ جہت فن کار علیم صبا نویدی

مناظر صاحب کا ناقدانہ اعتراف

ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اردو زبان وادب کے ایسے شہہ سوار ہیں جن کی رکاب پر ہاتھ ڈالنا کسی کے بس کی بات نہیں۔وہ جتنے تیز گام ہیں اتنے ہی نیک نام بھی ہیں۔نیک نام اس معنیٰ میں کہ وہ اپنے عزیزوں کی حوصلہ افزائی سے کبھی نہیں چوکتے۔اور ایسے لوگوں پر بھی مضامین اور کتابیں لکھ دیتے ہیں جن پر ان سے پہلے کوئی دوسرا قلم اٹھانا پسند نہیں کرتا ہے۔ایسی مقبولیت‘علمیت اور انکسارشاید و باید ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان سے ہزار اختلاف رکھنے والے لوگ بھی ان کی ادب اور  ادیب پروری اور زبان وادب کے فروغ کی سچی کاوش کو سراہنے میں ذرا بھی تکلف سے کام نہیں لیتے ہیں۔شمال میں با حیات زرخیز قلم کاروں میں اگر ایک طرف ناوک حمزہ پوری ‘ڈاکٹر مناطر عاشق ہرگانوی کا نام سر فہرست ہے تودکن میں بالخصوص تمل ناڈو میں علیم صبا نویدی کا نام بہت ہی نمایاں اور ممتاز ہے۔اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ تمام بسیار نویسوں میں ایک خاص طرح کا رشتہ بھی ہے۔یعنی ناوک حمزہ پوری‘ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی‘ علیم صبا نویدی‘نذیر فتح پوری وغیرہ کسی نہ کسی سطح پر ایک دوسرے سے جڑے ہویے بھی ہیں۔جس سے غالباً ایک دوسرے کو خوب خوب تحریک ملتی ہے اور ان حضرات کی کتابیں شائع ہو ہوکر ادب کی سمت و رفتار کااحساس دلاتی رہتی ہیں۔اس فہرست میں سیفی سرونجی کو بھی شامل کرنا چاہیے۔خیر یہ تو کچھ عمومی باتیں ہوئیں۔خاص بات یہ ہے کہ مناظر صاحب نہ صرف یہ کہ اپنے ہمعصروں میں کافی نمایاں اور منفرد نظر آتے ہیںبلکہ ہم چشموں میں بھی ایک خاص طرح کا انفراد و امتیاز رکھتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ مطالعہ کی کثرت اور ہر وقت جاگتے رہنے کی وجہ سے وہ اپنے آپ میں ایک چھاپہ خانہ بن چکے ہیں۔اگر کوئی شخص ہر وقت کاغذ قلم لے کر ان کی خدمت میں حاضر رہے تو وہ بہ آسانی چوبیس گھنٹے میں ایک کتاب لکھوادیں گے وہ بھی اس پایہ کی کہ وہ اپنے مواد اور موضوع کی تحدیدی فضا میں خصوصی حوالے کا درجہ حاصل کر لے گی۔اس وقت میرے پیش نظر ان کی نئی کتاب ’’علیم صبا نویدی ہمہ جہت فن کار‘‘ہے۔ اس کتاب میں مناظر صاحب نے ایمانداری اور ادبی دیانتداری کا ثبوت پیش کرتے ہویے علیم صبا سے اپنے دیرینہ تعلقات کے باوجود ان کی 
خدمات کا بہت ہی معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے‘اور علیم صبا کی تحقیقی و تنقیدی اور تخلیقی کاوشوں پر بڑے غیر جانبدارانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے جس سے علیم صبا نویدی کی ہمہ جہت علمی و تخلیقی شخصیت کے مختلف گوشے اپنی کمی و بیشی کے ساتھ روشن ہو گیے ہیں۔ اس کتاب کے دیکھنے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر مناظر صاحب تفہیم شعر وادب کے معاملے میں اور ادب و ادیب کے تعین قدرکے معاملے میں کسی قسم کی رو رعایت سے کام نہیں لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی بسیار نویسی اپنا وقار نہیں کھوتی ہے۔چنانچہ مناظر صاحب نے بحیثیت ناقد کے علیم صبا نویدی کا کردار واضح کرتے ہویے لکھا ہے کہ’’علیم صبا نویدی نے اپنے تنقیدی مضامین کے ذریعہ اصناف اور شخصیات سے متعلق جس ادبی رسم و سلوک تک رسائی حاصل کی ہے اس میں معنوی اور فنی اشتراک ہے ‘رہبری ہے‘نیے التزام ہیں اور فن پارے کے رو برو عجز بھی ہے۔‘‘
