آنکھیں

سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی

  SyedBaseerulHasanWafaNaqvi
BilalHouse,4/114NaglaMallah 
CivillineAligarh(U.P)Mob:9219782014

                   آنکھیں 

وفیسر شمیم احمد ہمیشہ کی طرح دہلی جانے کے لئے آج پھرعلی گڑھ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر دو پر ہاتھوں میں بیگ تھامے کھڑے تھے ۔ابھی شتابدی آنے میں تھوڑ اوقت باقی تھا۔ان کی نگاہیں مختلف النوع مسافروں کی شکل و صورت کو پڑھتے ہوئے ان کی نفسیاتی کیفیتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔وہ اکثر دنیا میں بکھری ہوئی ہر چھوٹی بڑی چیز چاہے وہ جاندار ہو یا غیر جاندار بڑی غور سے دیکھتے ،بعض دفعہ تو لوگوں کو ان پر شبہ ہونے لگتا کہ وہ یا تو دیوانے ہیں یا پھر ہوس پرست کیونکہ ان کی نظر سے اگر کسی کی نظر مل جاتی تو ایسا معلوم ہوتاکہ وہ سر سے لیکر پائوں تک جسم کے ہر مد وجزر کو اپنی آنکھوں کے ساغر میں بھرنا چاہتے ہیں۔
   ابھی وہ اپنے خیالات کی دنیا میں قدم جمائے کھڑے ہی تھے کہ اچانک شتابدی ٹرین نے ان کے درِ سماعت پر آکر دستک دی اور وہ یکایک جاگ اُٹھے اپنے بیگ کو سنبھالتے ہوئے بوگی نمبر S6کی طرف بڑھے اور اطمینان سے اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے ۔اس سفر میں کہنے کو تو وہ تنہا تھے لیکن وہ تنہا ہوکر بھی تنہا کہاں ہوتے تھے اکثران کے دماغ میں کہانیاں سفر میں ہی جنم لیتی تھیں ۔قدرت نے ان کے قلم کو بڑا زرخیز بنایا تھا ۔ان کاشمار اردو ادب کے بڑے افسانہ نگاروں میں ہوتاتھا۔وہ معمولی سی معمولی شئے پر افسانہ لکھنے کا ہنر جانتے تھے ان کے کئی افسانے مختلف یونیورسٹیوں کے کورس میں بھی شامل تھے۔ابھی وہ ٹھیک سے اپنے اطراف میں نظر بھی نہ کر پائے تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ ان کی سامنے والی سیٹوں پر ایک برقع پوش عورت اور ایک ادھیڑ عمر کا گندمی رنگ کا آدمی اور ایک لڑکا جس کی مسیں بھیگنے ہی والی تھیں بیٹھے ہوئے تھے۔ٹرین کی رفتار کسی الھڑ دوشیزہ کی جوانی کی طرح پوری آب و تاب پر تھی۔پروفیسر شمیم احمد اپنے دل کی دنیا میں ڈوبے ہوئے ’’آدمی مسافر ہے آتا ہے اور جاتا ہے ،آتے جاتے رستے چھوڑ جاتا ہے‘‘گنگناتے ہوئے اپنے اس اکیلے سفرمیں اپنی تنہائی دور کرنے کی آپ ہی کوشش کر رہے تھے۔یکایک سامنے والی برقع پوش خاتون کی نگاہوں میں انھوں نے کچھ ایسا دیکھا کہ انھیں یہ گمان ہونے لگا کہ انھوں نے اس سے پہلے بھی ان آنکھوں سے ملاقات کی ہے۔