عبد المتین جامیؔ
اردو بازار ،پدم پور کٹک
ورق ورق شمیم اور ایک دیوانِ رباعی
اردو شاعری کے سبھی اصنافِ سخن میں رباعیوں کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔یہ مقام اس لئے حاصل نہیں ہے کہ بہت آسان ہے بلکہ ادق ترین صنف زمانۂ قدیم تا امروز کہلاتی ہے۔ یوں تو گذشتہ تین دہائیوں سے رباعی گوئی کی جانب درجنوں نوجوان شعراء مائل نظر آتے ہیں اوردرجنوں مجموعے بشمول رباعیوں کے دیوان بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔رباعی کے باکمال شعرائے کرام میں درجنوں نو آموز شعرا بھی شامل ہو کر اس صنف کو ترقی دینے لگے ہیں۔ لیکن اس ضمن میں راقم کچھ جداگانہ خیال کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔
چونکہ رباعی کے مروجہ۲۴؍ اوزان میں سے صرف چار اوزان ہی ایسے ہیں جن پر ۹۹؍ فیصد شعراء سیکڑوں رباعیاں کہہ کر رباعی گو شعراء کی صف میں شامل ہونے کا دعویٰ کر بیٹھتے ہیں۔ وہ دونوں اوزان اس طرح کے ہیں :۔
اخرب مکْفوف مکفوف مجبوب مفعول مفاعیل مفاعیل فعل
ــ" مکفوف مکفوف ہتم مفعول مفاعیل مفاعیل فعول
'' مکفوف سالم بتر مفعول مفاعیل مفاعی لن فاع
" مکفوف سالم زلل مفعول مفاعیل مفاعی لن فاع
اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ رباعی کے مخصوص ۲۴؍ اوزان میں سے صرف یہی ۴؍اوزان سب سے زیادہ رواں دواں سادہ اور سہل ہیں۔ کسی بھی نو آموز کو رباعی کی تشکیل میں یہی ۴؍ اوزان زیادہ سے زیادہ کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ رباعی میں زور پیدا کرنا ہر شاعر کی اپنی قوتِ متخیلہ اور تخلیقی صلاحیت پر انحصار کرتا ہے۔یوں بھی رباعی گوئی کے مسلّم اصولوں کے تحت اس کی تخلیق کے دوران جن باتوں کی جانب توجہ کرنی پڑتی ہے وہ رباعی کے چار مصرعوں کے درمیان باہمی ربط و ضبط سے تعلق رکھتی ہیں۔پہلے مصرعے میں تمہیدباندھنا ‘دوسرے مصرعے میں پہلے میں کہی گئی بات کو آگے لے چلنا‘تیسرے مصرعے میںاپنے مطمح ِ نظر کو آخری روپ دینے کے لئے کچھ اشارے کر کے آخری مصرعے میں اختتام پذیر کرنا اور اس کی تاثیر کے طور پر قاری یا سامع کے زبان سے آہ یا واہ نکل جاتی ہے۔ یہی رباعی گوئی کی معراج ہے۔شاعر رباعی گوئی کے اس اصول پر اگر عمل پیرا نہیں ہو
سکاتو رباعی کا مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔راقم الحروف اس سلسلے میں ایک مثال دینے کی
کوشش کرتا ہے۔ناوک حمزہ پوری کی ایک رباعی کا عنوان ہے ’’فوقیتِ عائشہؓ ‘‘
تھیں کاملہ عورتوں میں بنتِ عمران۔اس بات میں عائشہ بھی رکھتی تھیں شان
فوقیتِ عائشہؓ ہے ان پر ایسی ۔کھانوں میں ثرید جیسے ہو زینتِ خوان
محض آخری مصرعے میں حضرت عائشہؓ کی بزرگی کو بیان کرنے کے لئے شروع کے چاروں مصاریع کا سہارا لیا گیا۔ مگر رباعی میں آخری مصرعے سے ہی زور پیدا ہو گیا۔
