سب سے پہلا قاتل و مقتول
روئے زمین پر سب سے پہلا قاتل قابیل اور سب سے پہلا مقتول ہابیل ہے ''قابیل و ہابیل'' یہ دونوں حضرت آدم علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ ان دونوں کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہر حمل میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے۔ اور ایک حمل کے لڑکے کا دوسرے حمل کی لڑکی سے نکاح کیا جاتا تھا۔ اس دستور کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کا نکاح ''لیوذا'' سے جو ہابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی کرنا چاہا۔ مگر قابیل اس پر راضی نہ ہوا کیونکہ اقلیما زیادہ خوبصورت تھی اس لئے وہ اس کا طلب گار ہوا۔
حضرت آدم علیہ السلام نے اس کو سمجھایا کہ اقلیما تیرے ساتھ پیدا ہوئی ہے۔ اس لئے وہ تیری بہن ہے۔ اس کے ساتھ تیرا نکاح نہیں ہو سکتا۔ مگر قابیل اپنی ضد پر اڑا رہا۔ بالآخر حضرت آدم علیہ السلام نے یہ حکم دیا کہ تم دونوں اپنی اپنی قربانیاں خداوند قدوس عزوجل کے دربار میں پیش کرو۔ جس کی قربانی مقبول ہو گی وہی اقلیما کا حق دار ہو گا۔ اس زمانے میں قربانی کی مقبولیت کی یہ نشانی تھی کہ آسمان سے ایک آگ اتر کر اس کو کھالیا کرتی تھی۔ چنانچہ قابیل نے گیہوں کی کچھ بالیں اور ہابیل نے ایک بکری قربانی کے لئے پیش کی۔ آسمانی آگ نے ہابیل کی قربانی کو کھالیا اور قابیل کے گیہوں کو چھوڑ دیا۔ اس بات پر قابیل کے دل میں بغض و حسد پیدا ہو گیا اور اس نے ہابیل کو قتل کردینے کی ٹھان لی اور ہابیل سے کہہ دیا کہ میں تجھ کو قتل کردوں گا۔ ہابیل نے کہا کہ قربانی قبول کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور وہ متقی بندوں ہی کی قربانی قبول کرتا ہے۔ اگر تو متقی ہوتا تو ضرور تیری قربانی قبول ہوتی۔ ساتھ ہی ہابیل نے یہ بھی کہہ دیا
کہ اگر تو میرے قتل کے لئے ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھ پر اپنا ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے ہی پلے پڑیں اور تو دوزخی ہوجائے کیونکہ بے انصافوں کی یہی سزا ہے۔ آخر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔ بوقت قتل ہابیل کی عمر بیس برس کی تھی اور قتل کا یہ حادثہ مکہ مکرمہ میں جبل ثور کے پاس یا جبل حرا کی گھاٹی میں ہوا۔ اور بعض کا قول ہے کہ بصرہ میں جس جگہ مسجد ِ اعظم بنی ہوئی ہے منگل کے دن یہ سانحہ ہوا۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
روایت ہے کہ جب ہابیل قتل ہو گئے تو سات دنوں تک زمین میں زلزلہ رہا۔ اور وحوش و طیور اور درندوں میں اضطراب اور بے چینی پھیل گئی اور قابیل جو بہت ہی گورا اور خوبصورت تھا بھائی کا خون بہاتے ہی اس کا چہرہ بالکل کالا اور بدصورت ہو گیا۔ اور حضرت آدم علیہ السلام کو بے حد رنج و قلق ہوا۔ یہاں تک کہ ہابیل کے رنج و غم میں ایک سو برس تک کبھی آپ کو ہنسی نہیں آئی۔ اور سریانی زبان میں آپ نے ہابیل کا مرثیہ کہا جس کا عربی اشعار میں ترجمہ یہ ہے ؎
تَغَیَّرَتِ الْبِلاَدُ وَمَنْ عَلَیْھَا فَوَجْہُ الْاَرْضِ مُغْبَرٌ قَبِیْح،
تَغَیَّرَ کُلُّ ذِیْ لَوْنٍ وَطَعْمٍ وَقَلَّ بَشَاشَۃُ الْوَجْہِ الصَّبِیْح،
ترجمہ: تمام شہروں اور اُن کے باشندوں میں تغیر پیدا ہو گیا اور زمین کا چہرہ غبار آلود اور قبیح ہو گیا۔ ہر رنگ اور مزہ والی چیز بدل گئی اور گورے چہرے کی رونق کم ہو گئی۔
حضرت آدم علیہ السلام نے شدید غضب ناک ہو کر قابیل کو پھٹکار کر اپنے دربار سے نکال دیا اور وہ بدنصیب اقلیما کو ساتھ لے کر یمن کی سرزمین ''عدن''میں چلا گیا۔ وہاں ابلیس اس کے پاس آکر کہنے لگا کہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے اس لئے کھا لیا کہ وہ آگ کی پوجا کیا کرتا تھا لہٰذا تو بھی ایک آگ کا مندر بنا کر آگ کی پرستش کیا کر۔ چنانچہ قابیل پہلا وہ شخص ہے جس نے آگ کی عبادت کی۔ اور یہ روئے زمین پر پہلا شخص ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی
اور سب سے پہلے زمین پر خون ناحق کیا اور یہ پہلا وہ مجرم ہے جو جہنم میں سب سے پہلے ڈالا جائے گا اور حدیث شریف میں ہے کہ روئے زمین پر قیامت تک جو بھی خون ناحق ہو گا قابیل اس میں حصہ دار ہو گا کیونکہ اسی نے سب سے پہلے قتل کا دستور نکالا اور قابیل کا انجام یہ ہوا کہ اس کے ایک لڑکے نے جو کہ اندھا تھا اس کو ایک پتھر مار کر قتل کردیا اور یہ بدبخت نبی زادہ ہونے کے باوجود آگ کی پرستش کرتے ہوئے کفر و شرک کی حالت میں اپنے لڑکے کے ہاتھ سے مارا گیا۔
