علیم صبا نویدی
192,TriplicaneHighRoad
IInd.Floor,Flat N0.16
Ricemandi Street
Chennai-600005
شمیم انجم وارثی کی نعت گوئی
بہ اعتبار موضوع صنفِ نعت گوئی بہت ہی محترم اور باعثِ عبادت و سعادت ہے اور اسی موقع پر یہ ایسی صنفِ سخن ہے جس میں حد درجہ احتیاط وادب و خلوص کی ضرورت ہے۔ عظیم شعرائے اردو نے اسی احتیاط وادب کے باعث اس کی طرف ڈرتے ڈرتے ہی قدم رکھا۔مگر اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ اس کو شاعری کا موضوع بنانے والے شعراء بھی گزرے ہیں اور ان کی نعت گوئی پر حرف نہیں آیا۔ محض خلوص و عقیدت کے سہارے انھوں نے نعت گوئی کی ہے۔اردو نعت گو شعراء میں ہمیں محسن کاکوری کا نام پہلے لینا پڑتا ہے۔ موصوف نے اس صنف میں بڑی احتیاط برتی ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی شعراء کے نام بہ حیثیت نعت گو لئے جاسکتے ہیں اور یہ فہرست بہت طویل ہے۔
چلیے ہم شمیم انجم وارثی کی نعت گوئی پر ایک نظر ڈالتے چلیں۔موصوف مغربی بنگال کے ایک اہم شاعر ہیں۔ اس نوجوان شاعر نے اپنی شاعری کا آغاز ۱۹۸۷ء کے آس پاس سے کیا ہے۔ انھوں نے مختلف اصناف ِسخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ کئی تصنیفات کے ذریعہ خود کو خوب پہنچوایا ہے۔’’روپ روپ تیری تجلّی‘‘ اور ’’حرف حرف خوشبو‘‘موصوف کے نعتیہ کلام کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ آخرالذکرمجموعہ حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔ اس مجموعے کی چند نعتوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
اس جگہ یہ کہنا ضروری ہے کہ شمیم انجم حضور پُر نور صلعم کے ساتھ بحدِ ؑعقیدت و خلوص اپنا تصور منور کیا ہے۔ان کی لفظیات نکھری ہوئی ہیں۔بہت ہی سہل اور قابل فہم زبان میں شعر کہے ہیں۔ایک سچے اُمتی ہونے کا کردار نبھاتے ہویے اپنے خیالات میں پاکی اور سچائی سموئی ہے۔جس طرح کے خیالات نظم کیے ہیں ان میں تو پہلے پوری احتیاط کو مدِّ نظر رکھا ہے اور پھر حضورؐ کے دربار میں ہمیشہ سر کے بل چلنے کی تمنا کی ہے۔ حضور صلعم کے اوصاف حمیدہ کو سراہنا روایتِ حسانؓ بھی ہے اور فرضِ انسان بھی۔ حضور ؐ کی شان میں سلام کہتے وقت ادب ولحاظ کو دیکھیے کس طرح نبھاتے ہیں:
سلام اس پر کہ جودجہ ِ شفاعت بن کے آیا ہے۔ سلام اس پر جو دو عالم کی رحمت بن کے آیا ہے
سلام اس پر دکھایا جس نے آکر حُسنِ مولائی۔سلام اس پر کہ جو مولا کی صورت بن کے آیا ہے
حضور اکرمؐ کی عقیدت میں ڈوب کر نعت کے بڑے اچھے شعر کہے ہیں جن میں سچی باتوں کے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
میں تو آقا ہی کہوں چاہے منافق جو کہیں۔آپ ہیں صاحبِ کردار مدینے والے
اپنے جیسا انھیں کہنا نہ بشر اے لوگو۔سارے نبیوں کے ہیں سردار مدینے والے
جہاں سر نگوں ہے شمیمؔ عرشِ اعظم۔نبیؐ کا ہے وہ سنگِ در اللہ اللہ
بادۂ عشق مصطفی ؐ کی قسم۔مجھ پہ تو یہ حرام ہو جائے
صبح صادق کی ضیا ہو کہ شبِ تاب کا نور۔دیکھ لے عکس تو جلووں کو پسینہ آئے