یہی کیفیت قطعہ نگاری کی بھی ہے۔ایک ہی خیال کو غزل کے دو مصاریع میں بخیر و خوبی سمویا جا سکتا ہے۔یہ قدرے آسان بھی ہے لیکن چار مصرعی قطعات یا رباعیاں ذرا مشکل ترین صنفِ سخن ہیں۔ تا ہم قطعات میں کوئی بھی شاعر غزل کے کسی بھی وزن میںاپنے خیال کو باندھ سکتا ہے‘لیکن شرط یہ ہے کہ چاروں مصرعے ہم وزن ہوں ‘لیکن رباعی گوئی کے ساتھ یہ سہولت ضرور ہے کہ اس کے مروجہ ۲۴؍ اوزان میں سے کسی بھی وزن کوکسی بھی مصرعے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات مسلّم ہے کہ رباعی کے تمام اوزان رواں دواں نہیں ہیں۔عام قاری کو اس کی قرأت میں دقتیں پیش آتی ہیں۔لیکن اس قسم کی رباعیوں کی تخلیق کرنے میں قباحت نہیں ہے۔
اتنی طویل تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ خود ناچیز ہیچ مداں کے چند دوستوں نے خود میری رباعی گوئی پر سوالات اُٹھائے ہیں۔جہاں بھی میری رباعیوں میںمخلوط اوزان در آئے ہیں روانی متاثر ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ میری تخلیقی رو میں کوئی چیزاختیاری نہیں ہوتی۔
بہر حال پرانے دور میں فارسی ہو یااردو ہر دو زبان میں کہی گئی رباعیاں اخلاقی ‘درسی‘ متصوفانہ یا فکری پہلو کو محیط ہو تی تھیں۔لیکن آج کل ہر اس خیال کو رباعیوں میں باندھا جانے لگا ہے جو کہ جدید دور کی غزلوں میں باندھا جا تھا تھا۔رباعی کا کینوس اتنا وسیع تر ہو چکا ہے کہ میرے خیال میں غزل بھی اس پر رشک کرنے لگی ہے۔یوں بھی جہاں تک مخلوط اوزان کے سہارے تمام زبانوں میں کہی گئی رباعیاں تقریباً مخلوط اوزان میں ہی پائی جاتی ہیں۔ ناچیز ہیچ مداں کا یہ خیال ہے کہ یہ کوئی سنگین عیب نہیں ہے۔
آمدم برسرِ مطلب‘شمیم انجم وارثی صاحب کی شخصیت ایک تجرباتی شاعر
کے بطور بے حد مشہور ہے ۔انھوں نے نہ صرف یہ کہ اردو زبان میں مروجہ کئی اصنافِ سخن پر کامیاب تجربے کئے ہیں ‘بلکہ ان کی اختراعی طبیعت نے کئی نئی صنفوں کی داغ بیل ڈالنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ انھوں نے قطعہ ‘دوہا قطعہ‘ دوہا دوبیتی‘ دوہا مثلث‘ماہیا گیت ‘رباعی‘ کہہ مکرنی‘ تکونی‘ غزالہ‘ غزالہ نما‘ ثلاثی‘ تنکا‘رینگا‘ کاتا اوتا‘ چوکا‘ سیڈوکا‘ ہائکو گیت‘ سین ریو وغیرہ درجنوں اصنافِ سخن پر اپنی جولانی طبع کوآزمایا ہے۔ڈاکٹر فراز حامدی نے بجا طور پر ان کو مبارک باد دی ہے کہ ’’جناب شمیم انجم وارثی کو اردو اصنافِ سخن میں اختراعات پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں‘‘۔راقم الحروف فی الحال اختراعات کے بادشاہ شمیم انجم وارثی کی رباعیات پر کچھ لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
یوں تو فی الوقت شمیم انجم وارثی صاحب کا دیوانِ رباعیات میرے سامنے ہے ۔ناوک حمزہ پوری صاحب نے مختصراً ان کی رباعیوں پر اظہار خیال کیا ہے ‘جس سے شمیم صاحب کی رباعی گوئی کے اسلوب پر مختصراً روشنی پڑتی ہے لیکن وقار قادری صاحب نے مقدمہ میں اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ ناچیز کے پاس لکھنے کے لئے کچھ نہیں رہ جاتا۔