یہ بالکل درست ہے۔ صبا نویدی کی کوئی بھی تنقیدی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے وہ عام طور پر فن کے سامنے عاجز ہی نظر آتے ہیں۔ یعنی وہ بحیثیت ناقد کے تحکمانہ یا حاکمانہ انداز نہیں اختیار کرتے ہیں۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فن کی عظمت کے قائل ہیں اور اسے اپنی ناقدانہ صلاحیتوں سے رگڑ ڈالنے کے قائل نہیں ہیں۔اور رہی بات ناقدانہ رہبری کی تو یہ بڑی بات ہے ۔یہ کارنامہ تو خود مناظر صاحب بھی ادا نہیں کر پایے ہیںتو علیم صبا نویدی بھلا یہ کارنامہ کیوں کر انجام دے سکتے ہیں۔میرے کہنے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ مناظر صاحب یا علیم صاحب ناقدانہ بصیرت کی وہ تاب نہیں رکھتے ہیں جو تنقید کی نئی جہتوں کو اجال سکے۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر ناقدانہ رہبری کا حق وہی لوگ ادا کرپاتے ہیں جو فن اور فن کار اور تخلیقی شہ پارے سے تنقید اور تنقیدی فراست کو بلند تر یا کم از کم ہم پلہ سمجھتے ہیں۔اردو زبان وادب میں حالیؔ‘کلیم الدین احمد‘حسن عسکری‘نارنگ اور فاروقی صاحبان وغیرہ اس کی واضح اور روشن مثالیں ہیں۔
ویسے یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ بہت سے معاملوں میں مناظر صاحب کی تنقیدی فراست نے رہبری کا حق ادا کیا ہے اور کئی نئی اصناف شاعری 
سے نہ صرف یہ کہ اردو شعروادب کو متعارف کرایا ہے بلکہ اس کے مطالعے اور اس کے تعین قدر‘ اور اس کی تنقید کے مختلف لوازمات کے معاملے میں انھوں نے رہبری بھی کی ہے۔اور بعض معاملوں میں یہی کام علیم صاحب کی تنقید نے بھی کیا ہے۔ اس لیے تنقیدی رہبری پر بہت زیادہ چونکنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مناظر صاحب نے علیم صبا کے لکھے مضامین اور کتابوں کا جائزہ ‘ کتابوں اور مضامین سے لیے گیے اقتباسات کی روشنی میں بڑی فراست سے کام لیا ہے۔اور بالخصوص علیم صبا نویدی نے گیت اور سانیٹ سے متعلق جو معلوماتی مضامین لکھے ہیں ان کی تعریف کی ہے۔مگر لوری پر علیم صبا نویدی نے جو کچھ بھی لکھا ہے اس کی تشنہ تکمیلی پر بھی مناظر صاحب نے بھر پور روشنی ڈالی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ’’لوری کا شمار لوک ادب میں ہوتا ہے ۔یہ فطری جذبہ ہے کہ ماں ہر حال میں لوری گاتی ہے ۔ہر ملک اور ہر نسل کی یہ مقبول صنف تحریری شکل میں بھی ملتی ہے لیکن دنیا کی زبانوں میں اس پر وافر سرمایہ نہیں ملتا ۔اردو میں بھی یہ صنف نظر انداز کی جا رہی ہے حالانکہ بعض شعرا نے لوری میں تجربے کیے ہیں اور اتنا سرمایہ ضرور ہے کہ ایک انتخاب سامنے آجایے اور تنقیدکی کتاب لکھی جایے۔علیم صبا نویدی نے پہل کرتے ہویے بے حد تشنہ مضمون لکھا ہے ۔انھوں نے قتیل شفائی‘ فیض احمد فیضؔ اورعتیق اللہ کی لوریوں کے حوالے دیے ہیں اور بعض فلمی لوریوں پر توجہ مرکوز کی ہے‘‘۔میں نے یہاں پر یہ اقتباس اس لیے نقل کیا ہے کہ قارئین کو اندازہ ہو جایے کہ مناظر عاشق ہرگانوی صاحب نے محض دوستانہ رشتہ نبھانے کے لیے علیم صبا کی خدمات کے اعتراف میں یہ کتاب تحریر نہیں کی ہے ۔علیم صبا نویدی نے فیضؔ کی لوری یعنی’’فلسطینی بچے کی لوری‘‘پر بحث کرتے ہویے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ لوریاں صرف ماں کا حق ہے۔ماں کے علاوہ کوئی اورلوری نہیں گا سکتی یا گا سکتا ہے۔ ان کاا ستدلال یہ ہے کہ کم از کم مرد تو لوری گا ہی نہیں سکتا ہے ۔اس لیے فیض صاحب نے جو لوری لکھی ہے وہ لوری کی روایت کے خلاف ہے۔اب علیم صبا نویدی صاحب کو کون سمجھا یے کہ در اصل لوری گانے کے معاملے میں اولیت مرد کو ہی حاصل ہے۔ظاہر ہے کہ آدم علیہ السلام ‘حوا علیہ السلام کے باپ‘ماں اور شوہر سبھی کچھ ہیں تو ظاہر ہے کہ لوری بھی پہلے پہل حضرت آدم نے ہی گائی ہوگی۔اس لیے اس موضوع پر خواہ مخواہ الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اس کتاب میں مناظر صاحب نے علیم صبا نویدی کی تحقیقی اور تخلیقی کاوشوں کا بھی احاطہ کیا ہے اور ہر جگہ ناقدانہ معروض کو زندہ رکھا ہے جس کی وجہ سے کتاب مطالعے کے قابل بن گئی ہے۔امید کی جاتی ہے کہ یہ کتاب مطالعہ علیم صبا نویدی کے باب میںحوالہ کا درجہ ضرور حاصل کرے گی۔
٭٭٭

Post a Comment

Previous Post Next Post