محسن باعشن حسرتؔ
۴؍پرنسپ اِسٹریٹ،پہلی منزل
کولکتا۔۷۰۰۷۲،9748024426
اظہر نیّر اور ان کی غزلیہ شاعری
دُکھوں کی آگ میں جلتی ہے زندگی نیّر
مُجھے تو روز ہی قِسطوں میں مرنا پڑتا ہے
اس حسین مقطع کے خالق ہیں اظہر نیّراور اظہر نیّر نام ہے ایک متحرک اور فعال شخصیت کا۔نیّر کے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا بعد میں اپنے تاثرات‘خیالات اور جذبات کی ترجمانی کے لئے شاعری کی جانب راغب ہوئے اورشاعری کو ہی اپنی دل کی کیفیت کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔اظہر نیّر کا دربھنگہ کے چند گِنے چُنے معروف شعراء میں شمارہوتا ہے۔وہ اپنی مختصر نثری اور آزاد نظموں کے حوالے سے بھی دنیائے سخن میں پہچانے جاتے ہیں۔ان کی تخلیقات ملک کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ان کی کہانیاں اور افسانے بھی وقتاً فوقتاً میری نظر سے گزرتے رہتے ہیں۔شاعری میں جس طرح انھوں نے اثر قائم کیا ہے اُسی طرح نثری ادب میں بھی ان کی ایک نُمایاں پہچان ہے۔ شاعری کی دوسری اِصناف پر بھی وہ طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔
اظہر نیّر کی شاعری کا جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات ہم پر واضح ہوجاتی ہے کہ جہاں انھوں نے جدیدیت کے رنگ کو اپنایا ہے وہیں روایت پسندی کے دامن کو بھی نہیں چھوڑا۔دونوں رنگ میں مل کر اُن کا کلام قارئین کو ایک عجیب لُطف سے ہم کنار کرتا ہے۔اگر ہم ان کی شاعری کو مکمل کرب و احساس کی شاعری کا نام دیں تو بے جا نہ ہوگا ‘ کیونکہ ان کی زندگی ہمیشہ کرب ناکی کے احساس کو اپنے دامن میں سمیٹ کر ہی گزرتی رہی ہے۔ انھوں نے زندگی کے کئی اُتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ کئی طرح کے مرحلے اُن کی راہوں میں حائل ہوئے اور متعدد مسئلے پیدا ہوئے جنھیں ہنستے ہوئے انھوں نے حل کیا۔ اُن کی زندگی مسلسل سفر میں رہی ‘کبھی دھوپ کبھی چھاؤں‘ کبھی غم کبھی خوشی‘کبھی چین کبھی بے چینی‘ کبھی آرام کبھی تکلیف‘کبھی دُکھ کبھی مصیبت‘ سبھوں کو جھیلتے ہوئے ہر ایک سے نبرد آزما ہوتے ہوئے آج ’’ببول کے سائے تلے‘‘ چین و سکون کی تلاش میں چند لمحوں کے لئے ٹھہرے ہیں ‘یہ سوچ کر کہ شاید یہاں سے کوئی ایسی راہ تو ضرور اُس منزل کی سمت جاتی ہوگی جہاں درد وکرب کی گھٹائیں نہ چھائی ہوں صرف خوشی اور مسرت کی بارش
ہو رہی ہو۔
اظہر نیّر اپنی شاعری کو مزید دلکش‘دل پذیر اور اثر انگیز بنانے کے لئے ایسے لفظوں کا سہارا لیا ہے جو اُن کے شعروں میں اکثر گردش کرتے رہتے ہیں جیسے کہ دھوپ‘سمندر‘صحرا‘شجر‘ گاؤں ‘شہر‘ آئینہ ‘شیشہ‘پتھر‘ دشت‘گھر‘شب‘ ببول‘ مقدر‘ تمنّا اور انا۔ ہر شاعر کے ذہن میں اِسی طرح کے چند الفاظ ہوتے ہیں جو نادانستہ طور پر شعروں میں داخل ہوجاتے ہیں۔
شاعر نہایت ہی حسّاس ہوا کرتا ہے اس میںکوئی شک نہیں۔ شاعری کو اگر ہم احساس کا دوسرا نام دیں تو غلط نہیں ہوگا۔ شاعر جو کچھ دیکھتا‘سُنتا‘ اور سمجھتا ہے اُس کو اشعار کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے ۔اظہر نیّر نے بھی یہی کیا ‘انھوں نے جو کچھ بھی دیکھا اور محسوس کیااُسے اپنے اشعار کا جامہ پہنا دیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اُن کے اشعار نے ہمیں کتنا متاثر کیا ۔پہلے اُن کے غزلوں کے چند مطلعے ملاحظہ فرمائیں:
میں اپنے شہر میں اپنا ہی چہرہ کھو بیٹھا۔یہ واقعہ جو سُنایا تو وہ بھی رو بیٹھا