انھیں لگا کہ انھوں نے ان آنکھوں کے گہرے سمندر میں اپنی تنہائی کی کشتی کو طوفان میں گرفتار بھی دیکھا ہے ،انھوں نے ان آنکھوں کے کنارے پر سیلاب بھی دیکھا ہے اور یہ ہو بہو وہی آنکھیں ہیں جنھوں نے طالبِ علمی کے زمانے میں ان کی نیند کے محلوں کو تعمیر ہی نہ ہونے دیاتھا ۔انھیں لگا شاید یہ وہی آنکھیں ہیں جو انھیں اکثر کالج میں کلاس کے دوران گھورتی رہتی تھیں ۔وہ آنکھیں جب کلاس ختم ہونے کے بعد اپنی منزل کی جانب بڑھتی تھیں تو انکی آنکھیں دور تک ان کا تعاقب کرتی تھیں لیکن انھیں یہ علم نہ تھا کہ یہ آنکھیں انھیں بہت سی کہانیوں کے پلاٹ دے کر دنیا کی بھیڑ میں گم ہو جائیں گی اور ایک خلقت کے چاہنے کے باوجود وہ تمام عمر خود کو تنہا محسوس کریں گے۔اچانک ٹرین رکی تو ان کے خیال کی آنکھیں بھی رک گئیں ان کے سامنے ناشتہ رکھا ہوا تھا جو ریلوے کی طرف سے ہر مسافر کا مقدر ہوتا ہے انھوں نے پانی کی بوتل اٹھائی اور لگاتار اپنے حلق میں اُتارتے چلے گئے لیکن اس دوران بھی ان کی آنکھیں سامنے والی برقع پوش خاتون کی آنکھوں میں ہی ڈوبی ہوئی تھیں ۔کمال کی بات یہ تھی کہ وہ آنکھیں بھی اس بات پر معترض نہ تھیں۔وہ خوب جان چکی تھیں کہ پروفیسر شمیم احمد کی آنکھیں ان کی گہرائیوںمیں اتر چکی ہیں۔
  یکایک برقع پوش خاتون کے برابر بیٹھے ہوئے گندمی رنگ کے آدمی جس کے چہرے پر بڑے بڑے نشان صاف نظر آتے تھے شایدیہ ماضی کی کسی بیماری کی نشانی تھے۔نے کہا:
   بیگم صاحبہ ! دیر سے آپ نے نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا ہے۔۔۔۔ ناشتہ آچکا ہے۔۔۔کچھ کھا پی لیا جائے؟
   جی۔۔۔جی۔۔۔کیوں نہیں جناب۔۔۔
   برقع پوش خاتون نے رخ سے نقاب ہٹا کر ناشتے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اپنے شوہر سے مخاطب ہوکر بولی:
   آپ بھی تو کچھ کھا لیجیے۔۔۔کب تک اخبار پڑھتے رہیں گے۔۔۔پڑھنے کے لئے دنیا بہت ہے۔۔۔کیسے کیسے لوگ ہیں اس دنیا میں ۔۔۔ان کو پڑھیے۔۔۔
   ارے بھئی۔۔۔تم رہیں شاعرہ۔۔۔تمہاری باتیں بھی عجیب ہیں ۔۔۔تم بھی عجیب ہو ۔۔۔یا تو بولتی نہیں۔اپنی دنیا میں گم رہتی ہو یا پھر بولتی ہو تو کچھ بھی بولتی چلی جاتی ہو۔
   پروفیسر شمیم احمد جو ابھی صرف سامنے والی خاتون کی آنکھیں پڑھ رہے تھے۔اب ان کی نگاہوں کے پرندے اس کے رخساروں کی شاخوں پر بھی اتر آئے تھے۔  
    ارے!!!! یہ تو وہی ہے۔۔۔۔ان کی زبان سے اچانک نکلا لیکن انھوں نے خود کہا اور خود ہی سنا۔
  ٹرین پوری رفتار سے مغرب کی جانب وقت کے ساتھ ساتھ دوڑ لگا رہی تھی ۔سوال یہ تھا کہ وقت جیتے گا یا ٹرین؟
