غزل

*غزل*

صد حیف چاہتوں کی سبھی ڈور توڑ کر
بچھڑی ہوں آج تجھ سے میں رخ اپنا موڑ کر

تنہائیوں کی آگ میں جل جل کے آج بھی
روتی ہوں اپنے درد کا دامن نچوڑ کر

مجبوریاں تھیں پاؤں کی زنجیر اس لیے
جانا پڑا ہے اپنا ہی گھر بار چھوڑ کر

اب شہر تیرا چھوڑ کے تنہا ہوں اِس قدر
زار و قطار روتی ہوں خود دل کو توڑ کر

پانے کی آرزو میں بہت کچھ گنوا دیا
رکھّا ہے مَیں نے درد *ثمر* لطف چھوڑ کر

*ثمر آرزو*

Post a Comment

Previous Post Next Post