فلک کی وسعتوں میں رونما ماہِ منور ہے

فلک کی وسعتوں میں رونما ماہِ منور ہے
جبینِ شب پہ جیسے روشنی کا ایک جھومر ہے

سجا رکھی ہے تاروں نے اجالوں کی حسیں محفل
زمیں پر دور تک بکھری ہوئی کرنوں کی چادر ہے

کہیں جھرنے‘ کہیں دریا‘ کہیں کہسار کی جھرمٹ
ہمارے سامنے پھیلا ہوا خوش رنگ منظر ہے

بجھا پایا نہ اپنی تشنگی اس کے قریب آکر
اگرچہ جوش میں بہتا ہوا گہرا سمندر ہے

کہیں بھی پیڑ کا سایہ نہیں ملتا ہے سونے کو
مرے حصے میں شاید دھوپ کا منحوس بستر ہے

سعیدؔ اپنا سخن اک آئینے سے کم نہیں‘ جس میں
جمال و حسنِ فطرت کا ہراک عکسِ منور ہے

سعیدرحمانی

Post a Comment

Previous Post Next Post