   پروفیسر شمیم احمد اپنے ماضی کی طرف سفر کر رہے تھے۔ان کا دماغ بھی اس وقت ٹرین سے کم نہ تھا لیکن یہ ٹرین منزل پہ نہیں بلکہ منزل سے راستے کی طرف دوڑ رہی تھی۔اس راستے کی طرف جہاں سے ان کی آنکھوں نے چمکنا سیکھا تھا۔اچانک ان کے ماضی کے ہاتھوں نے ان کومضبوطی سے تھام لیااور ان کو اس سمندر میں لے جاکر غرق کر دیا جہاں ہر قطرہ اپنے اندر ماضی کی داستانوں کے سیلاب سمیٹے ہوئے تھا۔انھوں نے دیکھا سامنے والی آنکھیں اب کچھ زیادہ ہی مسکرا رہی تھیں۔یہ مسکراہٹ انھیں اس تلوار کی طرح لگی جو زہر میں بجھائی گئی ہو اور کسی بے گناہ کے قتل کا مرتکب بنی ہو۔
  انھیں بخوبی یاد تھا کہ یہ آنکھیں پہلے اتنی سفاک نہ تھیں بلکہ ماضی کے ایک موڑ نے انھیں یاد دلایا کہ یہ آنکھیں ایک روز ایک چائے خانے میں ان کے سامنے بیٹھی ہوئی ہجر کے خوف سے آنسوئوں کی بارش میں نہا رہی تھیں۔انھوں نے جب اس بے موسم بارش کو دیکھا تو اپنی آنکھوں سے کوشش کی کہ ان آنکھوں کے سیلاب پر باندھ بنا دیں لیکن اس کوشش میں ان کی آنکھیں قاصر تھیں البتہ ان کے ہاتھوں نے یہ جسارت کی اور اٹھتے ہوئے طوفان کو معدوم کر دیا۔
   یار! تم بھی پاگل ہو۔۔۔ دنیا میں بہت لوگ ملتے ہیں اور بچھڑتے ہیں ۔۔اس طرح خونِ دل کوئی بہایا جاتا ہے؟؟
 انھوں نے ان آنکھوں کے درد کو کم کرنا چاہا تو کہا:
   آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اب کچھ دن ہی کہ بات ہے ۔۔۔۔یکایک ان آنکھوں کی آواز رندھ گئی اور حلق سے نکلنے والے الفاظ آزادی سے زیادہ قید کو ترجیح دینے لگے۔ ان آنکھوں نے لب کشائی کی پھر کوشش کی:
   آپ جانتے ہیں کہ ہم جلد ہی بچھڑنے والے ہیں؟؟؟
  ہنستے ہوئے شمیم احمد نے کہا تو کیا ہوا؟؟؟ کون سی قیامت آگئی؟؟؟
  آپ نہیں سمجھیں گے۔۔۔
  یہ کہتے ہوئے وہ آنکھیں اٹھیں اور اس طرح چلیں کہ کبھی نہ پلٹنے کا وعدہ کر رہی ہوں۔
  ٹرین سفر کی سیڑھیاں کم کرتی جا رہی تھی دہلی قریب تھی۔
لیکن پروفیسر شمیم احمد ابھی تک علی گڑھ اسٹیشن پر اپنے وجود کے ساتھ گردش کر رہے تھے۔۔۔
آج ان آنکھوں کو ہمیشہ کے لئے اپنے شہر جانا تھا ،وہ شہر جو علی گڑھ سے بہت دور تھا ۔یکایک پلیٹ فارم نمبر دو پر دہلی سے آنے والی شتابدی نے رُک کر شمیم احمد سے سوال کیا :
  کس کی تلاش میں ہو؟؟؟
  وہ دیکھو کھڑکی پر دو آنکھیں تم سے چہرہ پھرائے بیٹھی ہیں۔
   ان آنکھوں کو خفا ہونے کا واقعی حق تھا کیونکہ جب تک وہ قریب تھیں ان کی زبان کو شمیم احمد نے سمجھا ہی نہیں اور جب وہ ہمیشہ کے لئے دور ہونے لگیں تو آج وہ ان کو پانے کی بے سود کوشش کر رہا تھا۔ٹرین نے ہارن دیا ۔ایک ٹرین مشرق کی طرف جا رہی تھی تو ایک ٹرین مغرب کی طرف لیکن وہ دونوں ٹرینوں میں سوار تھے۔سوال یہ تھا کہ ان کا وجود کون سی ٹرین میں زیادہ تھا لکھنو ٔجانے والی ٹرین میں یا دہلی جانے والی ٹرین میں۔
٭٭٭

Post a Comment

Previous Post Next Post