چھاؤں کی چاہت میں ملتا ہے مجھے گھر دھوپ کا

چھاؤں کی چاہت میں ملتا ہے مجھے گھر دھوپ کا
فرش پر جس کے بچھا رہتا ہے بستر دھوپ کا
چل رہے ہیں دل میں ٹھنڈی چھاؤں کی خواہش لیے
سر پہ ہے لٹکا ہوا سفاک خنجر دھوپ کا
زندگی اس کے لیے شبنم کا دلکش روپ ہے
جس کی آنکھوں نے نہیں دیکھا ہے منظر دھوپ کا
ایک بوڑھا پیڑ تھا آنگن میں وہ بھی کٹ گیا
ہر ستم سہنا پڑے گا اب ستم گر دھوپ کا
خشک دھرتی پر گھٹا بن کر برس جاؤں اگر
شرم سے کٹ جائے گا مضبوط شہپر دھوپ کا
آئینہ گر کی لطافت کے ہنر سے ایک دن
خود پگھل کر موم ہوجائے گا پتھر دھوپ کا
پیاس ہونٹوں پر لیے میں چل پڑا جب بھی سعیدؔ
سامنے بہتا نظر آیا سمندر دھوپ کا



سعید رحمانی

Post a Comment

Previous Post Next Post