سہارے

*سہارے*

"آپی! غضب ہوگیا..!! سنیں گی تو آپ بھی دنگ رہ جائیں گی! "

"کیا ہوا فردوس ! تیرے سسرال میں تو، سب ٹھیک ہے نا.؟ "

"سسرال میں کیا ہوگا! کچھ نہیں سب ٹھیک ہے. میں تو یہ بتا رہی ہوں کہ ابا عقد ثانی کا ارادہ ظاہر کررہے ہیں!  پتہ نہیں کیا سوجھی ہے انہیں! اس عمر میں اللہ اللہ کرنے کے بجائے وہ سر پر سہرا سجانا چاہتے ہیں.!  ابھی امی کو بچھڑے دن ہی کتنے ہوئے ہیں اور ابا نے انکی یادوں کو فراموش بھی کردیا اور نئی زندگی کی آرزو بھی کر بیٹھے!"

فردوس نے فون پر اپنی بڑی بہن   نازیہ کو شدید لہجے میں آگاہ کیا

" کیا کہہ رہی ہو فردوس.!!!! ایسا ہواتو سسرال میں میرا جینا حرام ہوجائے گا. سب کے طعنے سن سن کر میں شرم سے ڈوب مرونگی. ابا کو کسی بھی طرح اس اقدام سے روکنا ہوگا!"

نازیہ نے بھی جواب میں تشویش ظاہر کی...

"انہوں نے عقد ثانی کے لیے کیا خوب بہانہ تراش لیا ہے کہ امی تو رہیں نہیں... انکے بعدپنشن بند ہوجائے گی. اسلئے سوچا ہے کہ کسی غریب بیوہ یا مطلقہ سے عقد ثانی کرلیں تاکہ انکے بعد اسکے لئے معاشی سہارا مستحکم ہوجائے.!"

فردوس نے عقد ثانی کی معقول وجہ بتائی تو نازیہ نے خوب تردید کر دی ..

"اچھا! کسی بے سہارا کی فکر ہے مگر وہ یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ ہمارا کیا ہوگا ؟ ہم لوگوں کی چھبتی ہوئی نگاہیں کیسے برداشت کریں گے. انکے داماد کیا سوچیں گے. ؟ بلکہ ہنسی اڑائیں گے.  اور ہم بھی امی کی جگہ کسی دوسری عورت کو کیسے برداشت کریں گے. ؟ فردوس انہیں روکنا ہوگا کسی بھی طرح! "

" آپی. آپ بالکل سچ کہہ رہی ہیں . میری نندیں تو بڑی منہ پھٹ ہیں. نہ جانے کتنا مذاق اڑائیں گی میرا.  اور یہ...... ! یہ تو ویسے ہی دوسری شادی کی تمنا میں جی رہے ہیں.!  صاف کہتے ہیں کہ استطاعت ہو تو دوسری شادی کرنے میں کوئی قباحت نہیں.!  اسطرح ایک عورت کو سائباں ملتا ہے.!  کیا خوبصورت بہانہ ہے اپنی زندگی رنگین بنانے کا!  اب اگر ابا نے ایسا کیا تو انہیں بھی شہہ مل جائے گی.! "

" فردوس تو فکر نہ کر . میں ہوں نا!  دیکھتی ہوں کیسے کرتے ہیں!  میں کل ہی آرہی ہوں.!"

غفور صاحب ریٹائیرڈ لیکچرار تھے. کچھ دن پہلے بیگم اچانک چل بسیں. دونوں بیٹاں بیاہی ہوئی تھیں. بیٹا کوئی تھا نہیں. اب ضعیفی اور تنہائی کسی سہارے کی متلاشی تھی. سہارا بھی اور ضرورت بھی. لہذا انہوں نے سوچا کہ کسی ضرورت مند خاتون سے عقد ثانی کرلیں تاکہ جب تک حیات ہے انکی خدمت بھی ہو اور وفات کے بعد انکی پنشن تاحیات اس عورت کو مالی سہارا دے سکے.
لیکن دونوں بیٹیاں مخالفت پر اتر آئیں. اور ہنگامہ کھڑا کردیا.....

" ابا آپ نے کیسے اتنی جلدی امی کو بھلا دیا. انکی خدمت گزاری ، انکا ایثار اور وفا..... کیا کچھ بھی یاد نہیں آپکو ؟ اور ہمارے بارے میں نہیں سوچا کہ ہم کیسے برداشت کرسکیں گے کہ ہماری امی کی جگہ کوئی اور لے!  "

فردوس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے. غفور صاحب گھبرا گئے.