سچ بولنا چاہیں تو بولا نہیں جاتا۔جھوٹوں کے لئے شہربھی چھوڑا نہیں جاتا
درکار نہیں ایسی خودی بھی مرے مولا۔جو چھین لئے ہونٹوں سے ہنسی بھی مرے مولا
شہر سے آکر دھوکہ کھا گیا گاؤں میں۔مخلص انساں نہ پایا کوئی گاؤں میں
کھو گیا عیش و آرام خدا خیر کرے۔کیسے گزرے گی مری شام خدا خیر کرے
جب بھی تو نے کسی آئینہ میں دیکھا ہوگا۔عکس تیرا ہی تجھے دیکھ کے چیخا ہو گا
ہر لمحہ زندگی کو رُلاتی ہے آج تک۔دل کو تمھاری یاد ستاتی ہے آج تک
مندرجہ بالا مطلعے کے شعروں میں اپنے تجربات و مشاہدات کو نمایاں انداز سے پیش کرنے کی سعی کی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ اُن کا یہ شعر ہے:
حادثوں سے گزرتا رہتا ہوں۔ٹوٹتا اور بکھرتا رہتا ہوں
اُن کی زندگی کی مکمل عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔اب آئیے اظہر نیّر کے چند مقطع کے اشعار سے لُطف اندوز ہوتے چلیں:
نیّر ؔنے ہنستے ہنستے کہا الوِداع اُسے۔دل کو مگر جُدائی کے بے حد ملال تھا
آواز پہ آواز وہ دیتا رہا نیّرؔ۔ہم نے اُسے اک بار بھی مڑ کر نہیں دیکھا
نیّر ؔ کسی بھی دوست سے اُمید تھی عبث۔احباب سے کوئی بھی تقاضا فضول تھا
لوگ تھے گرد الاؤ کے مگر میں نیّرؔ
جسم کی آگ کو پانی سے بجھانے بیٹھا
نیّر ؔ مکان بھائیوں کو دے دیامگر
بٹوارہ ہم نے صحن کا ہونے نہیں دیا
بلا سے تم کو دے ماحول تلخیاں نیّرؔ
بس ایک حرفِ محبت زبان پہ رکھنا
دریچہ کھول کے نیّر ؔ نہ دیکھیے باہر۔لہو لُہان مناظر کا سلسلہ ہے ابھی
خون سے اپنے چراغوں کو جلاؤ نیّرؔ۔اِس اندھرے میں ہر اِک سمت اُجالا ہوگا
اظہر نیّر ایک ایسے شاعر کا نام ہے جس نے صحیح معنوں میں زندگی کے مفہوم کو سمجھا ہے اور اُسے اشعار کے قالب میں کچھ اس طرح ڈھالا ہے کہ اُس کا اثر براہِ راست پڑھنے والوں کے ذہن و دل پر ہوا۔تفصیلی واقعات اور حادثات کو مختصر طور پر پیش کرنے کے فن سے بھی وہ اچھی طرح واقف ہیں۔ خود ہی اظہر نیّر نے اپنے کلام کے مقطع کے ذریعہ اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے۔
لوگ کہتے ہیں اُسی شخص کو اظہر نیّر۔جس نے کوزے میں سموئے ہیں سمندر بابا
اب ذرا دیکھئے اُن کے متفرق اشعار:۔
سخاوت جن کا شیوہ ہو‘ محبت جن کا حصہ ہے۔چُھپا کر آستیں میں وہ کبھی خنجر نہیںرکھتے
ایسے انسان سے کبھی اُمیدکیا رکھے کوئی۔دیکھنے میں آدمی ہے دل مگر پتھر کا ہے
حال پتھر کے زمانے کا اگر لکھو گے۔آج کے دور کے انسان کو پتھر لکھنا
بہ وقت شام سمندر میں گر گیا سورج۔تمام دن کی تھکن سے نڈھال ایسا تھا
مِرا گھر ہی کہاں ہے جو ملے گا۔مصیبت ہے کہ گھر گھر ڈھونڈتی ہے
میں نے جو دادِ ستم دی ہے تو ظالم خوش ہے۔اُس کی کم ظرفی مِرا ظرف ذرا دیکھو تو
شاعر وہی مقبول اور معتبر ہوتا ہے جسے وقت اورحالات شاعر تسلیم کر لے اور یہی ہوا ہے اظہر نیّر ؔ کے ساتھ بھی۔انھوں نے اپنے آپ کو شاعر منوایا نہیں بلکہ اُن کے کلام نے خود انھیں ایک معتبر شاعر کی حیثیت سے ادب کے حصار میں لا کھڑا کیا ہے۔اظہر نیّر ؔ سے ابھی اور بھی اُمیدیں وابستہ ہیں۔اُنھیں اور بھی آگے جانا ہے کیونکہ ’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘میری نیک خواہشات اُن ے ساتھ ہیں ۔اُن کے مقطع سے ہی میں نے مضمون شروع کیا تھا اب اُن کے ہی مقطع سے مضمون کو ختم کررہا ہوں:
ہر کسی کو یہ ہُنر آنہیں سکتا نیّرؔ
مختصر لفظوں میں مفہوم بڑھا کر لکھنا
٭٭٭
Post a Comment