موصوف رقم فرما ہیں’’ شمیم انجم کی رباعیاں زندگی کے اعلیٰ و ارفع مقاصد کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔انھوں نے اپنی رباعیوں میں غمِ دوراں‘غمِ جاناں‘ کربِ عالم،زندگی سے مایوسی‘‘حسنِ اخلاق‘ نفرت و بد مزگی‘ دیدارِ رُخِ یار کی فرحت،خطِ یار کو پڑھنے کی مسرت اور اس کی خوشبو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں تخلیقی اظہار کی صلاحیت بے پناہ ہے۔ان کی رباعیوں میں رنگ ِ تصوف کم اور حسنِ اخلاق زیادہ نمایاں نظر آتا ہے‘‘۔
شمیم وارثی کے بارے میں یہ تو بتا ہی دیا گیا ہے کہ وہ اختراعی طبیعت کے مالک ہیں۔ ان کی اختراعات نہ یہ کہ صرف ان کے اسلوب ِ شاعری کوہی محیط ہے بلکہ کسی بھی موضوع کو شاعری کے ڈھانچے میںڈھالنے میں بھی انوکھے پیکر وعلامات کا سہارا لیتے ہیں ۔وہ بہت ڈوب کر اپنے مطمحِ نظر کو پیش کرتے ہیں۔ ان کا قاری ان کے ذہنی رَو میں بہتا چلا جاتا ہے۔ ان کی حمدیہ رباعی کو دیکھئے وہ کس طرح خدائے رب العزت کے حضور اپنے سجدے لُٹانے کے لئے بے تاب ہیں‘اپنی کم مائیگی کے اعتراف کے بغیر یہ کام نا ممکن ہے‘ملاحظہ فرمائیں:
تیرا ہے فلک تیری زمیں ہے یارب۔قدرت پہ تیری عین یقیں ہے یارب
ہے نازِ جبیں سائی مجھے جس کے حضور۔وہ تیرے سوا کوئی نہیں ہے یارب
حمد باری تعالیٰ کے ساتھ ساتھ ایک نعتیہ رباعی بھی ملاحظہ فرمائیں:
یہ ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘کی وسعت کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔
لفظوں میں بیاں کیسے ہو رُتبہ ان کا۔ہے بعد خدا مرتبہ اعلیٰ ان کا
واللیل ہیں زلفیں شہہِ بطحا کی شمیمؔ۔والشمس ہے بیشک رُخِ زیبا ان کا
مذہبِ اسلام میں صد فیصدداخل ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان اللہ کی وحدانیت کے ساتھ ساتھ حضور پُر نورمحمد ﷺ کی رسالت کا اقرار علی الاعلان کرے۔ اللہ خالق و مالک وغیرہ جیسی اچھی صفات کا اقرار کرنے کے علاوہ بلا شرکت ِغیر ے اس کو ہر آفت و مصیبت میں فلاح دینے والا تسلیم کرے اور اس کے نبی پاکﷺ کو آخری نبی و رسول کی حیثیت سے بھی ماننے کے علاوہ روزِ محشر میں تن تنہا انھیں کو شافع کی حیثیت سے بھی قبول کرے۔یہ تو مسلمان ہونے کے لئے پہلی شرط ہے۔ پھر اس کے بعد خود کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی حتی الاامکان کوشش کرے۔ اس طرح سے ہی ایک انسان سچا اور پکا مسلمان ہو سکتا ہے۔شمیم صاحب بھی ایک سچے مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کے کلام میں بطور خاص رباعیوں میں عشقِ خدا اور عشق رسولﷺ میں سرشاری کی کیفیت نظر آتی ہے۔چنانچہ ایک نعتیہ رباعی میں انھوں نے حضور اقدسﷺ کی رسالت پر ایمان کے اظہار کے سلسلے میں کس قدر رطب اللسان ہیں ‘ملاحظہ فرمائیں:
اللہ کے محبوب ہیں شاہِ بطحا۔نبیوں میں بہت خوب ہیں شاہ ِبطحا
ہے ارض و سما نور سے جن کے روشن ۔وہ نور کے مکتوب ہیں شاہِ بطحا