" ارے فردوس بیٹی. تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو. وہ نیک بخت بھلائے جانے والی ہستی نہیں. میرے دل میں اسکا جو مقام تھا وہی رہے گا. تم دونوں اپنے گھر بار کی ہوگئی ہو. میری دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں .... ضعیفی میں قدم قدم پر ہمقدم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے. اسلئے سوچا کہ کسی بے سہارا کا سہارا بن جاؤں!  اور مجھے بھی سہارا مل جائے .!

" نہیں ابا!  اگر آپکو کھانے پینے کی تکلیف ہورہی ہے تو ایک ملازمہ کا بندوبست کردیتے ہیں!  کبھی دل اچاٹ ہوجائے تو ہم دونوں بہنوں کے گھر باری باری آجائیے گا. بچوں میں دل بہل جائے گا. کوئی سوشیل ورک کر لیجئے!  دوست احباب کے ساتھ وقت گزر جائے گا ، مگر خدارا دوسری شادی کی نہ سوچیں !  ہم لوگوں کی تمسخرانہ نگاہوں کا سامنا نہیں کرپائیں گی.!  سسرال میں ہماری ناک کٹ جائے گی .!  آپ یہ ارادہ ترک کردیں " نازیہ نے حتمی لہجے میں کہا

میری پیاری بچیّو!  تم دونوں جذباتی ہورہی ہو  ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچو. میرا یہ قدم کسی بے سہارا عورت کو گھر دے گا ، نام دے گا ، عزت دے گا!  اور میرے بعد میری پنشن اسکے جینے کا سہارا ہوگی. یہ بہت بڑی نیکی ہے میری بیٹی. کسی کو عمر بھر کا تحفظ ملے گا. یہ کوئی شرمسار کرنے والی بات نہیں ہے بیٹی. تم کیوں منفی انداز سے سوچ رہی ہو! غفور صاحب نے صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں بیٹیوں کو سمجھایا مگر وہ اپنی ہی ضد پر اڑی رہیں

" ٹھیک ہے ابا. اگر آپ نے دوسری شادی کرنے کی ٹھان ہی لی ہے تو کرلیجئے اپنے من کی. مگر اس کے بعد ہمارا آپ سے کوئی رشتہ ناتا نہ رہے گا. ہم اس دہلیز پر کبھی قدم نہیں رکھیں گے جہاں کوئی دوسری عورت ہماری ماں کی جگہ لے چکی ہوگی !  آپ شوق سے رہئے گا اپنی نئی بیوی کے ساتھ ! سمجھ لیجئے کہ آپکی بیٹیاں مرگئیں. "

نازیہ نے غضبناک لہجے میں نہایت بدتمیزی سے اپنا فیصلہ سنایا اور فردوس نے بھی اسکی تائید کی.

" بالکل ٹھیک کہا آپی آپ نے. ابا آپ نے جب فیصلہ کرلیا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں آپکو روکنے والے.! سچ ہی کہتے ہیں لوگ.    ....ماں مرجائے تو باپ پرایا ہوجاتاہے .!
ماں سے میکہ تھا وہ نہ رہیں تو اب ہمارا میکے کا مان ہی نہ رہا. امی کے بعد سوچا تھا آپکا دم غنیمت ہے مگر آپ تو اپنی نئی دنیا بسانے کی فکر میں ہیں. " فردوس پھر سے رونے لگی.

غفور صاحب بیٹیوں کے یہ تیور دیکھکر گھبرا گئے. دونوں بیٹیوں میں انکی جان بسی تھی. انہوں شکست خوردہ لہجے میں کہا." ٹھیک ہے. اگر تم دونوں نہیں چاہتیں تو میں عقد ثانی کا ارادہ ترک کردیتا ہوں. مگر اپنے ضعیف باپ سے روٹھ مت جانا. تم دونوں تو میرا سہارا تھیں ہی. میں بس کسی ضرورت مند کو سہارا دینا چاہ رہا تھا.! ایک بات اور بھی تھی جو میں نے تم دونوں کو نہیں بتائی . مجھے شوگر کے سبب اکثر زخم ہوتے رہتے ہیں... ابھی ایسی ہی ایک تکلیف سے گزر رہا ہوں.. ڈاکٹرز نرسوں کا حال تمہیں معلوم ہے. لہذا مرہم پٹی کے لئے مجھے کوئی محرم چاہئے تھا. ملازمائیں تو بیشک کئی مل جائیں گی مگر میری جو تکلیف ہے وہ دور نہیں کرپائیں گی.!  خیر...  اب اس موضوع پر کوئی بات نہ ہوگی  بس تم دونوں بے فکر ہوکر اپنے گھر جاؤ. اب کوئی تمہیں طعنہ نہ دے گا " انہوں نے دونوں بیٹیوں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنے کمرے میں چلے گئے. فردوس اور نازیہ کے چہرے پر فاتحانہ چمک تھی.!!!!

*رخسانہ نازنین*
بیدر کرناٹک

Post a Comment

Previous Post Next Post