( روح البیان،ج۲،ص۳۷۹،پ۶،المائدۃ: ۲۷ تا ۳۰)
ہابیل کے قتل ہوجانے کے پانچ برس بعد حضرت شیث علیہ السلام پیدا ہوئے جب کہ حضرت آدم علیہ السلام کی عمر شریف ایک سو تیس برس کی ہوچکی تھی۔ آپ نے اپنے اس ہونہار فرزند کا نام ''شیث''رکھا۔ یہ سریانی زبان کا لفظ ہے اور عربی میں اس کے معنی ''ھبۃ اللہ'' یعنی ''اللہ کا عطیہ''ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پچاس صحیفے جو آپ پر نازل ہوئے تھے ان سب کی حضرت شیث علیہ السلام کو تعلیم دی اور ان کو اپنا وصی و خلیفہ اور سجادہ نشین بنایا۔ اور ان کی نسل میں خیر و برکت ہونے کی دعائیں مانگیں۔ ہمارے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی حضرت شیث علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔
(روح البیان،ج۲،ص۳۷۶،پ۶،المائدۃ: ۳۰)
اس واقعہ کو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:۔
وَاتْلُ عَلَیۡہِمْ نَبَاَ ابْنَیۡ اٰدَمَ بِالْحَقِّ ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِیۡنَ ﴿27﴾لَئِنۡۢ بَسَطۡتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیۡ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیۡکَ لِاَقْتُلَکَ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿28﴾اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ تَبُوۡٓاَ بِاِثْمِیۡ وَ اِثْمِکَ فَتَکُوۡنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ ۚ وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ29﴾فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیۡہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیۡنَ ﴿30﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور انہیں پڑھ کر سناؤ آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر جب دونوں نے ایک ایک نیاز پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ قبول ہوئی۔ بولا قسم ہے میں تجھے قتل کردوں گا۔ کہا اللہ اسی سے قبول کرتا ہے جسے ڈر ہے بیشک اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر بڑھائے گا کہ مجھے قتل کرے تو میں اپناہاتھ تجھ پر نہ بڑھاؤں گا کہ تجھے قتل کروں میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو مالک سارے جہان کا۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے ہی پلہ پڑے تو تو دوزخی ہوجائے۔ اور بے انصافوں کی یہی سزا ہے تو اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا تو اسے قتل کردیا تو رہ گیا نقصان میں۔ (پ6،المائدۃ:27تا30)
درس ہدایت:۔اس واقعہ سے چند ہدایتوں کے سبق ملتے ہیں:۔
(۱)دنیا میں سب سے پہلا جو قتل اور خون ناحق ہوا وہ ایک عورت کے معاملہ میں ہوا۔ لہٰذا کسی عورت کے فتنہ عشق میں مبتلا ہونے سے خدا کی پناہ مانگنی چاہے۔
(۲)قابیل نے جذبہ حسد میں گرفتار ہو کر اپنے بھائی کو قتل کردیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسد انسان کی کتنی بری اور خطرناک قلبی بیماری ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں
وَ مِنۡ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ٪﴿5﴾
(پ30،الفلق:5) فرما کر حکم دیا گیا کہ حاسد کے حسد سے خدا کی پناہ مانگتے رہو۔
(۳)خون ناحق کتنا بڑا جرم عظیم ہے کہ اس جرم کی وجہ سے ایک نبی علیہ السلام کا فرزند اپنے باپ حضرت آدم علیہ السلام کے دربار سے راندہ درگاہ ہو کر کفر و شرک میں مبتلا ہو کر مرگیا۔ اور قیامت تک ہونے والے ہر خونِ ناحق میں حصہ دار بن کر عذاب جہنم میں گرفتار رہے گا۔
(۴)اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص کوئی برا طریقہ ایجاد کرے تو قیامت تک جتنے لوگ اس برے طریقے پر عمل کریں گے سب کے گناہ میں وہ برابر کا شریک اور حصہ دار بنے گا۔
(۵)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکوں کی اولاد کا نیک ہونا کوئی ضروری نہیں ہے، نیکوں کی
اولاد بری بھی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام خدا کے مقدس نبی اور صفی اللہ ہیں مگر ان کا بیٹا قابیل کتنا خراب ہوا، وہ آپ پڑھ چکے۔ ہمیشہ ہر شخص کو چاہے کہ فرزند صالح اور نیک اولاد کی دعائیں خدا سے مانگتا رہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
Post a Comment