قرآن سن کر رُوح نکل گئی
حضرت سیِّدُناابو بکر بن عبد اللہ علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:''ایک دفعہ میں عراق کے جنگلوں میں کئی دن تک حیران و سرگرداں گھومتاپھرتا رہا ۔ میں نے کوئی انسان نہ پایا جس کواپنادوست بنا سکوں۔ اسی دوران چلتے چلتے میری نظر کسی عربی کے بالوں والے خیمے پر پڑی تومیں اس کی طرف بڑھا۔ جب میں دروازے کے پاس پہنچا تواس پر پر دہ لٹک رہا تھا۔ میں نے سلام کیا۔ اندر سے نقاب پوش بوڑھی خاتون نے پوچھا: ''کہاں سے آئے ہو؟'' میں نے کہا :''مکہ سے ۔'' پوچھا : ''کہاں کا ارادہ ہے؟'' میں نے کہا:''شام کا ۔'' یہ سن کر وہ کہنے لگی :''میں دیکھتی ہوں کہ تمہارا اس طرح گھومنا بیکار لوگو ں کے گھومنے کی طرح ہے۔ ایک گوشے میں ٹھہر کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کیوں نہیں کرتے یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے۔ پھر تم اس کھانے کے ٹکڑے کو دیکھوجو تم نے کھایا ہے، اگر یہ حلال ہے تو تیرے باطن کو روشن کردے گا۔''پھر اس نے پوچھا: ''کیا تم قرآنِ پاک پڑھتے ہو؟'' میں نے جواب دیا:''جی ہاں۔'' تواس نے مجھے سورۂ فرقان کی آخری آیات پڑھنے کی فرمائش کی۔ جب میں نے تلاوت کی تو ایک زور دار چیخ نکلی اوروہ بے ہوش ہو گئی۔ جب اِفاقہ ہوا تو مجھے کہنے لگی، ''جب تم نے ان آیاتِ بیّنا ت کی تلاوت کی تو ان کی قراءَ ت کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔'' پھر اس نے دوبارہ پڑھنے کا کہا تو اس کی وہی حالت ہوگئی جیسے
پہلے ہوئی تھی۔ کافی دیر اس پریہی حالت طاری رہی ۔ میں نے دل میں کہا کہ دیکھوں توسہی یہ فوت ہو گئی ہے یا زندہ ہے؟ لیکن پھر میں واپس پلٹ گیا اور ابھی نصف میل ہی چلا تھا کہ مجھے وادی میں کچھ عرب نظر آئے۔ دو لڑکے میری طرف دوڑتے ہوئے آئے، ان کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا:''کیا آپ فلاں جنگل میں بالوں والے خیمہ سے ہوکر آئے ہو؟'' میں نے کہا، ''ہاں۔'' کہنے لگا،''کیا آپ نے بوڑھی عورت کے پاس قرآنِ کریم پڑھا؟''میں نے جواب دیا،''ہاں۔'' تو وہ بولا: ''ربّ ِ کعبہ کی قسم! وہ انتقال کر چکی ہے ۔'' میں ان لڑکوں کے ساتھ چل دیا اور خیمہ کے پاس آیا۔ لڑکی اندر داخل ہوئی اور بوڑھی عورت کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو وہ وصا ل فرما چکی تھیں۔ میں اس لڑکے کے اندازے سے بہت حیران ہوا اور اس لڑکی سے پوچھا: ''یہ دو لڑکے کون ہیں؟''تواس نے بتایا: ''یہ دونوں قبیلہ جعفر کے معزّزین میں سے ہیں۔اور یہ مرنے والی ان کی بہن ہے۔ تیس سال سے اس نے کسی سے کلام نہیں کیا۔جب یہ اس وادی میں تھے تو یہ علیحدہ ہو گئی اور جنگل میں تنہا اپنا خیمہ بسا لیا اور تین دن میں صرف ایک بارکھانا کھاتی تھی ۔''
اے میرے میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کب تک تم فانی لذات میں کھوئے رہو گے اور باقی رہنے والی نیکیوں سے غافل رہو گے؟غنیمت کے اوقات میں جلدی کرو، لغزشوں کو سمجھو اور شبہات سے کنا رہ کشی اختیار کرو۔ کیا بار بار موت کا اعلان کرنے والوں نے تمہیں بیدار نہ کیا؟ کیا نیک مردوں اور عورتوں کے واقعات نے تمہیں جھنجوڑا نہیں؟ جب دن آتاہے تو وہ (نیک مرد اور عورتیں)لذّات(دنیا) کا بائیکاٹ کرتے ہوئے گزارتے ہیں اور جب رات آتی ہے تو محبت بھری آوازوں سے آہ و فغاں کرتے ہیں اور اپنے محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ۔یہی لوگ حقیقی سردار ہیں۔
Post a Comment