پھولوں میں تازگی ہے بہاروں میں مستیاں۔نعتِ رسولؐ پڑھتی ہیں طیبہ کی تتلیاں
رکھ کر میں سر پہ کرتا طوافِ جہاں شمیمؔ ۔مل جاتیں مصطفیٰ ؐ کی جو پاؤں کی جوتیاں
حشر کی دھوپ میں پھیلائیں برائے رحمت ۔سایۂ زلفِ طرحدار رسولِؐ عربی
ذہن ہے سوچ اگر آنکھ ہے پڑھ لے ناداں۔ مرتبہ ان کا تو قرآں سے عیاں ہوتا ہے
اس نعتیہ کلام میں شمیم انجم وارثی نے اپنے خلوص و عقیدت کا جس طرح اظہار کرنا ہے ویسا ہی کیا ہے۔اس میں پوری احتیاط اور حدِّ ادب دکھائی دیتی ہے۔ذہن و دل سے سیر کرتے ہوئے شاعر دیارِ حبیب پُرنور کے چکر لگاتا ہے۔
حضور ؐکا سرتاپا کسی کے ذہن میں کیسے آسکتا ہے۔سوائے نور کے ہم کچھ دیکھ ہی نہیں پاتے۔یہ وہی نور ہے جو لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے نعت سے بہتر ذریعہ ٔ بیان شاعرکے پاس اور کچھ نہیں۔ والہانہ طور پر شعر کہتے وقت شاعر فن کی ضروریات سے قدرے منحرف ہو جاتا ہے اور اس پر زیادہ دھیان دیا جانا نہیں چاہئے ۔ مثلاً حضوؐر کو خطاب کرتے وقت انھوں نے لازمی ضمائر کی طرف دھیان نہیں دیا ہے۔ اگر اس طرف دھیان دیتے تو اس نعت گوئی کو مزید اہمیت حاصل ہوتی۔اسوۂ نبیؐ ہی کی طرف ہمیشہ خیال رکھنا شعراء کا وطیرہ ہے ۔کہیں کہیں ایسی جھلکیاں شمیم انجم کی نعتوں میں بھی مل جاتی ہیں۔ذیل کے اشعار ملاحظہ ہوں:
سلام اس پر جو ابراہیمؑ کی سنت ادائی کی۔سلام اس پر جو قربانی کی عظمت بن کے آیا ہے
غریبوںکے داتا‘ یتیموں کے والی۔لقب جن کا خیر البشر اللہ اللہ
وہی اک نور چمکا پیشانیٔ آدمؑ میں۔جہاں کو آشکارا کردیا نورِ مبیں ہو کر
آپؐ رحمت کے پیمبر ہیں رسولِ ؐعربی۔ہم غلاموں پہ بھی اک لطف نظر ہو جائے
سایہ زمیں پہ پڑنا گوارہ نہ تھا شمیمؔ۔رکھا نہ رب نے اس لئے سایہ رسولؐ کا
شمیم انجم نے بھی حضورؐ پُرنور کے دربار میںاپنی استدعا بار بار رکھی ہے اور رحمتِ حبیب خدا کے طالب رہے ہیں۔ ایسے اشعار ان کے یہاں بدرجۂ اتم ملتے ہیں۔کہیں کہیں پوری نعت ہی استدعائی ہے ۔مثلاً یہ نعت جس کے چند شعر درج ذیل ہیں مکمل گزارش کی رنگ
میں رنگی ہوئی ہے۔
خاکِ طیبہ مری آنکھوں کو میسّر ہو جائے۔اوج پر شاہِ اُمم میرا مقدر ہو جائے
سجدۂ اشک لُٹائے گا مرا دل آقاؐ۔روضۂ پاک نظر کو جو میسر ہو جائے
غیر آباد مرے قلب کا گوشہ گوشہ۔شاہِ کونین کی یادوں سے معطر ہو جائے
ہے یہی عرض تمنا کہ قضا سے پہلے۔حاضری شاہِ ؐعرب آپ کے درپر ہو جائے
اور اسی زمین میں ایک اور نعت کہی ہے جس میں موضوع استدعا کی تکرار ہو ئی ہے مگر یہ بے ساختگی کے باعث ہے۔
اس سے پہلے کہ قضا آ ئے تمناؤں کو۔یا نبیؐ شہرِ مدینہ کا سفر ہو جائے
میں سمجھ لوں گا محبت کی یہی ہے معراج۔مدحتِ نور کا حاصل جو ہنر ہو جائے
مذکورہ بالا شعر سے ظاہر ہے کہ شمیم انجم کو نعت گوئی بے حد عزیز ہے اور اس کے ہنر کے حصول کے لئے جو استدعا ہے وہ قابل غور ہے۔ایک بہترنعت گو ہونے کا انھیں دعویٰ نہیںاور یہ انکساری قابل تحسین ہے۔٭٭٭
Post a Comment