یہ سچ ہے کہ آقائے نامدار ﷺکی سفارش کے بغیر کسی بھی شخص کی بخشش نہیں ہوسکتی ‘اور اس بخشش کا ذریعہ صرف اتباعِ سنت ہی ہے۔ اور محبوبِ خدا ﷺپر کثرت سے درود و سلام بھیجنا ہے۔ شمیم صاحب نے عرض کیا ہے :ہوں لاکھوں لاکھ بار آقا پہ درود۔سلطانِ زمیں سرورِ بطحا پہ درود
بہتر ہے ذریعہ بخشش کا شمیمؔ۔بھیجا کریں ہردم شہِ والا پہ درود
مندرجہ بالا رباعی میں موصوف نے درود شریف پڑھنے کے سلسلے بہت اچھی بات کہی ہے۔اس قسم کا اظہار ِ خیال ہر خاص و عام مسلمان کرتا ہی ہے‘ شعراء بھی کرتے رہتے ہیں لیکن شمیم صاحب اپنی اس رباعی کے ذریعہ رباعی گو ئی میں کمالِ دسترس کا ثبوت بھی چھوڑا ہے۔ مثلاً پہلے مصرعے کو ہی لیجئے ’’ہوں لاکھوں لاکھ بار درود‘‘اس مصرعہ کی تقطیع یوں ہو سکتی ہے:۔مفعولن فاعلن مفاعیل فعول
عروض داں حضرات نے اس وزن کو اخرم اشتر مکفوف اہتم کا نام دیا ہے۔رباعی کی مشکل اوزان میں اس وزن کا بھی شمار ہوتا ہے۔لیکن ماہر فن کے لئے اس وزن میں رباعی کہنا بہت مشکل نہیں ہے۔ چونکہ شمیم انجم وارثی اس میدان کے ماہر سہہ سوار ہیں‘اس طرح کے مصرعے تخلیق کرنا ان کے لئے آسان ہے۔ یوں تو موصوف نے اپنی رباعیوں میں زیادہ تر مصرعے اخرب(مفعول) کے دائرے میں ہی رکھے ہیںلیکن شجرۂ اخرب میں اخرم(مفعولن) کو داخل کرنے میں انھوں نے عار محسوس نہیں کیا ہے۔ در حقیقت رباعی کے اساتذہ کے یہاں زمانۂ قدیم سے ہی یہی ہوتا آرہا ہے ۔آج بھی اگر ہم اساتذہ کی تخلیق کردہ رباعیوں کی جانچ کریں تو ان میں مخلوط اوزان ہی نظر آئیں گے۔ اگر موجودہ عہد کے چند گنے چنے اساتذہ اس طرح کی رباعیوں میں
روانی مجروح ہونے کی بات کہتے ہیں تو کہیں۔ہیچ مداں ناچیز کو خوشی ہوتی ہے کہ تاریخ ساز اساتذہ کے نقوشِ قدم پر چلنے والے رباعی گو آج بھی ہیں۔
بہر کیف شمیم صاحب کے اس دیوان میںچند اور بھی اچھی رباعیاں نظر سے گزریںجن پر مخلوط اوزان پر مشتمل ہونے کا نام نہاد الزام دھرا جا سکتا ہے۔ میں ان کے چند مصرعوں کو یہاں درج کر رہا ہوں:
وہ حسن ضوبار لئے پھرتے ہیں ۔۔۔۔مفعولن مفعول مفاعی لن فع۔۔۔۔ اخرم اخرب اخرب مجبوب
کب تک تاکے جانب دریا ساحل۔۔۔۔مفعولن مفعول مفاعی لن فع۔۔۔۔اخرم اخرب سالم مجبوب
ہر جانب نفرت کی لپکتی ہے آگ۔۔۔۔مفعول مفعول مفا عی لن فاع۔۔۔۔اخرب اخرب سالم زلل
ہر شخص کے اندر ہے فطرت کا نمک۔۔۔۔مفعول مفاعی لن مفعول فعل۔۔۔۔اخرب سالم اخرب مجبوب
کیا چشم ادب دیکھے بیکار کا رقص۔۔۔۔مفعول مفاعی لن مفعول فعول۔۔۔۔اخرب سالم اخرب ہتم
ہوتے ہیں جن لوگوں کے کرتوت سیاہ۔۔۔۔مفعولن مفعول مفاعیل فعول۔۔۔۔اخرم اخرب مکفوف ہتم
کانوں میں رس گھول مگر آہستہ۔۔۔۔مفعولن مفعول مفاعی لن فع۔۔۔۔اخرم اخرب سالم بتر سوفیصد یہ بات حقیقت ہے شمیمؔ۔۔۔۔مفعولن مفعول مفاعیل فعول۔۔۔۔اخرم اخرب مکفوف ہتم میں نے مندرجہ بالا سطور میں شمیم صاحب کی رباعیوں میں سے چند مصرعوں کے ہی حوالے پیش کئے ہیںجنھیں انھوں نے اپنی رباعیوں میں استعمال کئے ہیں۔ان حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ غالباً ۲۴؍ اوزان پر دسترس رکھتے ہیں۔ نا چیز کے خیال میں یہ رباعی گوئی کے مستقبل کے لئے اچھا شگون ہے۔ شمیم صاحب کی رباعی کے مطالعے کے دوران میں نے یہ محسوس کیا کہ ان کے یہاں آورد سے زیادہ آمد کے مصاریع موجود ہیں۔بعض مقامات پر مصرعوں میں اس قدر روانی در آتی ہے کہ ان کا قاری جھوم اُٹھتا ہے ۔مثلاً
بے وجہ بہاروںکی حسیں رات نہ چھوڑ۔جینے کی تمنا ہے تو پھر ساتھ نہ چھوڑ
پکڑا ہے اگر ہاتھ کسی اچھے کا۔اے دوست جہاں چھوڑ دے وہ ہاتھ نہ چھوڑ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طوفان سے خطرہ ہے تو ساحل کو پکڑ۔منزل کی تمنا ہے تو منزل کو پکڑ
یوںہاتھ پکڑنے سے نہیں ہوتاکچھ ۔اے دوست پکڑنا ہے اگر دل کو پکڑ
جہاں تک متنوع موضوعات کی پیش کش کا سوال ہے دیگر رباعی گو شاعر کی طرح شمیم انجم وارثی نے بھی بیشتر موضوعات کو مس کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں جس طرح حمد باری تعالیٰ اور نعت پاک نیز منقبت کہنے کی کوشش پائی جاتی ہے اسی طرح ملک اور سماج نیز جمالیاتی شاعری اور وارداتِ قلبی کا اظہار بھی پایا جاتا ہے۔ اسی طرح بچوں کے اذہان کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے آسان الفاظ میں انھوں نے پند ونصائح کی باتیں بھی کی ہیں۔ حالانکہ شمیم صاحب ایک محتاط رباعی گو شاعر ہیں لیکن ان کی چند رباعیوں کے ایک آدھ مصرعوں میں کچھ چوک ہو گئی ہے۔ شاید کہ ان کو نظر ثانی کا موقع نہیں ملا ہو۔لیکن رباعی کے مصرعوں میں وقوع پذیر ہونے والی چھوٹی سی خامی بھی پوری رباعی کو لے ڈوبتی ہے۔ میں ان کی رباعی کے ان مصرعوں کو ذیل کے سطور میں درج کر رہا ہوں۔
کس منہ سے حمدکروں تری ربِّ کریم
یہ مصرعہ خارج الوزن ہے ۔نہ ہی یہ اخرم میں اور نہ ہی اخرب میں۔اگر مصرعے کو یوں لکھ دیا جائے تو ٹھیک ہو جائے گا:کس منہ سے حمد کرتا میں ربِّ کریم
اور ایک مصرع لیجئے: محترمہ جمیلہ مری زوجۂ نیک
اگر محترمہ کو بہ وزن محترْمہ یعنی مفعولن اور مفعول کے وزن پر پڑھیں تو مصرعہ صحیح ہوگا ورنہ غلظ۔اور ایک مصرعہ ہے:’’ہے سونی دل کی راہ گزر بندہ نواز‘‘
یہ مصرع بھی بظاہر کسی وزن میںنہیں آتا ہے ۔ ممکن ہے ڈی ٹی پی کی غلطی سے رہ،راہ ہو گئی ہے۔راہ کی جگہ رہ ہوجانے سے مصرع صحیح ہو جائے گا۔
لیکن یہاں ایک بات کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شاعر سیکڑوں رباعیاں چند ہی دنوں میں تخلیق کرسکتا ہے اور پورے مجموعے میں دو تین مصرعے ساقط الوزن ہو بھی جائیں تو انھیں نظر انداز کر دینا چاہئے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شمیم انجم وارثی صاحب ایک قادر الکلام شاعر ہیںجنھوں نے بیک وقت کئی اصناف سخن پر کامیابی سے تجربے انجام دئے ہیں اور ہندوستان بھر کے ادباء و شعرا سے داد تحسین بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اب رباعی جیسی ادق صنفِ سخن پر بھی کامیاب تجربے انجام دے کر نئی نسل کے شعرا کے اندر رباعی گوئی کا جوش پیدا کرنے کی ان کی یہ کوشش قابلِ تحسین ہے۔مبارک باد ٭٭٭
Post a Comment